پاکستان کی اکثر بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں اس وقت سنگین قسم کا مالی بحران چل رہا ہے جس کی وجوہات خاصی پیچیدہ اور دقیق ہیں۔ کم ہوتی ہوئی حکومتی فنڈنگ’ گورننس کے مسائل سمیت کئی اور پہلوؤں سے اس بحران کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ فرسودہ ریگولیشن کے فریم ورک کے ساتھ آج کے درپیش چیلنجز میں جامعات کو چلانا ممکن نہیں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے آنے والے چیلنج اور کم ہوتی ہوئی حکومتی گرانٹس سے پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے جامعات کے نظام میں وسیع بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہوں گی۔
موجودہ حالات میں اگر بہت بڑے خزانے کا منہ بھی یونیورسٹیوں کے لئے کھول دیا جائے تو چند ہی سالوں میں مالی مشکلات لوٹ آئیں گی۔ یہ سرکولر ڈیبٹ کی طرح کا مسئلہ ہے جسے بنیادی نوعیت کی اصلاحات کے بغیر حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مضمون میں یونیورسٹیوں کے لئے نئے وسائل کی تلاش اور پینشن فنڈز سمیت دیگر وسائل کی منیجمنٹ کے لئے آوٹ آف باکس حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ پرانی یونیورسٹیاں اس وقت پینشن اور بعد از ریٹائرمنٹ سہولیات کی ادائیگی کے بوجھ تلے دب کر عملی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان
ڈاکٹر منور ہاشمی، ایک دل نواز شخصیت
یونیورسٹیوں کے پینشن کے نظام میں اصلاحات کے بارے میں ہمارے ہاں گفتگو نہ ہونے کے برابر ہے اور کسی بھی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے پاس پروفیشنل پینشن فنڈ منیجر موجود نہیں ہیں۔ جو رقم ملازمین سے اس مد میں کاٹی جاتی ہے اسے روایتی بینکوں میں انتہائی کم شرح پر انوسٹ کر دیا جاتا ہے اور اسے سب سے آسان اور محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ محفوظ سرمایہ کاری سے سب سے کم منافع ملتا ہے اور یونیورسٹیوں کو ادائیگیوں کے لئے اپنے جاری اخراجات میں سے رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ مضمون میں تجویز کیا گیا ہے کہ پلاننگ کمیشن اور ایچ ای سی (جامعات کے اندرونی اکیڈیمک نوعیت کے معاملات میں دخل اندازی کے بجائے) اس قسم کے سنجیدہ معاملات کے حل کے لئے پالیسی تشکیل دیں اور پروفیشنل پینشن فنڈ منیجمنٹ کمپنی بنا کر یونیورسٹیوں کو اس مشکل سے نکالیں۔ اس کام کے لئے انشورنس/تکافل کمپنیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
(یہ فکر انگیز مضمون دی نیوز میں شائع ہوا ہے جس میں زیر بحث نکات کی تفصیل جاننے کے لیے درج ذیل لنک کلک کیجئے