میں نے اپنے موبائل میں لکھا پتا اس کے سامنے کر دیا اور اپنے تلفظ میں اس ہوٹل کا نام بتایا ۔ ٹیکسی والے نے میرا فون اپنے ہاتھ میں لے کر اُلٹ پُلٹ کر دیکھا پھر کہا:
“ گڈ آئی فون۔۔۔ ہاؤ مچ؟
مجھے اس کی بے تکلفی بالکل پسند نہیں آئی۔ میں نے اپنا فون اس سے لینے کی کوشش کی تو وہ سر کو جھٹک کر بولا ۔۔۔۔ نو ۔۔ نو ۔۔۔۔ ایڈریس ہوٹل ۔۔۔ فون نمبر ہوٹل
اتنے میں شاید موبائل کی اسکرین آف ہوگئی تھی تب ہی اس نے فون مجھے دیا کہ کوڈ ڈال کر کھولوں۔ میں نے جلدی سے فون لے کر ترک فون سروس سے اپنا فون کنکٹ کیا اور ہوٹل کو براہ راست فون کر کے لوکیشن معلوم کی ۔ ٹیکسی ڈرائیور مسلسل فون مانگ رہا تھا ۔ میں نے ہوٹل کا پتہ اور فون نمبر جلدی سے ایک کاغذ پر لکھ کر اسے تھما دیا ۔ شاید اسے یہ بھلا نہ لگا تب ہی دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو کو وہ ایک گھنٹہ طول دے کر ہوٹل کے سامنے ٹیکسی کھڑی کرکے میرا سامان غصے سے اُتارنے لگا۔ میں نے اس کو دو سو کا نوٹ دیا تو طے کیے گئے پچاس لیرا کاٹ کر ڈیڑھ سو واپس کرنےکے بجائےٹیکسی میں بڑبڑاتے ہوا بیٹھا اور ایک جھٹکے سے غائب ہو گیا۔ میں انٹرنیٹ پر تقسیم سے ہوٹل تک کا تیس لیرا کرایہ دیکھ کر گھر سے چلی تھی لیکن پہلا جھٹکا ہی خاصا تیز تھا۔ پہلا تو شاید نہیں اس سے قبل ائیر پورٹ پر انتظار اور بس سروس بھی زیادہ مثبت تاثر نہیں دے گئے تھےاور راشد حق صاحب کا انتظار بھی۔
بہر حال اب میں ہوٹل میں تھی ۔ استقبالیہ پر ایک نوجوان دیگر مہمانوں کے استقبال اور ان کو کمرے کی چابیاں دینے سے قبل کی ابتدائی کارروائی میں مصروف تھا۔ میں وہیں لاؤنج میں رکھے ایک صوفے پر بیٹھ گئی ۔ جب رش کم ہوا تو کاؤنٹر پر جاکر اپنی ریزرویشن کی رسید اُسے دکھائی۔ اُس نے میرا پاسپورٹ طلب کیا اور چائے کافی کا پوچھا۔ میں نے چائے کی درخواست کی تو وہ کہنے لگا کہ آپ یہاں بیٹھ کر چائے پیئیں یا اپنے کمرے میں آرام کریں تب تک میں آپ کا ہوٹل میں اندراج مکمل کر لیتا ہوں اور پاسپورٹ کی کاپی بھی کر لیتا ہوں۔ پاسپورٹ آپ بعد میں لے لیجئے گا۔ لیکن پردیس میں پاسپورٹ کے معاملے میں میں لاپرواہی سے گریز کرتی ہوں تب ہی وہاں لاؤنج میں ہی چائے پیتی رہی اور وہ ریسیپشنٹ میرا استنبول اور ہوٹل میں اندراج مکمل کرتا رہا۔ پاسپورٹ لے کر میں اپنے کمرے میں آگئی۔
کمرا اور باتھ روم صاف ستھرے تھے اور کمرے کے ساتھ ملحقہ ایک ٹیرس بھی تھا۔ جہاں سے مسجد الفاتح کا بلند مینار بالکل قریب دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی میں ٹیرس سے ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی کہ ظہر کی آذان شروع ہوگئی ۔ پر سکون فضا میں آذان کی گونجتی آواز دل پر ایک عجیب طرح کا سکون دے رہی تھی۔ میں نے کچھ دیر بعد وضو کیا اور قبلہ رخ بچھی جائے نماز پر ظہر کی نماز ادا کی ۔ اپنے بیگ میں رکھا ایک سینڈ وچ جو انور نے زبردستی مجھے راستے میں کھانے کے لیے دیا تھا نکال کر کھایا اور راستے سے خریدی پانی کی بوتل بیگ سے نکال کر پینے اور اپنی دوائیاں لینے کے بعد راشد حق صاحب کو پیغام لکھ بھیجا کہ میں ہوٹل میں آرام کر رہی ہوں، عصر کے بعد ملاقات ہو گی۔ٹیرس کا دروازہ بند کرکے اور دروازے پر نو ڈسٹرب کا ٹیگ لگا کر میں نے گھر فون کرکے خیریت سے استنبول اور ہوٹل پہنچنے کی اطلاع دی اور کچھ دیر بعد آنکھیں نیند سے بوجھل ہونا شروع ہوگئیں۔
کچھ دیر بعد عصر کی آذان کی آواز پر آنکھ کھلی ۔ نیند کا غلبہ اس قدر تھا کہ اذان سننے کے بعد دوبارہ بستر میں لیٹ گئی۔ گھنٹہ بھر بعد اٹھ کر نماز ادا کی اور تیار ہوکر ہوٹل سے باہر آگئی سخت بھوک لگی تھی ابھی کوئی ڈھابہ تلاش کر ہی رہی تھی کہ راشد صاحب کا فون آگیا کہ وہ ہوٹل کے استقبالیہ میں میرے منتظر ہیں۔ میں لوٹ کر واپس ہوٹل آگئی۔ درمیانی قد و قامت اور گندمی رنگت کے تیس بتیس سالہ ایک نوجوان کو اپنا منتظر پایا۔ (جاری)۔