جمعرات 8 جولائی 2021 آرٹس کونسل کراچی کے جون ایلیا لان میں ایک بہت ہی خوبصورت شام بنام ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی بعنوان ” بیاد ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی ” منائی گئی۔ شکیل بھائی کے انتقال کو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کل ہی بات ہو۔ وہ ہنستا مسکراتا زندگی سے بھر پور چہرہ یوں اچانک ہم سے جدا ہوجائے گا یقین ہی نہی آتا۔ ابھی تو اس ہمہ جہت شخصیت اور رنگا رنگ کردار کو خود اپنی اور انسانیت کی زندگی میں کئی رنگ بھرنے تھے۔ ابھی تو اس نے جامعہ کراچی۔ طلبہ اور اساتزہ برادری اور اپنے ملک و ملت کی جو خدمت کرنی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتی کہ جو وہ کرگیا۔ مگر دست قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جو کچھ وہ کر گیا یہی بہت کافی ہے اگر اہل علم و دانش اور شعر و سخن کے متوالے اس کو سمجھیں اور اس کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھائیں تو یقیناً یہ ملک و قوم۔ علم و دانش اور شعر و سخن کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
اس محفل کی جان شان اور آن بان ہمارے عزیز دوست بھائی شکیل خان تھے جنھوں نے نہ صرف شکیل فاروقی اور ان سے جڑی یادیں ہم تک پہنچائیں بلکہ انتہائی خوبصورتی کے ساتھ نظامت کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ اگر میں یہ کہوں کہ محفل میں آدھی جان تو صرف شکیل خان کی نظامت سے پڑ جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ نظامت کے دوران حسب موقع خوبصورت اشعار کا استعمال۔ بزلہ سنجی۔ بروقت جملوں کا چست کرنا۔ مقررین کا بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ تعارف کرانا محفل کو چار چاند لگادیتا ہے۔ ان کی ان ہی باتوں کی وجہ سے سامعین آخری وقت تک محفل اور اس کی کاروائی سے جڑے رہتے ہیں۔ اردو زبان بھی نہایت شائستہ اور بامحاورہ بولتے ہیں جس میں دلی کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ سننے والوں کے کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔ ایسے موقع پر شکیل خان اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ اہل جماعت کب مانتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا۔ بیاد شکیل فاروقی کی اس پروقار تقریب کی نظامت شہر کراچی کے مشاق مقرر و میزبان شکیل خان صاحب کے ذمے تھی۔ اور آپ ہی اس نہج کی ادبی فضاؤں میں اپنے پرتاثیر آواز و کلمات کی گونج پھیلانے کے لائق ہیں۔ درد کی فضا اور شکیل خان کا معزز و معتبر مقررین کو خطاب کے لئے مدعو کرنا۔۔گویا سحر کا حصار کھینچ دیا۔
محترم مقررین حضرات میں اس شہر قائد کی نامی گرامی اور جانی مانی شخصیات شامل تھین۔ جنھوں نے شکیل فاروقی مرحوم کے حوالے سے اپنے جزبات و احساسات۔ مشاہدات و تجربات اور اعلٰی و ارفع خیالات کا اظہار کیا۔ اب ہم فرداً فرداً اور مختصراً اس کا احاطہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو آرٹس کونسل کے صدر اور روح رواں جناب محمد احمد شاہ صاحب نے فرمایا کہ شکیل فاروقی اور وہ جامعہ کراچی میں ہم جامعہ تھے۔ جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے ایک لمبے عرصے بعد ایک ری یونین تقریب جو کہ جناب سیف الرحمٰن گرامی کے گھر پر منعقد ہوئی تھی دوبارہ ایک یادگار ملاقات میں بدل گئی۔ یہاں احمد شاہ صاحب کو پتہ چلا کہ فاروقی صاحب گرامی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اور فاروقی صاحب کا خاندان بہت سی دیگر نامی گرامی شخصیات کی دولت سے مالا مال ہے۔
مرحوم شکیل فاروقی کے بھتیجے جناب کاشف گرامی صاحب نے سب سے پہلے تو شیخ الجامعہ محترم ڈاکٹر خالد عراقی صاحب اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے فاروقی صاحب کی بیماری۔ اسپتال کے معاملات اور بالآ خر انتقال اور نماز جنازہ اور تدفین کے امور میں خاطر خواہ مدد فرمائی۔ بعد ازاں انہوں نے شکیل فاروقی کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا۔
پہلا دور سنہ 1970 کا ہے جب کہ فاروقی صاحب کے والد عبدالرحمٰن جامی کا انتقال ہوگیا جبکہ فاروقی صاحب دس سال کے تھے۔
دوسرا دور 1980 کا ہے جب کہ آپ جامعہ کراچی کے طالب علم رہنما کے طور پر ابھرے اور انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے سیکریٹری جنرل اور صدر کے عہدوں پر فائز رہے۔
تیسرا دور 1988 سے شروع ہوتا ہے جب کہ وہ جامعہ کراچی کے لیکچرر مقرر ہوئے۔
مشہور و خوبصورت شاعرہ محترمہ عنبرین حسیب عنبر صاحبہ نے اپنی بات کی ابتدا اس انٹرویو سے کی جو انہوں نے شکیل فاروقی صاحب کا پی ٹی وی کے لیے کیا تھا اور جو ان سے پہلی ملاقات تھی۔ عنبر صاحبہ نے فرمایا کہ شکیل صاحب اپنی بات اور نکتہ نظر میں بہت ہی اٹل تھے۔ان کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی مثبت سوچ تھی۔ جس کا وہ ہمیشہ اظہار کرتے ریتے تھے۔
مشہور سماجی اور علمی شخصیت جناب رضوان صدیقی صاحب نے فرمایا کہ وہ شکیل صاحب کے بڑے بھائی جناب سیف الرحمٰن گرامی صاحب کے بہت گہرے دوست تھے جس کی وجہ سے شکیل صاحب سے بھی تعارف تھا مگر بڑے بھائی کی وجہ سے شکیل صاحب نے ہمیشہ ایک احترام اور ادب اور لحاظ کا ر شتہ بر قرار رکھا۔
جناب پروفیسر انیس زیدی صاحب نے کہا کہ ویسے تو فاروقی صاحب کو بہت عرصے سے جانتے تھے مگر اصل تعارف تو جب ہوا جب وہ جامعہ کراچی میں لیکچرر بنے۔ جس کے بعد فاروقی صاحب کی بے شمار خوبیاں مجھ پر عیاں ہوئیں۔ گو کہ ہم دونوں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے مگر فاروقی صاحب دوسروں کو ساتھ لیکر چلنے کا ہنر جانتے تھے۔
جناب زبیر طاہر صاحب نے بتایا کہ جب شکیل فاروقی صاحب اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے داودی بوہرہ کمیونٹی کے امام جناب سیدنا برہان الدین صاحب سے ملاقات کی تاکہ شعبہ جینیٹکس کی بنیاد رکھی جائے تو سید صاحب نے دونوں حضرات سے وعدہ لیا کی اس شعبہ میں کوئی غیر اسلامی اکٹیوٹی نہ ہو۔ جس کا فاروقی صاحب نے آخر وقت تک مان رکھا۔ طاہر صاحب نے اپنی کمیونٹی کی طرف سے شکیل فاروقی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہون نے ہمیشہ بوہری برادری کا ساتھ دیا اور تعلیمی میدان مین ہمیشہ تعاون کیا۔ جناب ڈاکٹر علی القدر صاحب نے بھی اس سلسلے میں اپنی اعلٰی خیالات کا اظہار کیا۔
جناب ڈاکٹر ریاض احمد صاحب نے بتایا کہ ان کا فاروقی صاحب سے گزشتہ 20 سالوں سے تعلق رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاروقی صاحب کو اختلاف کا سلیقہ آتا تھا۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور یہ بھی کہ جامعہ سے کیسے محبت کی جاتی ہے۔
جناب ڈاکٹر فیاض وید صاحب نے بتایا کہ مرحوم سے آخری چند سال بہت گہری وابستگی ہوگئی تھی۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔ وہ ایک عامی آدمی تھے۔ انہوں نے تاخیر سے شاعری شروع کی کم لکھا مگر خوب لکھا۔ وہ شرف جامی کے نام سے ایک ہفتہ وار کالم بھی نئی روشنی اخبار میں لکھا کرتے تھے۔
جناب خلیل اللہ فاروقی صاحب نے فرمایا کہ فاروقی صاحب میرے دوست اور ساتھی تھے اور ہمارے درمیان سب سے بڑی قدر مشترک تھی کہ ہم دونوں کے گھرانوں کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ اس موقعہ پر خلیل بھائی نے حیدرآبادی میں کچھ چٹکلے بھی سنائے جن سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔ اور سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ساتھ ہی انہوں نے موقع کی مناسبت سے کچھ اشعار بھی سنائے اور ایک سما باندھ دیا۔
شیخ الجامعہ جناب ڈاکٹر خالد عراقی صاحب نے فرمایا کہ میرے لیے وہ شکیل بھائی تھے۔ انہون نے کہا کہ میری فاروقی بھائی سے پہلی ملاقات 1983 میں ہوئی جب کہ وہ آرٹس فیکلٹی میں شعبہ سیاسیات کے سبزہ زار پر ایک لیڈر کی حیثیت سے طلبہ کے جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ ہم دونوں اس وقت جامعہ کے طالب علم تھے۔ طلبہ اس وقت دائیں اور بائیں کی سیاست میں تقسیم تھے مگر میں نے انہیں ہمیشہ ایک ہی بلاک میں پایا اور وہ بلاک تھا جامعہ کراچی اور اس کی فلاح و بہبود۔ وہ ایک بہت ہی بھرپور زندگی گزار کر گئے۔ اور زندگی کا کوئ شعبہ یا پہلو ایسا نہی ہے جسے انہوں نے نہایت خبصورتی سے نہ برتا ہو۔
یوں تو سامعین میں سے ہر شخص فاروقی بھائ کو اپنے آپ سے سب سے زیادہ قریب سمجھتا تھا اور کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر وقت کی کمی آڑے آگئی اور مزید چند لوگوں کو ہی موقع مل سکا جن میں کچھ قابل زکر شخصیات مندرجہ زیل ہیں۔
جناب علاوالدین خانزادہ صاحب۔ جناب امین میمن صاحب۔ جناب ڈاکٹر مقصود انصاری صاحب۔ جناب قاضی صدرالدین صاحب اور جناب طارق معین صاحب۔ اور بالآخر یہ خاکسار ظفر عالم طلعت۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ آرٹس کونسل نے اس تقریب کی ویڈیو ریکارڈنگ چند گھنٹوں میں ہی اپنی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر ڈال دی تاکہ جو احباب تفصیلی رننگ کمنٹری سننا چاہیں تو وہ بھی فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی آرٹس کونسل کے بہت سے دیگر کارناموں میں سے ایک ہے کہ ہر تقریب کی روداد فوراً ہی مل جاتی ہے۔
جہاں تک اس خاکسار کا تعلق ہے تو ہم نے شکیل فاروقی پر ان کے انتقال کے کچھ ہی دن بعد ایک خاکہ بعنوان ” آہ! محفلیں اجڑ گئیں” شائع کیا تھا جو اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنا اور احباب نے اس کی بہت پزیرائی کی۔ لہٰذا اب یہاں ان تمام باتوں کو دھرانا مناسب نہی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بھائی شکیل فاروقی کیلیے اس محفل میں دعا بھی کرائی گئی۔ جس کے دوران ہلکی پھلکی پھوار بھی پڑی یو ں لگا جیسے آسمان بھی ہمارے غم میں شریک ہے اور آنسو بہارہا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ شکیل بھائ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل دے۔ اور ان سے محبت کرنے والوں کو ان کا مشن آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ آمین ثمہ آمین۔