میں انھیں جانتا تو ڈاکٹر محمد کامران کے نام سے تھا لیکن پھر وہ میرے کامی بھائی ہو گئے۔ یہ کایا کلپ کیسے ہوئی، اس کے ذمے دار تو میرے ایک دوست شاہد اجمل ملک ہیں جو روہی کی جم پل ہیں لیکن پوٹھوہار کی اونچ نیچ سے نباہ کرنے کے باوجود بہاول پور کے صحراؤں کو یاد کرتے ہیں اور روہی کی مشام جاں کو تازہ کر دینے والی باد نسیم میں سانس لیتے ہیں۔
یہ خبر مجھے اسی جوان رعنا کی معرفت ملی کہ حضرت کامران دراصل بہاول پور کی مٹی سے ہیں اور وہ اوروں کے جو بھی ہوا کرتے ہوں، شاہد کے کامی بھائی ہیں۔ بس یہیں سے ایک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ ویسے تو جو کہانی شاہد اجمل ملک کی مداخلت سے شروع ہوتی ہے، اس کی تفصیلات بھی کم دل نشیں نہیں ہیں لیکن ایک بہاول پور وہ بھی تو ہے جسے میری ننھی آنکھوں نے دیکھا اور پھر وہ اس میں ہمیشہ کے لیے بس کر رہ گیا۔
لیاقت پور تا بہاول پور کا فاصلہ ہوا کرتا ہو گا یہی کوئی دو تین گھنٹے کا، یہ ان زمانوں کی بات ہے جب سیر و سفر کا سب سے بڑا ذریعہ ریل گاڑی ہوا کرتی تھی اور ہم آدم واہن، تنواری تا سمہ سٹہ اسٹیشن گنتے ہوئے ٹھک سے ہم بہاول پور جا اترتے جس کے وسیع پلیٹ فارم پر لال مٹی کی دیدہ زیب آرائشی صراحیاں بکا کرتی تھی۔
چاچا جی میاں محمد حسین ہمیں اسٹیشن سے لیتے اور ہم بی ماڈل ٹاؤن کی نکھری فضاؤں میں جا سانس لیتے۔ خیر بعد میں تو ہمارا بسیرا ٹرسٹ کالونی میں ہونے لگا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، صادق پبلک اسکول کے مرغزار، چڑیا گھر کے شیر اور ہاتھی اور عجائب گھر کی سلام کرنے والی مینا، ان سب مناظر نے آنکھوں کے راستے دل میں کچھ ایسی جگہ بنائی کہ ان کے نقوش آج تک تازہ ہیں۔
شاہد نے ڈاکٹر محمد کامران کو کامی بھائی کے لقب سے پکارا تو دل نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شاہد کے تو وہ کامی بھائی ہوں میرے اور ان کے بیچ تکلف کارشتہ ہو، یہ ممکن نہ تھا اسی لیے وہ میرے بھی کامی بھائی ہو گئے۔
بس، یہی وہ کہانی ہے جس نے بظاہر دور کے تعلق کو بہاول پور کی ڈوری سے باندھ کر اس میں گرم جوشی پیدا کر دی جس کی آنچ سے محبت کی خوشبو آتی ہے۔
شاعر نے قیامت کے ذکر سے جوانی تک راہ پائی تھی لیکن ذکر اگر بہاول پور کا ہو تو بات کہاں کہاں جا پہنچتی ہے، یہ صرف وہی جان سکتے ہیں جنھیں اس دل گداز کوچے میں زندگی کے کچھ دن گزارنے کا موقع ملا ہو۔ اس لیے ذکر بہاول کا ہو اور واقعہ داستان نہ بن جائے یہ ممکن نہیں، تو واقعہ یہ ہے کہ اس داستان کا محرک نہ شاہد اجمل ملک ہیں اور نہ میری یادیں، اصل میں ہوا یہ ہے کہ ان ہی دنوں ڈاکٹر صاحب سے ایک نظم سرزد ہو گئی ہے اور یہ نظم بھی کیا ہے، دراصل ایک ماجرا ہے بلکہ ماجرے سے بڑھ کر واردات قلبی ہے۔
بہاول پور کے نواح میں خانقاہ شریف میں سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی علیہ رحمہ کا مزار ہے، چند برس ہوتے ہیں، وہاں جانا ہوا جہاں ان کے سجادہ نشین سے ملاقات ہوئی۔ بڑے دلچسپ انسان تھے، سیگریٹ سے سیگریٹ سلگاتے، بات سے بات نکالتے اور مہمانوں کو اصرار کر کے کھانے کھلاتے۔ اس شب کھانے اور بھی بہت کچھ تھا لیکن قیمے میں بھنی ہوئی سہانجنے پھلیوں نے کھانے کا لطف دوبالا کر دیا، اس پکوان کا ذائقہ زبان پر آج بھی تازہ ہے۔ منفرد پکوان کا ذائقہ نیز اس بزرگ کی کرامات۔
فی زمانہ تو جو چاہے سمجھ لیجئے، پرانے وقتوں کے اولیا اور بزرگ اتنے گوشہ نشین بھی نہیں ہوتے تھے، وہ دکھی دلوں کے قلب و روح کا علاج بھی کیا کرتے لیکن ضرورت پڑتی تو تلوار بے نیام کر کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے بھی نکل کھڑے ہوتے۔ وہ بزرگ بھی ایسے ہی تھے، ایک معرکے میں شہید تو ہو گئے لیکن کون تھا جو ان کے آگے بڑھتے ہوئے قدم روک پاتا، انھوں نے سر اپنی ہتھیلی پر رکھا اور چل دیے اور جس جس علاقے سے گزرتے گئے، ظلم کا صفایا کرتے گئے، ان کی ایک کرامت یہ تھی، دوسری کرامت یہ ہوئی کہ ایک مزار ان کا خانقاہ شریف میں بنا اور دوسرا کہیں ہندوستان میں۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ نظم دیکھی تو یقین جانئے لمحے بھر میں کئی کیفیات بیت گئیں نیز حضرت سلطان التارکین کی یادیں خوشبو دینے لگیں۔ اس کا بڑا اور بنیادی سبب تو بہاول پور کی مٹی سے جنم لینے والی یہ نظم ہے کہتے ہیں:
‘میں نے استنبول کی گلیوں میں
تہذیب وثقافت کے
بہت سے رنگ دیکھے ہیں
مساجد، آبناۓ باسفورس کے کنارے کیف آور زمزمے تقسیم کرتی ہیں
ابو ایوب انصاری کے روضے پرعقیدت مند آنکھیں، آنسؤوں کی ڈور سے اپنی دعائیں باندھ کر چپ چاپ نیلے آسماں کو تکتی رہتی ہیں
یہاں ہر موڑ پر ماضی کی سطوت کے نشاں
آواز دیتے ہیں
محلات و مقابر عظمتٍ رفتہ کے سندیسے سناتے ہیں
مٌیں داتا گنج بخشٍ مظہرٍ نورٍخدا کے شہر میں سوتا ہوں
لیکن آنکھ کھلتی ہے تو خود کو قونیہ کے قلب میں اقبال کے مرشد کے قدموں میں کھڑا محسوس کرتا ہوں’۔
اس صفحہ ہستی پر بے شمار ایسی قومیں گزری ہیں جن کے درمیان قربت اور باہمی محبت کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں لیکن پاکستانی اور ترک قوموں کے درمیان ہم آہنگی، محبت اور بھائی چارے کی مثال شاید کہیں اور نہ ملے۔ تعلق کی یہ مثال عشق و محبت کی ان داستانوں جیسی ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ کانٹا تمھیں چبھتا ہے لیکن تکلیف مجھے ہوتی ہے۔
ان دو قوموں کے درمیان رشتۂ محبت کی بنیادیں تلاش کرنے والے زیادہ سے زیادہ سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور تحریک خلافت تک پہنچتے ہیں لیکن یہ رشتے تو اس بھی صدیوں پہلے ٹیپو سلطان تک پہنچے ہوئے تھے۔ شیر دل ٹیپو سلطان جب انگریزوں سے نبرد آزما تھے اور ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ اس استعمار سے مقابلے کے لیے کسی عالمی طاقت کا تعاون حاصل کیا جائے، اس مشکل مرحلے پر یہ استنبول کے سلطان ہی تھے جو سلطان کے ایلچی کی مشایعت کرتے تھے اور اس کی سفارت کاری میں اس کے دست و بازو بنا کرتے تھے۔
قوموں کی زندگی میں اس طرح کی سیاسی اور عسکری تعاون کی مثالیں آسانی سے نہیں ملتیں، سبب یہ ہے کہ جن رشتوں کی بنیاد مفاداتی تعلق سے اوپر اٹھ کر عقیدے اور روحانیت کے گہرے پانیوں میں جا اترے، ان کی پیمائش ممکن نہیں ہوتی۔ لہٰذا شاہ شمس تبریز تا مرشد رومی اور مرشد رومی تا مرشد اقبال، رشتوں کی یہ ایسی کہکشاں ہے جس کے بیان کے لیے ایک ایسا ہی دل چاہئے جس کی گھانی خواجہ محکم الدین سیرانی کی دھرتی پر کسی اللہ والے نے گوندھی ہو۔
ڈاکٹر محمد کامران کی یہ نظم ایسے ہی لافانی روحانی رشتوں کی کیمسٹری بیان کرتی ہے جس کی کہانی کہنے والے میں اتنی طاقت ہے کہ وہ داتاصاحب کے قدموں میں سر رکھے تو قونیہ کی خاک سے سر اٹھائے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان روحانی رشتوں کی داستان اس خوبی سے بیان کی ہے کہ من تو کا فرق مٹ گیا ہے۔
اب میں یہ کہوں کہ نہ کہوں کہ ہمارے کامی بھائی یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ ہمارے پیارے بھائی ڈاکٹر خلیل طوقار نے اس نظم کا ترجمہ کر کے محبت کی یہ خوشبو ترکی کے گلی کوچوں تک بھی پہنچادی ہے۔ اس کے بعد اور کچھ نہ سوجھے تو کم از کم یہ تو سوجھ ہی جائے گا کہ رانجھا کردی نی میں، آپے رانجھا ہوئی۔