بھلا ہو انڈس کلچرل فورم والے مہربانوں کا ، کہ ہر سال اسلام آباد میں بہت اہتمام سے ایک قومی خدمت انجام دیتے ہوئے پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ سجاتے ہیں اور ملک بھر کے گوشے گوشے سے زبان و ادب،علم وانش اور ثقافتی زندگی کے حقیقی نمائندوں کو بہم کرکے گفتگو کا موقع فراہم کردیتے ہیں۔
جی وہ نادر لوگ جن کے نام تو گاہے گاہے سننے کو مل جاتے ہیں، ملاقات کی صورت نکلتی ہے نہ مکالمہ ہوپاتا ہے۔ مکالمہ کیسے ہو ؟ قومی سطح پر زبان و ثقافت کے باب میں ہمارا وتیراہی ایساکڈھب رہا ہے کہ ہمارے اپنے ملک کی زبانوں کے درمیان لین دین کی صورتیں معدوم ہوتی چلی گئی ہیں۔ سندھی ، براہوی، پشتو، بلوچی میں لکھنے والے نہیں جانتے کہ گوجری، پوٹھوہاری، ہندکو، کوہستانی ، سرائیکی یا دوسری پاکستانی زبانوں میں کیا لکھا جارہا ہے۔ اردو ان زبانوں سے بے نیاز اپنی چال چل رہی ہے ۔ تراجم کے ایک منظم نظام کے قیام اور لسانی سطح پر اشتراک کی کچھ اور صورتیں بروئے کار لاکر ان فاصلوں کو پاٹا جاسکتا تھا مگر حیف کہ یہ سب کچھ ہماری قومی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اس ساری غفلت کا نتیجہ انتہائی تکلیف دہ صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ۔ ہمارے اپنے ہی ملک کی قومی زبانوں کا ادب اردو میں منتقل نہیں ہوپارہا، اگر ہو رہا ہے تواس سے کہیں کم ہے جو ہمیں دوسری بین اقوامی زبانوں کے ادب کے تراجم کی صورت میسر ہے۔
مجھے محترمہ شبنم گل کے تازہ کتاب کے حوالے سے بات کرنی ہے مگر میرا دھیان پاکستان کی سب قومی زبانوں کی طرف مڑگیا ہے تو یوں کہ میں نے جب اردو کے علاوہ یہاں کی دوسری زبانوں کے تراجم پڑھنے لگا تھا تو مجھے سب سے زیادہ قربت اور توانائی سندھی ادب سے مل رہی تھی۔ میں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سندھی کے ادیبوں کو پڑھتا گیا۔ جس طرح یہاں کے لکھنے والے اپنی زمین سے ، سندھو دریا کے پانیوں کی بوند بوند سے ، اپنی زبان کے بھید بھنوروں سے ، محبت بھری لوک کہانیوں سے،ست سورمیون کے شاعرشاہ لطیف سے، سندھی ٹوپی، رلی اور اجرک سے، اپنے تہذیبی مظاہر سے جڑے ہوئے ہیں اور انسانوں کو احترام اورتکریم میں باندھ کر رکھنے والے رشتوں کو موضوع بناتے ہیں اس نے مجھے ہمیشہ مثاثر کیا ہے۔ اس سب نے اُن کی زبان کے اندر کی توانائی کو نہ صرف قائم رکھا ہے اس میں زندگی کے وہ بھید بھی داخل کر دیے ہیں جو اپنی زمین کے آب ورنگ سے پچھڑی ہوئی زبانوں کے ہاں سے معدوم ہو چکے ہیں۔
شبنم گل کا شمار سندھ دھرتی کی اُن دھیمے مزاج کی باصلاحیت لکھنے والیوں میں ہوتا ہے جو اس ساری صورت حال کا نہ صرف شعور رکھتی ہیں، وہ اپنے منصب سے بھی آگاہ ہیں۔ وہ اپنے علم اور اپنی دانش کے چراغوں کو اپنی نازک ہتھیلوں میں اٹھائے اپنی دھرتی پر قدم جمائے آگے بڑھ رہی ہیں ۔ ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ، ان ہی کا ایک آدھ سندھی جملہ جو میں نے کہیں پڑھا تھا، عین مین نقل کر رہا ہوں۔:
“سماج لاء فقط اھي فرد فائديمند ٿين ٿا، جيڪي پنھنجي ذاتي وقار، ڏات جي سگھ ۽ خود انحصاري کي ساڻ ڪري، نه فقط پاڻ اڳيان وڌن ٿا بلڪه ٻين کي به رستو ڏين ٿا”
کسی بھی معاشرے میں شبنم گل جیسی مثبت فکر کی حامل خواتین کا موجود ہونا ، اس سماج میں تحرک کے امکانات کی دل خوش کن خبر بھی ہے ۔ شبنم اپنی ذاتی وقار، قابلیت اور اپنی خود انحصاری کو محض اپنی ذات تک محدود نہیں رکھ رہیں اور اپنی دھرتی اور لوگوں کے سارے رشتوں ،یہاں کے پھولوں اور پتوں کی خوشبوؤں ،ڈالیوں پر لہراتے رسیلے پھلوں، چہکاریں مارتی یا ہوکے بھرتی آوازوں، حتی کہ یہاں کی جھاڑیوں کے کانٹوں اور تپتی بلتی ریت پر ننگے پاؤں چلنے والے چھالوں کو اپنے لہو میں بسا کر اس سب کے اندر سے زندگی میں سکھ بھرنے کا راستہ سجھارہی ہیں۔ میں نے کہا نا! شبنم گل کی نازک ہتھیلوں پر روشن دیے دھرے ہوئے ہیں۔
شبنم گل سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے اُن کے سندھی ناول کا نام سنا تھا:”مکئی کان موکلاٹی”۔ میں پوچھا اس کا اردو میں ترجمہ ہے؟” جواب آیا: “نہیں”۔مجھے علم تھا کہ وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور سندھی ہی میں افسانے لکھتی ہیں۔ کہا: “اور آپ کے سندھی افسانے، کیسے پڑھیں؟”۔ دھیمے مزاج کی سلجھی ہوئی خاتون نے میری طرف دیکھا اور دور کہیں نظریں ٹکا دیں ۔میں سمجھ گیا تخلیقی عمل سے جڑے ہوئے فن کار وں سے بہت سے مطالبے رکھنا درست عمل نہیں ہے۔ لکھنے والا اپنے منصب کو ادا کر چکے تو دوسروں کو آگے بڑھنا چاہیے کہ وہ دیے سے دیا جلائیں۔
یہیں میرا دھیان شبنم گل کی ایک اور سندھی کتاب “لفظن جا دیپ” کی طرف چلا گیا ہے۔ شبنم گل کی نئی کتاب کے کچھ اوراق میرے سامنے ہیں اور مجھے یوں لگتا ہے یہ بھی سندھی کتاب کی توسیع ہو کر لفظوں کے روشن دیپ دھرنے والے دھروکھے ہو گئے ہیں۔
شبنم گل بنیادی طور پر فکشن نگار ہیں۔ افسانے، ناول ، ریڈیو و ٹیلی وژن ڈرامے کے ساتھ ساتھ شاعری کی ۔ کئی کتب کی مصنف ہیں۔ تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ سماجی نفسیات کی دانش کے حوالے سے بھی ان کے فکر انگیز مضامین تواتر سے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں اور اس باب میں وہ محض سندھی زبان کو وسیلہ نہیں کرتیں اردو انگریزی کے ذریعے ہم جیسوں کی فکریات میں بھی روشنی بھرتی رہتی ہیں جو سندھی زبان کو ڈھنگ سے سمجھنے پر قادر نہیں ہیں۔ روزنامہ جنگ، ڈان، کاوش، اردو ایکسپریس اور دوسرے اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ جس سنجیدگی سے انہوں نے نفسیات، مابعداز نفسیات، صوفی ازم اور سماجی مسائل کو موضوع بنایا ہے اس نے آج کے انسان کی تحت الشعور کو کئی زاویوں سے روشن کر دیا ہے ۔
“تحت الشعور کی طاقت” شبنم گل کے مضامین کے اس تازہ مجموعے کا نام ہے۔ کتنے مزے کی بات ہے کہ حیدرآباد کے مقامی کالج میں انگریزی شعبے میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دینے والی شخصیت نے اپنی ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر فلسفے اور نفسیات کے موضوعات کو بہت گہرائی میں جاکر پڑھا، سمجھا ، اپنی بھیدوں بھری اور باثروت تہذیبی فضا کے اندر رہ کر ماوروائی نفسیات سے خصوصی دلچسپی پیدا کی اور اس کتاب میں تحت الشعور کی طاقت، خوابوں کے جزیرے، لمس کی نفسیات، ڈپریشن، خوف کی نفسیات، وجدان، جسم لطیف کی پرواز، وقت کا طلسماتی دائرہ ، پری ڈیتھ سنڈروم، تعمیری تصور راستہ دکھاتا ہے اور دیگر موضوعات ایسے عمدہ مضامین لکھ دیے ہیں کہ ہم انہیں پڑھتے ہیں تو سوجھ بوجھ کے کئی چراغ ہمارے اندر روشن ہو جاتے ہیں۔
شبنم گل نے کہیں اور لکھا تھا:” مطالعي وسيلي ذھن کي تصور جي قوت, سوچ جي وسعت عمل جي فعاليت عطا ٿئي ٿي۔”اس کتاب میں اس اصول کو ایک اخلاقی ضابطہ بنا کر اتنا بامعنی بنا دیا گیا ہے کہ اس کے مطالعے سے دماغ اور اعصاب کو ایسی توانائی ملے گی کہ وہ ٹھہرےٹھٹھرے سہمے اور فکری سطح پر تالہ بند سماج کے زنگ آلود تالے کو کھولنے اور متحرک کرنے کی والی سنہری کلید کو اپنے تصرف میں پائے گا۔
میں شبنم گل کی اس تازہ کتاب پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور آرزو مند ہوں کہ اسے خوب خوب پذیرائی ملے اور سماج میں وہ مثبت انسانی اقدار فروغ پاسکیں جنہیں راہ دینے کے لیے ہماری یہ پیاری اور ذہن دانشور لکھاری لفظوں کے روشن دیپ اپنی نازک ہتھیلوں میں اٹھائے مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں