چنیوٹ پنجاب کا ایک پسماندہ شہر ہے لیکن تاریخ کی شاہراہ پر اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں سعداللہ خان کا نام ہمیشہ امر رہے گا جنھوں نے مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے وزیر کی حیثیت سے غیر معمولی کارنامے انجام دیے۔ اس شہر میں سیاہ پتھر سے ان کی تعمیر کردہ مسجد برصغیر کے فن کا ایک نادر نمونہ ہے۔ یہ شہر صغیر کے ممتاز تاجروں کے لیے بھی معروف ہے۔ ” آوازہ” کے منفرد کالم نگار کو بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹو گرافر محمد اظہر حفیظ آج اسی شہر سے عمر حیات کے محل کی تصویر لائے ہیں۔ یہ محل کیا ہے، اس کے بارے میں وکی پیڈیا میں درج ہے:
عمر حیات محل (عمر حیات لائبریری) گلزار منزل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پاکستان کے شہر چنیوٹ کے مرکز میں واقع لکڑی کی بنی ایک اعلی قسم کی عمارت ہے۔ یہ ایک پانچ منزلہ عمارت ہے۔ بدقسمتی سے اس کی اوپر والی دو منزلیں 1993ء میں گر گئیں۔ گرنے کی وجہ شدید طوفان اور بارش تھی جس نے ساری منزل کو کافی حد تک نقصان پہنچایا۔ هر سال سینکڑوں کی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
اٹھارھویں صدی عیسویں کے اواخر اور انیسویں صدی عیسویں کی شروعات میں شیخ خاندان کے کئی افراد نے کلکتہ سے چنیوٹ ہجرت کی۔ شیخ عمر حیات جو کلکتہ کا ایک کامیاب تاجر تھا بھی انہی افراد میں سے ایک تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کے لیے ایک شاندار عمارت بنوانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ عمر حیات نے سید حسن شاه کو اس شاندار عمارت بنانے پر مامور کیا۔ سید حسن شاہ کے ساتھ مختلف مقامات کے مشہور فنکار بھی مامور تھے جنہوں نے دس سال تک اس کام کے لیے دن رات محنت کی۔ رحیم بخش پرجھا اور الہی بخش پرجھا جو ماہر منبت کار تھے انھوں نے لکڑی پر شاندار نقوش بنائے۔1929ء کے ایک مشہور اخبار میں لکھا تھا”شیخ عمر حیات کی بنائی گئی عمارت اپنے علاقے کی ایک شاندار عمارت ہے جسے بنانے میں چار لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ عمارت کا رقبہ آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے”۔ تعمیر کا کام 1935ء میں ختم ہوا۔ اسی سال اس کی تعمیر مکمل ہونے سے صرف دو ماہ قبل عمر حیات وفات پاگیا۔ عمر حیات کا صرف ایک بیٹا تھا جس کا نام گلزار محمد تھا۔ گلزار محمد نے 1938ء میں شادی کی۔ گلزار محمد کی شادی کے بالکل اگلے دن ان کی موت ہو گئی۔ اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر گلزار محمد کی والدہ کو ایک بڑا صدمہ لگا جسے وه برداشت نہ کر سکیں اور جلد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ گلزار محمد اور ان کو والدہ دونوں کو ایک ساتھ عمارت کے برآمدے میں دفن کیا گیا ہے۔ شیخ خاندان کے لوگ یہ سوچ کر یہاں سے چلےگئے کہ یہ شیخ خاندان کے لیے ایک منحوس جگہ ہے۔ اسی دوران میں ان کے ملازمین دو سال یہیں رہتے رہے اور جلد ہی یہاں کا حصہ بن گئے۔ کچھ مذہبی رہنماؤں نے اسے یتیم خانہ میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد اسے اس کی تاریخی فقدان کے بعد خالی کروایاگیا۔ اس کے بعد یہ قبضہ گروپ کے ہاتھ لگ گئی جنہوں نے اس عمارت کے اردگرد دکانیں اور مکانات بنا لیے۔