آزادی کے بعد ہندوستان کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے ہجرت کرنا ایک بہت بڑا سوال تھا، کلکتہ میں رہنے والوں نے مشرقی بنگال جانے کا قصد کیا تو بمبئی،آندھرا پردیش خصوصاً حیدرآباد کے مسلمانوں میں سے بہت کم کو پاکستان جانے کے مواقع ملے۔ سرکاری ملازمین اور فوج می بھی تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک چوتھائی فوج اور تین چوتھائی ہندوستان بھارت کو ملی۔
تقسیم کے وقت مشترکہ فوج کا فارمولہ مسترد کردیا گیا تھا۔ اس کا مقصد فرقہ ورانہ سوچ کو روکنا تھا تاکہ فسادات سے بچا جاسکے۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور جب فسادات پھوٹے تو فوج خاموش تماشائی بن گئی۔ بعض مقامات پر فوجی اپنے مذہب والوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ ان اس طرح فریق بننا بھی کئی جگہوں پر زیادہ شدت پسند فسادات کا باعث بنا۔
پنجاب میں ہندو فوجیوں نے مسلمانوں کے قتل عام میں براہ راست حصہ لیا۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی ان کا کردار مختلف نہ تھا۔ اس ساری صورتحال میں سرکاری ملازمین کے لئے نوکریوں کو چھوڑ کر ہجرت بھی مشکل تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کو پاکستان میں متبادل ملازمت کی پیشکش نہ تھی۔ لیکن مسلم لیگ نے مسلمان افسروں کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان آجائیں ورنہ کانگرس ان کا حشر کردے گی۔
یہ بھی دیکھئے:
ہندوستان کی حکومت نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ چھ ماہ تک یہاں قیام کریں اور اس دوران دیکھیں کہ حالات کس طرح ان کے ساتھ ہیں اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں۔ اکثریت کے لئے یہ پیشکش کسی حد تک قابل قبول تھی لیکن دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات آئیں کہ پاکستان کے بعض ذمہ داروں نے اعلان کیا کہ بعد میں آنے والوں کو ملازمتوں کے مواقع دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس سب میں مسلمان سرکاری ملازمین بڑی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہوگئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے حکومت کا انتظام سنبھالنے کے بعد پہلے اداروں میں موجود بدعنوانی اور بدانتظامی کو ہدف بنایا یہ دونوں معاملات برصغیر کے نظام ریاست کی جڑیں کھوکھلی کررہے تھے۔ اپنے ابتدائی خطاب میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑنا ابھی باقی ہے۔ ہندوستان کی اشرافیہ اور سٹیبلشمنٹ نے تقسیم کے بعد جائیداد اور زمینوں کے قبضے کئے اس کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں میں اپنے نہ صرف قدم جمائے بلکہ ان کے مکمل کنٹرول حاصل کئے گئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے ملک تو حاصل کرلیا تھا مگر انہیں اپنے اردگرد ںے شمار مفاد پرست اور موقع پرست گروہوں کا سامنا تھا۔ جنہیں شائد تقسیم سے قبل ہی وہ بھانپ چکے تھے۔ اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کردیا تھا کہ ایسے عناصر سے ریاست کے معاملات کو پاک کرنا ہوگا۔ مگر یہ ایک خواہش ہی رہ گئی۔ یہ گروہ اپنے مقاصد میں زیادہ منظم رہا اور اس نے قائد اعظم محمد علی جناح کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ اب وہ براہ راست کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہ رہے تھے۔ جس کی تکمیل کے لئے بڑی رکاوٹ راہ سے ہٹانا باقی رہ گئی تھی۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پینچانے کے عمل کا آغاز ہوچکا تھا۔
اگست 1947 میں نئی مملکت کی بنیاد رکھتے وقت قائد اعظم محمد علی جناح کی خرابی صحت میں بہتری نہ آسکی۔ عزم وہمت اور قوت ارادی کا جس انداز میں انہوں نے مظاہرہ کیا وہ اب بھی قائم تھا لیکن طبیعت میں تازگی اور بشاشت نہ رہی۔ کچھ حالات سے مایوسی کا عمل بھی چل نکلا تھا جس سے ذہنی اور جسمانی کیفیت بتدریج بگاڑ کا شکار ہوتی جارہی تھی۔ محض ایک سال کے دوران بے شمار مسائل کا نہ صرف سامنا کیا بلکہ ریاست کو کمزور کرنے والے عناصر کا مقابلہ بھی کیا۔ اور پھر اس نئی مملکت اور دنیا سے رخصت کا وقت بھی آگیا۔ اس حوالے سے مختلف سازشی نظریات منظرعام آئے۔ تاریخ آنے والے وقتوں میں شائد اس راز سے بھی پردہ اٹھائے کہ حقیقت کیا تھی۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان کی تقریر: تین مغالطے، تین ناکامیاں
مولانا طارق جمیل ایسے کیوں ہیں؟
پاکستان کے لئے حکمرانی کے جہاں ایک نئے دور کا آغاز ہوا وہیں محلاتی سازشوں کا ایک نیا سلسلہ بھی چل نکلا۔ ایک کے بعد ایک سربراہ آیا اور چلا گیا۔ ملک عارضی آئین پر چلتا رہا۔ یہاں تک کہ مختلف تجربات سے بھی مملکت کے امور کو گزرنا پڑا۔
عوام کے نمائندے منتخب کرنے کا مرحلہ بھی نہیں آیا۔ جمہوریت کس بلا کا نام ہے اس نئے ملک کے لوگوں کو بہت دیر بعد معلوم ہوا۔ یہ شائد اس کانسپریسی تھیوری کا حصہ تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد لیاقت علی خان کو بھی منظر سے ہٹانے کا منصوبہ تیار ہوچکا تھا۔ یہ بھی جیسے سکرپٹ میں پہلے سے لکھا گیا تھا۔ جسے محض عملی جامہ پہنانے کی تاخیر ہورہی تھی۔
آزادی دلانے میں جن دیگر بڑے ناموں کا کردار تھا وہ بھی ملک کے دوسرے مشرقی حصے میں تھے۔ ان سے گلوخلاصی کی تیاریاں بھی جاری رہیں۔ اس غیر فطری تقسیم نے ایک نہ ایک دن مزید تقسیم کے عمل سے گزرنا تھا اور پھر وہ دن بھی دنیا نے پوری گھن گرج کے ساتھ دیکھ لیا۔ اس سب کے نتیجے میں کیا کچھ نقصان ہوا،اس کا تخمینہ بھی آج تک لگایا جارہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پوری نہ ہوئی اور اس کے ساتھ دم توڑ گئی یعنی کرپشن اور بدانتظامی اس ریاست سے نکلنے کے بجائے اس کا لازمی جزو بن گئیں۔ 75 سال پون صدی بعد بھی موضوع وہی پرانا ہے۔ تیسری نسل نے قدم جمالیے۔ تقسیم کے نظریے پر سوالات اٹھنے لگ گئے۔ آزادی کو کس بنیاد پر حاصل کیا گیا اس کا حصول کہاں تک ممکن ہوا۔ یہ جواب بھی اس نسل نے ابھی ریاست کے نگرانوں سے لینا ہے۔
ماضی میں جھانکنا ایک تلخ تجربہ ہے جس سے اکثر گریز پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ تقسیم کے وقت کیا ہوا اس کا جواب ہندووں اور سکھوں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔اس وقت کے حالات سب کہانی بیان کردیتے ہیں۔
سرحد کی دونوں جانب پروان چڑھنے والی نئی نسل کا آپس میں میل ملاپ شروع ہوگیا ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مختلف سوالوں کے جواب تلاش رہے ہیں۔
تقسیم ہند ایک حقیقت اور تاریخ ہے، لیکن اس کے نتیجے میں اس سرزمین پر انسانوں نے مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔
دھرتی کو لہو لہو کر نے والے اگرچہ محدود اور مخصوص سوچ کے حامل افراد اور گروہ تھے لیکن اس تقسیم کو بغیر خون خرابے عمل پذیر کرنا، ان گروہوں کے منصوبے میں ہرگز شامل نہیں تھا تقسیم کے جواز کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کیلئے نفرت کو مزید گہرا کرنا پڑتا ہے۔ دراصل اس خطے میں بسنے والوں نے تاریخ کے کئی ادوار ایک دوسرے کی کمزوریاں خامیاں ڈھونڈنے اور دوسروں کو شکست دینے میں گزاردیں۔ تقسیم کے دوران تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے سماجی تعلقات اور رشتوں کی مضبوطی کا عزم کئے رکھا۔ اس میں انہیں مشکلات کا سامنا رہا۔ حتی’ کہ انہیں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ عزت وناموس بھی قربان کرنی پڑی۔ شاید آزادی یہ سب مانگتی ہے اور اس کی قیمت ادا کر چکنے کے بعد بھی اگر لوگوں نے زندگیاں اسی ڈھب پر بسر کرنا تھیں۔ تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کی غلامی ختم ہوئی؟ حکمران تو یہ لوگ پہلے بھی نہ تھے۔ اب بھی اقتدار کسی اور کے پاس ہے۔ عدل کی تلاش اور خودارادیت کا جذبہ انہیں یہاں لایا اگر یہ دونوں بھی نہیں۔ تو پھر آزادی کے معنی دوبارہ ڈھونڈنا ہوں گے۔