بے کل سی نراش زندگی میں | ڈاکٹر طاہر مسعود

قائد کے بقول انہوں نے آزادی کی جنگ تن تنہا اپنے ٹائپ رائٹر اور یک چشمی عینک کی مدد سے لڑی۔ قائد کو یاد نہیں رہا کہ اس جنگ میں سگریٹ نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا

ADVERTISEMENT
میں پریشان ہوں
اپنی سگریٹ نوشی کی عادت سے
میں پریشان ہوں
ان ناصحوں سے جو مجھے سگریٹ کے نقصانات گنواتے ہیں
میں پریشان ہوں
سگریٹ کے ڈبے سے
جس پر نمایاں طور پر درج ہے
تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے
میں پریشان ہوں
اس کینسر زدہ گھنائونی ہولناک تصویر سے
جس کا کیپشن ہے
’تمباکو نوشی کا انجام، منہ کا کینسر‘‘
لیکن سچ تو یہ بھی ہے
کہ ہر صبح میں سگریٹ کے تازہ دم کر دینے والے
کش کی لالچ میں نیند سے اٹھتا ہوں
جب سگریٹ کے اولین کش کا دھواں
میرے اندر اترتا ہے
تب کہاں یاد آتی ہیں
مہربانوں کی نصیحتیں
وزارتِ صحت کا انتباہ
اور خود اس عادتِ بد کی پریشانی
سوچتا ہوں
جب اتنے دکھوں، اذیتوں طرح طرح
کے اوہام اور مستقبل کے اندیشوں اور
خوف کے ساتھ تاحال زندہ ہوں
تونکویٹن کے زہر سے
ڈر جانا بھی کہاں کی بہادری ہے
زندگی میں جو دھوکے دوستوں سے کھائے
جو احسان فراموشی عزیزوں نے کی
جو بے حسی اپنوں میں دیکھی
یہ سارے زہر
بدن میں، احساسات و جذبات میں، ضمیر و روح میں
اتر کر بھی مجھے نہ مار سکے
تو اتنا تو سخت جان ہوں میں
سگریٹ نوشی چھوڑ تو دوں
مگر ڈرتا ہوں
کہیں وہ سارے زہر
بدن میں اتر نہ جائیں
جن کا راستہ نکوٹین نے روک رکھا ہے!
 یہ نظم اس خاکسار نے مجبوراً کہی تھی اور تب کہی تھی جب عزیز و اقارب، دوست احباب، مجھ سے محبت کرنے والے، مجھے صحت مند دیکھنے کی خواہش رکھنے والوں نے اپنی نصیحتوں سے میرا نا طقہ بند کر رکھا تھا۔ ان کا فقط یہی مطالبہ تھا کہ میں سگریٹ پینا چھوڑ دوں۔ میں نے ان نصیحتوں کا اثر قبول کیا اور سگریٹ نوشی ترک کر دی۔ دو سال، پورے دو سال میں سگریٹ کے قریب بھی نہیں پھٹکا، یہاں تک کہ سگریٹ کے دھوئیں کی بو تک سے مجھے نفرت ہو گئی۔ پھر میری زندگی میں ایک دھماکہ ہوا، کچھ ایسا ہی دھماکہ جیسا ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہوا تھا۔ میرے وجود کے پرخچے اڑ گئے، میرا سارا وجود دھواں دھواں ہو گیا۔ میں بکھر گیا اور جب بکھرنے کے لیے اور کچھ بھی نہ دیا تو سوچا اب اپنے آپ کو سمیٹ لوں۔ لیکن کہاں سے سمیٹنا شروع کروں۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ کہاں سے اور کیسے؟ جب سوچنا شروع کیا تو مجھے شدت سے سگریٹ کی طلب ہوئی۔ تب میں سگریٹ کے کھوکھے سے ایک پیکٹ سگریٹ کا خرید لایا اور کانپتی انگلیوں سے ایک سگریٹ نکال کر ہونٹوں سے لگایا اور ماچس کی تیلی جلائی، وہ جلی اور جل کر بجھ گئی۔ سگریٹ ہونٹوں پر منتظر رہا کہ کب اسے سلگایا جاتا ہے۔ دوسری تیلی جلائی ‘ہوا کہ جھونکے نے اسے بھی بجھا دیا۔ میں مایوس ہو گیا۔ میں پہلے ہی مایوس ہو چکا تھا اپنی زندگی سے اس دنیا سے اور دنیا کے تمام انسانوں سے۔ مزید مایوس ہونے کے لیے کچھ بچا ہی نہ تھا تو اور کیا مایوس ہوتا۔ ہمت کی اور ایک اور تیلی جلائی، ہوا کے جھونکے کو رحم آ گیا، وہ کھڑکی سے داخل ہوئی مگر وہیں ٹھہر گئی۔ مجھے اچھا نہیں لگا۔ ہوا کو چلتے رہنا چاہیے۔ پانی کو بہتے رہنا چاہیے۔ زندگی رواں دواں اچھی لگی ہے۔ سگریٹ کا کیا ہے؟ یہ تو میں پھر کبھی پی سکتا ہوں۔ میں نے سگریٹ منہ سے نکال کر اسے واپس پیکٹ میں رکھ دیا۔ یہ بات، میری یہ سوچ، میرا یہ رویہ ہوا کہ جھونکے کو اچھا نہیں لگا۔ وہ وہیں رکا رہا، آگے نہیں بڑھا۔ تب میری سمجھ میں آیا کہ ہوا کا جھونکا میرے لیے ہی آیا ہے اور چاہتا ہے کہ میں سگریٹ پی لوں اور پی کر اپنے آپ کو سمیٹنے کا فیصلہ کر لوں کہ کہاں سے اور کیسے سمیٹنا ہے اپنے آپ کو۔ یوں میری سگریٹ نوشی دوبارہ شروع ہو گئی۔ بہت سال پہلے، میں کینیڈا کے شہر ٹورانٹو سے شکاگو بذریعہ ٹرین جا رہا تھا۔ ڈبہ خالی تھا، میرے سوا اس میں کوئی بھی نہ تھا۔ تنہائی ہو، خیالات کا ہجوم ہو تو سگریٹ کی طلب خودبخود پیدا ہو جاتی۔ میں نے سوچا سگریٹ سلگا لوں لیکن پھر سوچا پردیس میں ہوں۔ یہاں کے قوانین سخت ہیں، احتیاط ہی بہتر ہے۔ اچانک ڈبے میں ٹکٹ چیکر نمودار ہوا۔ جب وہ ٹکٹ چیک کر چکا تو میں نے نہایت لجاجت سے پوچھا کہ کیا آپ کی اجازت سے میں اسموک کر سکتا ہوں؟ اس نے ایسے سنا جیسے ایسی بات اس نے کبھی سنی ہی نہ ہو۔ اپنی نیلی نیلی آنکھوں سے مجھے گھورتا رہا پھر نہایت سرد لہجے میں اس نے کہا: ’’اگر تم نے یہ بات دوبارہ کہی تو میں تمہیں ڈبے سے نیچے اتار دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ میں شرمندہ شرمندہ، سوچتا رہا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو سگریٹ ہی نہیں پیتے۔ کیا انہیں تنہائی نہیں ستاتی۔ کیا ذہن ان کا تفکرات کے ہجوم سے بالکل ہی خالی ہوتا ہے۔ کیا انہیں انتظار کی اذیت سے کبھی نہیں گزرنا پڑا۔ کیا یہ محبت میں بے وفائی کی کلفت سے بھی واقف نہیں۔ کیا یہ کام سے تھکے نہیں۔ اگر یہ سارے تجربات ان کی زندگی میں ہیں تو پھر سگریٹ کیوں نہیں ہے؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ٹرین نے سیٹی بجائی اور ڈبے میں لگے ہوئے مائیک سے آواز آئی کہ ٹرین دس منٹ کے لیے اس اسٹیشن یہ رکنے والی ہے۔ سگریٹ نوش حضرات چاہیں تو پلیٹ فارم پر اتر کر اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔یعنی سگریٹ نوش حضرات سگریٹ کو انجوائے کر سکتے ہیں۔ ٹرین رکی تو میں بے تابانہ پلیٹ فارم پر اترا۔ میرا گمان تھا کہ سگریٹ پینے والے مجھ جیسے دو چار ہی سرپھرے ہوں گے لیکن قارئین کرام یقین مانیے وہاں تو پلیٹ فارم پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ فضا دھواں دھواں ہو رہی تھی۔ میں کینیڈا اور امریکہ اس نیت سے بھی گیا تھا کہ ذرا دیکھوں وہاں زندگی کیسی گزرتی اور گزاری جاتی ہے لیکن میں بہت مایوس ہوا۔ مال پہ، کسی بھی پبلک مقام پہ یہاں تک کہ گھر کے اندر ’’گاڑی‘‘ میں آپ کہیں بھی سگریٹ نہیں پی سکتے ہر جگہ ایک ہی انتباہ پلیز پلیز پلیز…… قائد اعظم جب زیارت میں بیمار تھے تو انہیں ڈاکٹر الٰہی بخش نے سگریٹ پینے کی اجازت دے دی مگر صرف دو سگریٹ۔ صبح ڈاکٹر آیا تو ایش ٹرے میں کئی سگریٹ کے ٹوٹے بجھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر کو پہلے تشویش ہوئی پھر اس نے سوچا نہیں یہ سگریٹ نوشی بتاتی ہے کہ قائد کی صحت بحال ہو رہی ہے اور وہ نارمل زندگی کی طرف واپس ہو رہے ہیں۔ قائد کے بقول انہوں نے آزادی کی جنگ تن تنہا اپنے ٹائپ رائٹر اور یک چشمی عینک کی مدد سے لڑی۔ قائد کو یاد نہیں رہا کہ اس جنگ میں سگریٹ نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔ وہ بہ قول فاطمہ جناح ایک دن میں ساٹھ سگریٹ پیتے تھے۔؟
٭٭٭٭٭
Next Post

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں