زمانہ طفل مکتب میں جب ریاست ہائے متحدہ روس کے خلاف افغان مجاہدین برسر پیکار تھے تو روز نامہ”نوائے وقت“میں سر ورق پر اقبال کے ایک مصرعے پر مشتمل ’’افغان باقی کہسار باقی“ کاسلوگن شائع ہوا کرتا تھا جو کہ اس وقت روس کے خلاف جنگ لڑنے والے او ر افغان مجاہدین اور افغان شہریوں کی حمایت کے لئے پاکستانی بھایؤں کی جانب سے اخلاقی حمایت کے لئے محترم مجیدنظامی (رح)کا دلیرانہ قدم تھا۔
اس سلوگن کی اس وقت تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کا کیا مطلب ہے لیکن آج جب طالبان نے محض اپنے دست بازوپر دنیا کی پہلی سپر پاور ریاست ہائے متحدہ روس کی طرح دنیا کی موجودہ سپر پاور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو بھی افغانستان سے چلتا کیا تو سمجھ آگئی کہ اس نعرہ کا کیا مطلب تھایعنی جب تک افغانستان میں پہاڑ قائم و دائم ہے افغانیوں کو کوئی قوم بھی شکست نہیں دے سکتی۔
افغانستان کے سنگلاخ پہاڑ فتح کی خاطر افغانستان میں آنے والوں کے لیے ہر بار قبرستان ثابت ہوئے جیو سٹراجیک اہمیت کی بنا پر امریکہ کو جنوبی ایشیاء کے اس خطہ میں شروع سے ہی دلچسپی رہی ہے افغان مجاہدین کو جدید اسلحہ اور مالی معاونت فراہم کر کے 80کی دہائی میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے کروانے کے بعد امریکہ کا اس خطہ سے جانے کو دل نہ کیا اور پھر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقع نے اسے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں چڑھ دوڑنے اور بیس سالوں تک تین لاکھ فوج کے ہمراہ اس تباہ حال ملک میں براجمان ہونے کا جواز فراہم کر دیا۔
اس میں امریکہ کی ظاہری ترجیحات تو دہشت گردی کابدلہ لینا اور افغان سرزمین سے القاعدہ اور طالبان کا خاتمہ اور جمہوری حکومت کا قیام تھالیکن پس پردہ امریکی اغراض مقاصد میں اس خطہ میں رہتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا اور بالخصوص اس لئے بھی کہ امریکہ کے سب سے بڑے حریف اور مستقبل کی سپر پاور چین پر نگاہ رکھتے ہوئے اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا تھا امریکہ نے دو دہایؤں پر مشتمل افغان مہم کے لئے چھ کھرب ڈالر جھونک ڈالے اور پھر حزب روایت کمبوڈیا،ویت نام اور عراق کی طرح خون اور پیسے کے بہاؤ کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اس ضمن میں حامد کر زئی سے لے کر اشرف غنی تک نام نہاد جمہوری حکومتوں پر امریکی سرمایہ کاری محض ریت کی دیوار کی مانند ثابت ہوئی اور جن پر تکیہ کی جارہا تھا وہ پانی جھاگ کے سوائے کچھ ثابت نہیں ہوئے۔
افغان جنگ کی خاطرامریکی عوام کے ٹیکس کی رقم کو سپر میسی کی خاطر کیسے بے دردی سے برباد کیا گیا امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کو کیا کیا نقصان ہوا اس سے پوری دنیا بخوبی آگاہ ہے اس وقت تمام اقوام کو آگے کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہے اب جب کہ افغانستان کا سارا سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے اور انتظامی امور کے حوالے سے بھی دن بدن ایک نئی صورتحال سامنے آرہی ہے اس وقت سب سے اہم افغانستان کے حوالے سے خارجہ پالیسی کو لے کر تما م اقوام ماسوائے چند ایک کے غیر یقنی اور بے اعتمادی کا شکار ہیں کہ کیا رد عمل اختیار کیا جائے؟ اور کیا اقدامات اپنائے جایئں؟
افغانستان میں طالبان کی حکومت اور موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے امریکہ سمیت دنیا کے ٹھیکدار ممالک کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہئے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے بیس سال تک امریکی حلیف بن کرسوائے اپنے ملک میں دہشت گردی کے کچھ نہیں کمایا امریکہ کو تو ورلڈ ٹریڈ سینٹر جیسے ایک دہشت گرد حملہ کا سامنا کرنا پڑا اور جب کہ ہمیں امریکی ساتھ نبھانے اور اپنی ریاست بقا کو داؤ پر لگانے کے عوض بیس سالوں میں ہزاروں دہشت گردی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا اور بدلے میں ہمیشہ امریکہ کی جانب سے ان بے مثال قربانیوں کو قبول کرنے اور ماننے کی بجائے ڈو مور ڈو مور کی آوازیں آئیں اب جبکہ منظرنامہ بڑا واضح ہو چکا ہے تو پاکستان کی افغانستان کے حوالہ سے خارجہ پالیسی کے متعلق دو ٹوک پالیسی کا اپنایا جانا خوش آئند بات ہے اور اس کا پہلا قدم طالبان کی افغانستان میں حکومت سنبھالنے سے قبل امریکہ پر واضح کرناتھا کہ اب امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کے بعد اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ پاکستان پہلے ہی بیگانوں کی جنگ میں اپنے 75 ہزار شہریوں کی قیمتی جانیں کھو چکا ہے۔
اس سب کے باوجود بھی پاکستان نے امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے اور مسلہ کے حل کے لئے طالبان اور امریکہ کے مابین دوحہ مذاکرات کامیاب بنانے میں کلیدی کردار اد کیاجسے انتہائی مستحسن قدم قرار دیا جاسکتا ہے طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے اپنا موقف اختیار کیا کہ طالبان کبھی بھی پاکستان کے فیورٹ نہیں رہے اور نہ ہی انکی حمایت کریں گے البتہ بین الاقوامی برادری کے فیصلہ کو دیکھتے ہوئے پالیسی مرتب کریں گے تاہم امریکہ،یورپی یونین اور بہت سے دیگر ممالک نے طالبان کی طرز حکومت کو ماننے سے نکار کر دیا اور ورلڈ بینک نے بھی افغانستان کے لئے اپنے تمام پراجیکٹس پر کام روک دیادیکھا جائے تو یہ اقدامات افغان عوام کو مزید مشکلات سے دو چار کریں گے اور یہ تب تک جاری رہے گا جب تک ایشیا کے سرکردہ ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کے لئے سٹینڈ لیتے ہوئے واضح موقف اختیار نہیں کر لیتے۔
طالبان کی افغانستان میں بھاگ دوڑ سنبھالنے کے بعد جہاں خود طالبان کے رویوں اور دشمن کے ساتھ برتاؤ میں قابل تعریف تبدیلی رونما ہوئی ہے اور اقتدار کی واپسی حصولی کے لئے نا ہونے کے برابر انسانی خون کا بہاؤ قابل تعریف ہیں وہاں اس کے قریبی ہمسایہ ممالک چین،روس،ایران اور ترکی بھی کافی حد تک بدلے ہوئے نظر آرہے ہیں اور طالبان کی کی حکومت کے حوالے سے سپورٹیو وحثیت سے دیکھے جارہے ہیں جو کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلا کے دلی طور پر خواہاں تھے یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکی پالسیوں کو ناکام کرنے اور افغانستان سے پسپائی اختیار کرنے میں ان مذکورہ ممالک کے نئے اتحادی بلاک نے بڑا اہم کردار ادا کیانئی افغان حکومت کے قیام سے ہمسایہ ممالک کو کس حد تک جغرافیہ اور معاشی فائدہ حاصل ہو گا یہ بات پاکستانی عوام کے لئے ثانوی حثیت رکھتی ہے اول اور اہم یہ کہ طالبان کے آنے اور امریکہ کے جانے سے دشمن ملک سکتے میں ہے جنہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی خاطر افغانستان میں احمقوں کی طرح کھربوں کی سرمایہ کار کر رکھی تھی یہ سوچ کر کہ امریکہ ہمیشہ یہیں اور رہے گا اور اس گھناونی سرمایہ کاری پر پانی بہتادیکھ کر بھارتیوں کی نکلنے والی چخیں اور ماتم قابل دیدنی ہے۔
امریکہ اور اس کی افغان کٹھ پتلی حکومتوں کی بنا پر افغانستان بھارت کی ذیلی کالونی بنا ہوا تھا افغان پاکستان کی سر حد سے ملحقہ علاقوں میں موجود بھارتی بد نامہ زمانہ خفیہ ادارے را کے سینکڑوں سینٹرز میں ہزاروں ایجنٹ افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کی معاونت سے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے اور امن کو تباہ کرنے میں سر گرم عمل رہے یہ وجہ تھی کہ پاک افغان باڈر پر باڑ کی تنصیب پر سب سے زیادہ تکلیف انڈیا اور کٹھ پتلی افغان حکومت کو ہوئی جس کے ثبوت پاکستان بین الاقوامی برادی کے سامنے لا چکا ہے البتہ طالبان کی حالیہ افغان پالیسی کے تحت اعلان کیا گیا ہے کہ افغان سر زمیں کسی بھی ہمسایہ ممالک کے خلاف کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں ہو گی اور نہ کرنے دی جائے گی اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ بھارت میں صف ماتم اور پاکستان میں شادیانے بج رہے ہیں کہ منافق دشمن کا حقہ پانی بند ہو گیاایک روز قبل ڈی جی آی ایس پی آر نے افغانستان پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر افغان قیادت،فوج اور خفیہ اداراہ این ڈی ایس کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر بھرا یہاں ایک بات طے ہے کہ بین الاقوامی برادری جس میں بالخصوص یورپی یونین شامل ہیں کو تعصب کی عینک اتار کر روائتی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے افغانستان کی عوام کی خوشحالی اور اس کی تعمیرنو کے لئے اپنی خارجہ پالیسی پر کنفیوز ہونے کی بجائے دانش مندانہ اور مدبرانہ فیصلہ کرنا چاہئے۔