انگریز سے مزاحمت کی تاریخ میں اس خطے کا ایک اور لازوال کردار فقیر آف ایپی کا ہے۔جو آج بھی پختون علاقے میں ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔یہ دیو مالائی داستان پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان سے تعلق رکھتی ہے۔
فقیر ایپی کی مزاحمتی تحریک نے بڑا نام کمایا۔یہ تحریک 1936 میں شروع ھوئی۔ 1939 کے جنگ عظیم دوم اور جرمنی کی افغانستان کے ذریعےبرطانیہ کو زک پہنچانے کی کوشش کے ساتھ بین الاقوامی شہرت اختیار کرگئی۔ اندرون انڈیا آل انڈیا نیشنل کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے تعاون اور بیرون دنیا جرمن کے تعاون کی کوشش نے اسے بین الاقوامی فورم میں جگہ دی۔
فقیر ایپی (1897ء تا 1960ء) جن کا اصل نام مرزا علی خان تھا، شمالی وزیرستان کے ایک پشتون تھے۔ ان کے معتقدین ان کو حاجی صاحب کہتے تھے۔۔آپ اوائل عمری میں ایک درویش صوفی تھے۔
آپ 1897 کو شمالی وزیرستان کے گاؤں ”کیرتہ” میں ارسلا خان کے گھر پیدا ہوئے۔ قبیلہ توری خیل وزیر کے مدی خیل شاخ سے تعلق تھا۔ روایتی دینی تعلیم گاؤں میں حاصل کی۔ بعد ازاں مزید حصول علم کے لیے بنوں تشریف لے گئے۔
1924 تک فقیر ایپی ایک گمنام شخص تھا۔ 1927 میں جب خوست میں فسادات ہوئےتو خوست جانے والے قومی لشکر میں بطور ایک سپاہی کے شامل ہوئے۔1934 میں وزیرستان میں میرعلی کے قریب گاؤں ایپی میں مسجد کے امام بن گئے۔ تو لوگ آپ سے انتہائی عقیدت رکھنے لگے اس طرح سے آپ کو لوگ ایک روحانی شخصیت کے طور پر جاننے لگے اور روحانی تعلق اور سادہ مزاج ہونے کی وجہ سے فقیر کے نام سے مشہور ہوئے۔حاجی مرزا علی خان بعد میں فقیر آف ایپی کے نام سے مشہور ہوئے۔
تاریخی اعتبار سے یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ فقیر آف ایپی اور انگریزوں کے مابین لڑائی کی وجہ ایک مذہبی اور قبائلی معاملہ تھا۔ جس میں ایک ہندو لڑکی کا اسلام قبول کر کے ایک پشتون مسلمان سے شادی کرنا تھی ۔
فقیر آف ایپی کی زندگی کو نیا رخ دینے والا یہ واقعہ بنوں میں ہونے والا اسلام بی بی کا قضیہ تھا۔ جب آپ بنوں میں تھے اس دوران ایک ہندو لڑکی جس کا نام اپنا رام کوری تھا ایک پختون نوجوان امیر نور علی شاہ کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور اسلام بھی قبول کر لیا جس کا اسلامی نام نور جہاں المعروف اسلام بی بی رکھا گیا۔ بعد ازاں اپنا رام کوری اور نور علی شاہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے مگر لڑکی کے خاندان والوں نے اس رشتے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔لڑکی کی ماں نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کی درخواست انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس جمع کرادی۔
انگریز پولیٹیکل ایجنٹ نے خفیہ طور پر لڑکی کو برآمد کرکے نور علی شاہ کو اپنے قانون کے مطابق دو سال قید کی سزا دی اور اسے ہری پور جیل بھیج دیا گیا۔ نیز اس واقعے کو انگریز سرکار نے غیر ضروری توجہ دی۔ لڑکی کو ایک ھندو تاجر بوگائی کے ھاتھ ھندوستان ہوشیار پور پہنچایا گیا جس کی وجہ سے پورے وزیرستان میں اشتعال پھیل گیا۔۔ اس مسئلے پر وزیرستان میں کئی جرگے منعقد ہوئے مگر انگریز سرکار نے لڑکی کی واپسی سے انکار کیا ۔فقیر ایپی وزیرستان جا کر ”خیسورہ” میں مقیم ہوگئے اورایک جرگہ کے بعد انگریز سرکار سے اسلام بی بی کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن انگریز نہ مانے۔ اس واقعہ نے پشتون قوم کے جذبات ابھارے نیز اسے مذہبی و قبائلی مسئلہ بناتے ہو ئےفقیر ایپی نے اس موقع پر انگریز سرکار سے لڑنے کا ارادہ کیا۔بہت سے قبائلی پشتون ان کے شریک محفل ہوئے اور غازی بننے کا اعلان کر دیا۔ بہت جلد ان کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا۔ پولیٹکل حکام نے ان کے گھر بار جلا دیے۔ ان کا گھر مسمار کر دیا گیا۔ اس پر فقیر ایپی نے گوریلا کارروائیاں شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس طرح تاریخ میں ایک صوفی مزاج بندہ پختون تاریخ کا ایک عظیم گوریلا جنگجو کمانڈر بن گیا۔
فقیر ایپی نے وقت اور حالات کے مطابق براہ راست لڑائیوں کے بجائے اپنے جغرافیہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منظم گوریلا کارروائیوں کیلئے ہزاروں کی تعداد میں جان نثار ساتھی تیار کرلئے۔ فقیر کو گرفتار کر نے کیلئے انگریز نے دو بریگیڈ فوج جن کی تعدادِ ھزاروں میں بتائی جاتی ہے25 نومبر1936 کو جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ مسٹر کریکٹن اور اس کے نائب خان محمد نواز اور مسٹر ریزیڈنٹ کی قیادت میں خیسورہ بھیجی مگر تین دن کی شدید لڑائی کے باوجود انگریز فقیر کو گرفتار کر نے میں ناکام رہے۔ اس دن کی لڑائی میں انگریز فوج کے270 فوجی مارے گئے جن میں میجر ٹینڈال اور کیپٹن بایڈ بھی شامل تھے۔ اسی طرح ڈمڈیل کے علاقے میں بھی سخت لڑائی ہوئی جس میں میجر سیکومب سمیت309 فوجی مارے گئے جبکہ اس پوری لڑائی میں فقی…
[2:46 PM, 9/21/2020] Tariq Kaleem: ان پر جہازوں سے بمباریاں ہوتی رہیں جبکہ ان تمام لڑائیوں میں انگریز کو بے تحاشا مالی اور جانی نقصان پہنچایا گیا۔ عام لوگوں کو انگریز کی بمباریوں اور فوجی کارروائیوں سے بچانے کیلئے فقیر نے اپریل1938 میں ڈیورنڈ کے قریب پہاڑی ڈھلوانوں کے تنگ گھاٹیوں میں اپنا جنگی مرکز ”گورویک” کے مقام پر بنایا جہاں سے گوریلا مزاحمت جاری رکھی گئی اور کئی لڑائیاں وہاں سے پلان کرکے لڑی گئیں جن میں ”پکی گاؤں” کی لڑائی، ممیش خیل، الیگزینڈر پوسٹ، خونی زاوہ، ایشا رزمک، ڈانڈئی سرائے برید اور دوسری بے شمار لڑائیاں شامل ہیں جن کا سلسلہ آزادی تک طویل ہے-
۔بنوں سے کافی لوگ غازی بن کر ان کے صف میں شامل ہو گئے۔ جن میں گلنواز خان سوارنی جو بعد میں خلیفہ گلنواز کہلائے سابقه وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے دادا۔ خلیفہ مولانا عبدالرحمن شہید عرف طور مولوی عیدک جو معرکہ شکتی کے مقام پر شہید ہوئے – ایوب نواز ممشش خیل جو جرنیل ایوب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ شیری اور رب نواز خان برادران ممش خیل جنہوں نے بعد میں بے مثال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنوں کے نزدیک ایک فوجی دستے پر خود کش
حملہ کیا۔ کچھ غازی بھی شہید ہوئے مگر ایک فوجی دستے کے کمانڈر کو ہلاک کرکے اس کا سر تن سے جد کیا اور اسے ساتھ لے گئے۔ بعد میں علاقے کے باسیوں کو وحشیانہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
شیر دل خان جرنیل سروبڈا۔ محمد امین خان شہید حسن خیل، فضل استاد جی شہید سورانی، ماسٹر امیر صاحب خان، مشک عالم سپرکئی وزیر جو نیظیم بازار بنوں میں ایک کشمکش کے دوران شہید ہوئے۔ مہر دل خٹک جو بعد میں خلیفہ بنے اور خلیفہ مہر دل مشہور ہوئے۔ وہ بنوں شہر کو لوٹنے کے لئےدن کے اجالے میں مع لشکر نکلے اور کامیاب لوٹ مار کے بعد بڑا نام پایا۔ مہر دل خٹک کے واقعے کی وجہ سے حکومت نے سورانی کے باسیوں پر بھاری جرمانہ عاید کیا کیونکہ انہوں نے لشکر کی ضیافت کی اور یہ کہ انہوں نے لشکر کا راستہ نہیں روکا تھا۔ ریلوے گیٹ کو مقفل کر دیا۔ کیونکہ اسی دروازے سے خلیفہ مہر دل خٹک بنوں شہر میں داخل ہوئے تھے۔
یوں اگر دیکھا جائے تو فقیر آف ایپی کی مزاحمتی کارروائیوں نے شمالی وزیرستان میں انگریزوں پر زندگی تنگ کر دی۔ وہ شب و روز فوجی دستوں پر شب خون مارتے رہے۔ اور گوریلا جنگ کا آغاز کرکے سرکاری فوجوں کو زبردست مالی اور جانی نقصان پہنچاتے رہے۔ انہوں نے بہت سارے محازوں پر انگریزوں کا سامنا کیا۔ اورکامیاب مقابلہ کیا۔ لیکن وہ ایک عکسری مزاحمت کار اور حریت پسند ہی نہ تھا بلکہ لوگوں کو ان سے روحانی واستگی بھی رہی۔فقیر آف ایپی کے مزار پر آج بھی ان کے عقیدت مندوں کی بھیڑ رہتی ہے اور ان کا عرس بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔