” اس واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ زندہ لاشوں کی طرح گھوم رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ہی ان ذمہ داروں کو سزا مل جائے جو ان بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں”۔
”چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا چاہیے جس سے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔
سرکاری تحقیقات سے مطمئن نہیں، والدین”۔
کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کہ درج بالا الفاظ کس سانحہ سے متعلق ہیں ، یہ الفاظ میں نے سانحہ بلدیہ ٹاون کے حوالے سے کچھ ہی پہلے رپورٹ کیے تھے جب اس کیس سے متعلق خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایاتھا، ڈھائی سو سے زائد زندہ جل جانے والے مزدوروں کے والدین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے ،لیکن یہ الفاظ میں نے اس وقت بی بی سی کی ویب سائت سے لیے ہیں جو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متعلق کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے موقع پر ان بچوں کے والدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ادا کیے۔
وطن عزیز میں سانحات اتنے ہوگئے ہیں کہ ان پر ردعمل ظاہر کرنے کیلیے الفاظ کم پڑ گئے ہیں ، اسی طرح چیف جسٹس گلزار احمد کے الفاظ بی بی سی نے کچھ اس طرح رپورٹ کیے: ’’حکومت کو ایسے اقدامات کرنا چاہیے جس سے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے‘‘۔
ججوں کے یہ ریمارکس بھی اب اسٹریو ٹائپ ہوگئے ہیں ہو یکسانیت پیدا ہوگئی ہے کہ اگر یقین نہ آئے تو آئندہ کسی بھی روز مسنگ پرسنز،اسلام آباد سے کسی کی گمشدگی ،ہلاکت اور دہشت گردی کے واقعہ کی سماعت کے موقع پر دیکھ لیجے، یہ تو تھی عدالتی بات لیکن حکمرانوں کا بھی یہی معاملہ ہے ، برسات ، طوفان ، زلزلہ، دشمن ملک کے حملے ، وبا سے شہریوں کی ہلاکت کسی بھی معاملے کو دیکھئے نوٹس لینے کا ایک سلسلہ وزیر اعظم سے شروع ہوتا ہے اور ڈپٹی کمشنر تک شروع ہوجاتا ہے۔ اب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کی روک تھام کس کی ذمہ داری ہے؟ بس نوٹس تو سب ہی لیتے ہیں اور اپنے ماتحت سےرپورٹ بھی طلب کرلیتے ہیں، اکثر یہ رپورٹ اس قدر جلد طلب کی جاتی ہے کہ متعلقہ اتھارٹی کواس واردات، حادثہ کے وقوع پذیر ہونے کا بھی علم نہیں ہوتا جیسا کہ سانحہ موٹر وے میں ہوا، جیسے ہی خبر ٹی وی اسکرینوں کی زینت بنی ،ہر سطح کے حکمران نے نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے فوری رپورٹ طلب کرلی۔ پولیس بیچاری کو کچھ پتہ ہوتا تو بتاتی وہ تو سی سی پی او لاہور بیچارا اپنی تقرری کی پریشانی میں تھا، موٹر وے پولیس نے واقعہ کو اپنی حدود سے باہر قرار دیدیا۔ وزیر اعلی پنجاب رات رات بھر جاگ کرجانے کیا کچھ کرتے رہے ، محترم شہباز گل اس بارے میں کچھ بتادیتے تھے لیکن ان پر آج کل طلال چوہدری پر تشدد اور اب نواز شریف کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بوجھ آ پڑا ہے۔
فیاض چوہان کو وفاقی وزیر فواد چوہدری کے دماغ سے بھوسہ نکالنے کا طریقہ سوچنا ہے ، اب ملزم عابد کی گرفتاری ہی تو پورے پاکستان کا مسئلہ نہیں ، دوسری طرف ایس ایچ او وغیرہ قسم کے افسران ہیں وہ اس ہائی پروفائل کیس میں دم بھی نہیں مارسکتے ، غرض صورتحال یہ ہےکہ سانحے پر سانحہ ،سیاسی جماعتوں کیلئے عوامی مسائل ،منشور اور سیاسی تربیت دور کی بات ،صرف اسٹیبلشمنٹ سےملاقاتوں کو معاملہ ہی نہیں نمٹ رہا، ملاقات کریں تو فوٹو ایسے جاری ہوتے ہیں جیسے کوئی جرم کرلیا ہو، اور اگر ملاقات سے انکار کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ اپنے ہی ملک کے تو ہیں کسی دشمن ملک کے تو نہیں ، ساتھ بیٹھ کر چائے پی لی جائے تو کیا فرق پڑتاہے۔
سیاستدانوں کی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات ،ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار پاتی ہیں ، آئی ایس پی آر اس پر بات کرتا ہے، پھر وزارت اطلاعات کیوں پیچھے رہے جبکہ شیخ رشید سے اچھا تو اس موضوع پر کوئی اور بول ہی نہِیں سکتا لیکن اگر فواد چوہدری کی زبان سے جھڑتے پھول اگر کسی نے نہ نا دیکھے تو اسے سیاست کا طالبعلم بھی نہیں کہا جاسکتا، ایسے میں کوئی کیا کرے ، اس لیے عوام کو انہی لگے بندھے بیانات ، نوٹسز اور ریمارکس پرگزارا کرنا ہوگا کیونکہ قومی قیادت بہت مصروف ہے جب یہ معاملہ طے ہوگیا ہے کہ پرانی باتوں کو ہی نیا کرکے پیش کرنا ہے تو ہم صحافیوں کو کیا پڑی ہے کہ کچھ تحقیقات وغیرہ کے چکر میں پڑیں ، اس لیے ہم نے بھی پرانے واٹس ایپ ٹکرز کو دوبارہ جوڑ کر جو لکھ دیا اسے بھڑاس ،کالم ،وی لاگ جو چاہے سمجھ لیں ،یہی حاضر ہے۔