* حکومت پنجاب کاصوبے میں 15 ھزار خالی آسامیوں پر دیہاڑی دار اساتذہ بھرتی کرنے کا فیصلہ ، آسامیاں مشتہر ۔
حکومت پنجاب نے صوبے میں بڑی تبدیلی کے لیے بڑا فیصلہ کر لیا۔ اس تاریخ ساز فیصلے کے مطابق پرائمری سکول ٹیچر کو 720 روپے ایلیمنٹری ٹیچر کو 800 روپے ، سیکینڈری یعنی ہائی سکول ٹیچر کو 1000 روپے اور ہائر سیکینڈری یعنی گیارویں اور بارھویں جماعت کے استاد کو 1200 روپے دیہاڑی دی جائے گی ۔یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ۔ خبر سنتے ھی بے روزگار نوجوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور لوگ خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے۔ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رھے۔ جبکہ لاکھوں روپے لگانے والے والدین ابھی تک سنھبل نہیں پائے۔ اساتذہ کے لیئے ان بھاری معاوضوں کی سفارشات تیار کرنے والے ” دیہاڑی کمیشن ” نےسابقہ حکومتوں کی ڈنگ ٹپاو پالیسی کی Reshaping کرتے ھوئے اس میں بہتری کے لیئے کئی اقدامات تجویز کیئے تھے جس میں دیہاڑیاں لگانے کی نئی تھیوری پیش کی جس میں تمام ملازمیں کو دیہاڑی دار بنانے کے اتنے فضائل پیش کیئے کہ حکومت پنجاب نے سب سے پہلے پاکستان کے نظریے کے تحت ” سب سے پہلے پنجاب” کے تحط اساتذہ کو تختہ مشق بنانے پر تیار ھو گئی۔ کمیشن کو اس اہم قومی فریضے کی ادائیگی میں تین سال کی شبانہ روز کی محنت کے بعد یہ اعزاز نصیب ھوا۔ کہ وہ اس پیکیج کا اعلان کر سکے۔ حکومتی شہ دماغوں اور عالم و فاضل وزیر تعلیم نے برملا فخریہ اظہار کرتے ھوئے کہا کہ پنجاب وہ پہلا صوبہ ھے جس نے اس Myth (متھ) کو باطل ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ھے کہ تبدیلی اور انقلاب اساتذہ لاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ھم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہا اگر جناب عمران خان صاحب اور سردار عثمان بزدار جیسے انقلابی سالار قافلہ ھوں تو انقلاب کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لاھور میں منعقدہ اعلی سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ گذشتہ تین سال سے عوام تبدیلی کا انتظار کر رھے ہیں جس سے نہ صرف عوام کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں ۔ بلکہ ان کے صبر کا پیمانہ بھی چھلکنے کو بے تاب ھے۔ چنانچہ ایک تو ان کی پتھرائی ھوئی آنکھوں کا علاج صحت انصاف کارڈ کے ذریعے کروایاجائے گا ۔اور دوسرے ان کے ایسے لینز بھی لگائے جائیں گے کہ ان کو ” ساون کے اندھوں کی طرح ” ھر طرف ھرا ھرا ھی نظر آئے گا۔ اس طرح حکمران چین کی بانسری بجاتے اپنا عرصہ اقتدار امن و سکون سے گزار سکیں گے۔
دوسرے پچاس لاکھ نوکریوں میں سے سر دست 15 ہزار نوکریوں کا بندوبست بھی ھو جائے گا۔اس طرح حکومت کو سستی اور پڑھی لکھی دیہاڑی دار “ورک فورس “بھی میسر آ سکے گی۔ جس سے موسم گرما کی تعطیلات میں سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی تعمیر ومرمت کا کام بھی لیا جا سکے گا ۔اس سے حکومت کو کروڑوں اربوں روپے کا کثیر ملکی سرمایہ بچانے میں کامیابی ھو گی ۔ اساتذہ سے تعمیراتی سرگرمیوں کا پہلا ” پائلٹ پراجیکٹ” تونسہ شریف میں شروع کیا جائے گا۔
جب وفاقی حکومت کے ترجمان سے اس تاریخ ساز پالیسی بابت ان کا نقطہ نظر جاننے کے لیئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ھم اپنی پالیسیوں کی لوکل مینوفیکچرنگ نہیں کرتے۔ بلکہ ھمیں IMF اور ورلڈ بینک سے بنی بنائی پالیسیاں ھی مل جاتی ہیں ۔ ترجمان نے کہا باقی جو مزا ” پکی پکائی ” کھانےمیں ھے وہ خود پکانے میں نہیں ۔چنانچہ آئیندہ ” ریڈی میڈ پالیسیاں ” ھی استعمال کی جائیں گی۔ ترجمان نے کہا حکومت پر بہت دباو ھے کہ کابینہ کے ارکان، پارلیمانی سیکریٹریز اور مشیر و معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج بھی دیہاڑی پر رکھ لی جائے ۔ تاکہ جب ضرورت پڑھے ان کو چلتا کیا جائے۔ فیڈرل گورنمنٹ کے ترجمان نے “آف دی ریکارڈ” گفتگو کرتے ھوئے کہا ھمیں حکومتی ایجینسیوں نے اطلاع دی ھے کہ عوام میں بڑھتے ھوئے غصے اور بے چینی کو دیکھتے ھوئے اپوزیشن سے ھمدری رکھنے والے ” تھنک ٹینک” سول سوسائیٹی کے بعض موثر حلقے اور ارکان اسمبلی کا ایک پریشر گروپ یہ مطالبہ فلوٹ کرنے جا رھا ھے کہ صرف وزیر مشیر ھی نہیں بلکہ سربراہ حکومت اور صدر مملکت کو بھی پر کشش دیہاڑی آفر کرکے سالانہ اربوں روپے بچا کر ملک کو بھاری قرضوں اور اقتصادی بحران سے بچایا جا سکتا ھے۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر کی ماہانہ تنخواہ 2 لاکھ ، وزیر اعظم کی ماہانہ تنخواہ 24 لاکھ اور صدر مملکت 8 لاکھ46 ہزار 550 روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں اور الاونسز اس کے علاوہ ھوتے ہیں ۔
وزیر اعظم کی تنخواہ پر اعتراض کرنے والوں کی اطلاع کے لئیے عرض ھے کہ آخر وہ 22 سال تک بے روزگار رھے ہیں ان کا اتنا تو حق بنتا ھے۔کہ وہ اتنی طویل اور صبرآزما بے روزگاری کے بعد کوئی ” چج دیاں دیہاڑیاں” لگا سکیں ۔ آخر ان کی بھی کوئی ذمہ داریاں ہیں رھے صدر صاحب تو انہوں نے ( دنداں سازی سے اتنے پیسے کام کما لیئے ہیں کہ اب انکا گزارہ 8 ساڑھے آٹھ لاکھ کی معمولی تنخواہ سے بخوبی ھو سکتا ھے۔باقی رہ گیئی وزرا اور معاونین کی عوامی فوج تو وہ تنخواہ کے نام پر صرف جھونگا لے رہے ہیں۔وہ تو خود بیچارے دیہاڑی دار ہیں ۔ چھوٹے موٹے ٹھیکوں اور رنگ روڈ جیسے منصوبوں سے کروڑوں اربوں کی دیہاڑی لگا بمشکل اپنی گزر اوقات پوری کرتے ہیں ۔ اور کھانا لنگر سے کھاتے ہیں ۔