عمران خان اب کیا چاہتے ہیں ؟ شہباز گل کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر خطاب سے واضح ہو گیا۔
انھوں نے یہ کہا کہ ہم کسی وقت بھی اپنی اسٹریٹ پاور سے پاکستان کو بند سکتے ہیں۔ بند اس لیے نہیں کر رہے کہ ملک کی معیشت اچھی نہیں۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ وہ عمران خان جس نے سول نافرمانی کی کوشش کی۔ عوام کو سرکاری واجبات ادا نہ کرنے پر زور دیا۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا کہ وہ بینکوں کے بجائے ہنڈی سے پیسہ بھجوائیں، اسی عمران خان کو ملک کی کمزور معیشت کی فکر کب سے لاحق ہوگئی؟ حالاں کہ یہ وہی عمران ہیں جنھوں خود اپنی حکومت کے دوران میں معیشت کو اس حال تک پہنچایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب وہ ایسالب و لہجہ کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ اس کی ایک ہی وجہ پے۔ انھوں نے سلطان راہی بن کر اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کیا تھا،اب وہ اسے اچھا بچہ بننے کی یقین دہائی کرا رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے؟ با خبر ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ خان صاحب کی تازہ کوششیں سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کی کوشش ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
عمران خان کی تقریر میں دو باتیں مزید اہم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہ پی ٹی آئی کو توڑنے کی کوشش ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کے تمام حقائق عوام کے سامنے آ چکے ہیں۔ لہذا اب اس قسم کی باتیں بھی بعد از مرگ واویلا کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان کی تقریر کا تیسرا نکتہ وہ ہے جس میں انھوں نے کہا کہ اگر شہباز گل نے کوئی غلط بات کہی ہے تو پی ڈی ایم کی قیادت بھی ایسی باتیں کہتی رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
مولانا طارق جمیل ایسے کیوں ہیں؟
فارن فنڈنگ کیس نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد کیسے بنے گا؟
یہ کہہ کر انھوں نے نواز شریف، آصف علی زرداری ، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کی تقاریر کے اقتباس دکھائے۔
عمران خان کی یہ کوشش بھی ایک ایسی چالاکی تھی جس کا راز پہلے ہی فاش ہو چکا ہو۔ اصل میں شہباز گل کی تقریر اور پی ڈی ایم کے راہنماؤں کی تقاریر کے مفہوم میں بنیادی فرق ہے۔ شہباز گل نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی تھی جب کہ پی ڈی ایم کے راہنماؤں نے سیاست میں فوج کی مداخلت کی مذمت کی تھی۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں پی ڈی ایم کی قیادت کی تقریروں کے اقتباسات دکھا کر مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی۔