حزب اختلاف کے آج کے اجتماع کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اگر چند روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے تجربے کو پیش نظر رکھا جائے تو ٹائیں ٹائیں فش۔ اس کا مطلب یہ ہے زمینی حقائق اس وقت بھی ویسے ہی ہیں جیسے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت تھے۔
اس صورت حال کا پہلا مطلب یہ ہے کہ خود حزب اختلاف کی صفیں یک سوئی سے محروم ہیں۔ حزب اختلاف میں یک سوئی دو وجہ سے نہیں ہوتی، اول، اس کا مؤقف کوئی اخلاقی بنیاد نہ رکھتا ہو اور اس کے وابستگان اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعلق خاطر برقرار رکھتے ہوئے کسی غلط فیصلے کی حمایت میں پس و پیش کریں۔ دوم، زمینی حقائق اس کے لیے سازگار نہ ہوں۔ موجودہ حالات دوسری جانب اشارہ کرتے ہیں۔
اتوار کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور وڈیو لنک سے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی شرکت اور وڈیو لنک سے خطاب قومی سیاست میں ایک نئی پیش رفت کی خبر دیتی ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ میاں صاحب اپنے خطاب میں کوئی انقلابی اور فیصلہ کن بات نہ کہیں لیکن اس کے باوجود قومی سطح کی ایک اہم ترین سرگرمی میں ان کی شرکت حزبِ اختلاف کی سیاست کو اگلے مرحلے میں ضرور پہنچا دے گی۔
حکومت کے ترجمانوں، خاص طور پر شبلی فراز اور مرزا شہزاد اکبر نے عندیہ دیا ہے کہ میاں صاحب کا خطاب نشر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بعض باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کے خطاب کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ کا شیڈ ڈاؤن بھی کیا جا سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو حزب اختلاف کو ایک طرح کی ہزیمت ضرور ہوگی لیکن جبر کا یہ ہتھ کنڈہ اس کے عزم کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔
اتوار کی اے پی سی کو میاں صاحب کی ٹویٹر پر جلوہ آرائی کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔ انھوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دہرا کر ان تمام سوالوں کا جواب دے دیا ہے جو شہباز شریف کے نیم دروں نیم بروں انداز سیاست سے اٹھے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ حزب اختلاف نے زمینی حقائق کے غیر موافق ہونے کے باوجود اپنے طویل سفر پر ایک قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، محض ایک قدم۔ گویا لڑائی طویل ہے۔