پنجاب کے معروف ترقی پسند کسان راہنما چوہدری فتح محمد (1925- 2020) نے اپنی خودنوشت ‘جو ہم پہ گزری’ میں ایوب خان کے ہاتھوں لگنے والے پہلے مارشل لا کے دوران سیاسی جماعتوں کی بندش اور سیاسی کارکنان و قائدین کی گرفتاری کا تذکرہ بھی کیا ھے۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں تفتیش اور سنٹرل جیل کوٹ لکھپت جہاں فیض احمد فیض بھی اسیر مارشل لا تھے کے احوال بیان کرتے ہوئے چوہدری فتح محمد لکھتے ہیں۔
“یہ لاہور کی سنٹرل جیل کوٹ لکھپت تھی۔ میرے وہاں پہنچنے سے قبل جناب فیض احمد فیض کے دم سے یہاں رونقیں تھیں۔ بڑی دیر مختلف معاملات پر بات چیت چلتی رہی۔ لاہور قلعے کے عقوبت خانے سے نکل کر یہاں آنے پر فیض صاحب کو موجود پاتے ہوئے قیدوبند کا احساس ختم ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ یوں لگا کہ گھر آ گئے ہیں۔ میں نے فیض صاحب سے کہا کہ حکمرانوں نے ہمیں تو اس لیے پابند سلاسل کر رکھا ھے کہ وہ ہمیں بھارت اور روس کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ آپ کو انہوں نے کس جرم کی پاداش میں محبوس کر رکھا ھے ؟ اس پر فیض صاحب کے لبوں پر وہ مسکراہٹ کھیل گئی جو ان کی مخصوص پہچان تھی۔ انہوں نے کہا: “ہمیں وہ انٹرنیشنل ایجنٹ سمجھتے ہیں۔”
فیض صاحب کی مصاحبت میں جیل کاٹنا کسی تفریح سے کم نہیں تھا۔ جیل حکام انہیں بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے۔ یہاں ہم سب اسیران مارشل لا 1958ء مل کر کھانا کھاتے۔ فیض صاحب کے فیض سے جیل حکام نے بڑی شاندار کراکری مہیا کی ہوئی تھی۔ فیض صاحب کے لیے ایک الگ کمرے کا انتظام تھا جس میں ساری سہولتیں بہم پہنچائی گئی تھیں۔ فیض ہر روز صبح سوٹ پہن کر تیار ہو جاتے۔ سردیوں کا موسم تھا کھلی دھوپ میں ان کے لیے کرسی رکھ دی جاتی۔ جیل سپرنٹینڈنٹ اور دیگر ملازمین فیض صاحب سے ملنے آتے تو انہیں باقاعدہ سیلیوٹ کرتے۔ ہر روز فیض صاحب کے لیے گارڈز کا اہتمام کیا جاتا جو انہیں لے کر شہر جاتے۔ کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس اور کبھی کتابوں کی دوکانوں پر۔ شام تک انہیں واپس جیل پہنچا دیا جاتا۔ اس زمانے میں سیاسی قیدیوں کے انچارج ڈی آئی جی رضوی تھے اور وہ فیض صاحب کے کلاس فیلو تھے۔
ایک روز میں نے فیض صاحب سے پوچھا: “جیل میں تو کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا کسی سے ملنا نہیں ہوتا پھر بھی آپ صبح ہی صبح سوٹ پہن کر بیٹھ جاتے ہیں جیسے آپ کی دفتر کی روٹین ہوتی ھے۔” اس پر انہوں نے کہا ” جیل حکام وہ انسان ہیں جو کسی دوسرے کو انسان نہیں سمجھتے۔ اگر آپ جیل میں موزوں لباس میں نہیں ہونگے تو جیل کا وارڈن بھی آپ کا مناسب احترام نہیں کرے گا۔” ان کی یہ بات مشاہدے کی روشنی میں بالکل درست تھی۔
چوہدری فتح محمد۔ جو ہم پہ گزری۔ صفحہ ٩٨۔ ٩٩ ۔ سانجھ پبلیکیشنز لاہور۔ ٢٠١٥