ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہاں “مُردے” بھی ووٹ ڈالتے ہیں۔ مگر اب اس کا کیا کیجیے کہ پارلیمنٹ میں بھی “مردے” ووٹ ڈالنے لگ گئے ہیں۔ یقین نہیں آیا ناں! مگر یہ سچ ہے اور ایسا پارلیمنٹ کے گزشتہ مشترکہ اجلاس میں ہوا۔ سینیٹ ارکان کے حاضری رجسٹر کے مطابق 16 ستمبر کو پارلیمنٹ کے آٹھویں مشترکہ اجلاس میں نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو (اللہ غریق رحمت کرے) بھی حاضر تھے اور یقینا ووٹ بھی کاسٹ کیا ہوگا۔ ایسا کیوں ہوا اس کا ذکر کچھ دیر میں۔ پہلے اس اجلاس سے متعلق کچھ مزید دلچسپ چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
صدر مملکت نے 16 ستمبر 2020ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا۔ جس کا مقصد حکومت کے بقول ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے کچھ اہم اور ناگزیر قانون سازی کرنا تھی۔ دونوں ایوانوں کے مجموعی ارکان میں بھی اپوزیشن کی تعداد حکومتی اراکین سے زیادہ ہے مگر ہمیشہ کی طرح “جادو” یا “مفاہمت” کی چھڑی گھومی اور حکومت نے 190 کے مقابلے میں 200 ووٹ لیکر قانون منظور کرالئے۔ اپوزیشن نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر گنتی میں ہیرا پھیری کا الزام لگایا جسے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے نہ صرف مسترد کیا بلکہ واضح کیا کہ گنتی بالکل درست تھی۔ اس اہم قانون سازی میں نمایاں کردار ایوان میں موجود ارکان کے بجائے غیر حاضر رہنے والوں کا رہا۔ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے 41 ارکان غیر حاضر تھے۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مشترکہ اجلاس حکومت اور اپوزیشن کی نورا کشتی تھی۔ صرف عوام کو دھوکا دینے کی کوشش،، سب معاملات پہلے سے طے شدہ تھے۔ اسی لیے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی اپنے تمام ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے تگ و دو نہیں کی۔ اگر غیر حاضر ارکان کے ناموں پر نظر ڈالی جائے تو اس خیال کو زیادہ تقویت ملتی ہے۔ ایک ایسی قانون سازی میں جہاں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہے، حکمراں جماعت تحریک انصاف کے عامر لیاقت حسین سمیت اپنے 6 ارکان قومی اسمبلی غیرحاضر رہے۔ مسلم لیگ (ق) کے مونس الہٰی اور حکومتی اتحادی مسلم لیگ فنکشنل کے واحد سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے بھی اجلاس میں آنا گوارہ نہیں کیا۔ حکومتی اتحاد کے مجموعی طور پر 11 ارکان غیر حاضر تھے۔
بات کریں اپوزیشن ارکان کی تو معاملہ سمجھنا زیادہ سہل ہوجاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ طور پر ایک دو نہیں پورے اڑھائی درجن یعنی 30 ارکان اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ ان میں دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے 8، 8، مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کے 3 ارکان شامل ہیں۔ مرحوم میر حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی کے چار میں سے صرف ایک سینیٹر ہی اجلاس میں شریک ہوا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی دونوں ایوانوں میں ایک ایک نشست ہے مگر امیر حیدر ہوتی اور سینیٹر ستارہ ایاز دونوں ہی غیر حاضر تھے۔ ماضی میں حکومت کا حصہ اور پھر ناراض ہونے والے سردار اختر مینگل کو بھی کسی نے منانے کی کوشش نہیں کی اور سردار اختر مینگل سمیت ان کی پارٹی کے 2 ارکان اس اہم قانون سازی کا حصہ نہیں بنے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن بھی اجلاس میں نہیں آیا۔
یہ تو ذکر ہوا غیر حاضری کا۔ اب تذکرہ کرتے ہیں اجلاس میں حاضر یا موجود ارکان کا۔ 16 ستمبر کے سینیٹ حاضری رجسٹر کے مطابق 104 کے ایوان میں سے اُس روز 86 سینیٹر حاضر تھے۔ ایک سینیٹر (اسحاق ڈار) کی رکنیت معطل ہے جبکہ باقی 17 ارکان غیر حاضر تھے۔ قومی اسمبلی کے 342 رکنی ایوان کی 2 نشستیں خالی ہیں۔ 16 ستمبر کا حاضری رجسٹر دیکھا جائے تو پتہ چلتاہے کہ باقی 340 ارکان میں سے اُس روز 23 ارکان غیر حاضر تھے جبکہ حاضر ارکان کی تعداد 317 بنتی ہے۔ اس طرح سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس روز دونوں ایوانوں کے مجموعی 444 ارکان میں سے403 ارکان ایوان میں موجود تھے مگر گنتی کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے جو اعلان کیا اس کے مطابق حکومت کی حمایت میں 200 اور اپوزیشن کی حمایت میں 190 ووٹ آئے۔ اگر یہ دونوں ووٹ جمع کیے جائیں تو 390 بنتے ہیں۔ باقی 13 ووٹ کدھر گئے؟ کسی کو کچھ نہیں پتہ۔
سینیٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ حاضری رجسٹر میں حیران کن طور پر بلوچستان کے سینیٹرز کی فہرست میں 9 ویں نمبر پر نیشنل پارٹی کے سربراہ مرحوم میر حاصل بزنجو کا نہ صرف نام درج ہے بلکہ ان کا Attendance Status بھی Present لکھا گیا ہے۔ حالانکہ میر حاصل بزنجو کی وفات کے باعث خالی ہونے والی نشست پر ضمنی الیکشن ہوچکا اور بلوچستان عوامی پارٹی کے نومنتخب سینیٹر محمد خالد بزنجو رکنیت کا حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔ اب یہ پتہ نہیں کہ اس روز خالد بزنجو اجلاس میں موجود تھے یا نہیں کیونکہ حاضری رجسٹر میں ان کا نام درج نہیں۔