کرامت بخاری کی شاعری کی گونج تو عرصہ دراز سے کانوں میں پڑ رہی تھی ۔۔مگر سچ پوچھیئے مکمل آگہی کے لیئے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔۔طلوع فردا ملی ،اس کا مطالعہ کیا۔ تو کتاب یوں لپٹ گئی جیسے برسوں کی جان پہچان ہو۔۔۔غنائیت سے بھرپور نظموں کا مطالعہ میں نے بہت ہی دلچسپی سے کیا ۔۔۔۔طلوع فردا میں نوسٹیلجیا کی ادا ،ماضی کی ردا زمانہ حال کا عکس اور فردا کی فکر کے تمام عناصر ہمیں ملتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیے
“کبھی کبھی اک عجیب الجھن میں ڈال دیتی ہے سوچ مجھ کو
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہاں گئیں وہ ادھورے خوابوں کی پوری راتیں
وہ بیتی باتیں وہ دل کی گھاتیں
کہاں گیا وہ سفر سہانا،کہ جس پہ ہم تم ہوئے روانہ
کہاں گئے وہ کٹیلے ابرو، سجیلی آنکھیں گھنیرے گیسو
کہاں گئی وہ جواں لبوں کی نشیلی سرخی وہ رنگ و خوشبو”
اور پھر نظم “نیو کیمپس “میں دیکھیئے
“کیمپس کی مخمور فضا سے اتنے ہم مانوس ہوئے
شاید اب اس پریم نگر کو چھوڑ کے جانا مشکل ہو
ان چہروں سے آ ج کرامت جتنا ممکن پیار کرو
بکھرے گر پتیوں کی طرح تو پھول بنانا مشکل ہے”
یادوں کے چلمن سے جھانکتا “تصور”
“کوئی تو ہےکہ جس کی راہ کے کانٹے مرے پاؤں میں چبھتے ہیں
کوئ تو ہے کہ جس کے درد کے نشتر مرے پہلو کے پیکاں ہیں”
اور پھر “شب ہجراں”
“اپنی مجبور محبت کی خمیدہ با نہیں
گھر کے ویرانے کی گردن میں حمائل کرکے
درد کو دل میں دبائے ہوئے سونا چاہا
ذہن کو تھپکیاں دے دے کہ سلانا چاہا
اپنے ماضی کی محبت کو بھلانا چاہا۔۔
ہجر کی رات سے دیرینہ تعلق تھا مرا
اس تعلق نے کسی اور کا ہونے نہ دیا”
یوں لگتا ہے میانوالی کے ماحول سے نکلا نوجوان امیدوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر باہر کی آزاد فضاُمیں سانس بھی لینا چاہتا ہے اور پابہ گل بھی ہے علاقائی یا خاندانی روایات کا پاس بھی ہے۔
“میرے آنگن میں وحشت ہے اندھیرا ہے
ہوائیں چیختی ہیں اور بگولے رقص کرتے ہیں
مری مٹی ترستی ہے
کسی پا زیب چھنکاتی ندی کے لمس کو نم کو
کسی آوارہ بدلی کو
کسی رم جھم کے موسم کو
مری مٹی ترستی ہے
خدا جانے کہاں شبنم اترتی ہے
کہاں بارش برستی ہے
میں صحرا ہوں”
ان کی شاعری میں گہرا مشاہدہ بھی ہےرومانس میں گھلے جزبات بھی اور یادوں کی پروئ مالا بھی۔۔۔شاعری عام فہم ہے گداز پن بہت متاثر کرتا ہے اور طلوع فردا عصری تقاضوں سے لپٹی دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔۔
طارق واصفی کے مقالے میں نامور شاعروں کے ساتھ تقابلی جائزہ بھی لیا گیا ہے اور ان گنت عالمی شاعروں کا تعارف اور نمونہ کلام بھی پیش کیا گیا ہے۔۔بذات خود یہ مضمون معلومات سے بھر پور اور بہت عرق ریزی سے لکھا گیا ہے۔مگر یہ مفصل مضمون قاری اور لکھاری کے درمیان گراں گزرتا ہے۔۔
کرامت بخاری کی شاعری اپنے آپ کو منواتی ہوئ اپنی طرف مائل کرتی چلی جاتی ہے۔اور قاری اس سے خوب خوب لطف اندوز ہوتا ہے۔۔ان کی نظموں میں حساس دل کی ساری بے چینیوں کی جھلک نظر آتی ہے۔محبت کے ساز پر بجتی شہنائیاں، دل پر برستے رسیلے نغموں کی رم جھم،تنہائ کی حسرتیں ہجر کی آگ تا پتی آہیں۔۔
کرامت بخاری کی ہر نظم دل کو چھوتی ہوئ اپنا نقش بناتی چلی جاتی ہے۔۔کرامت بخاری عصری تقاضوں سے بھی باخبر ہیں۔۔۔
نظم دیکھیئے
“واہ رے او انسان
ہو کشمیر کی وادی کوئ یا شہر لبنان
چور لٹیرے ظالم ڈاکو بن بیٹھے سلطان
ظالم اور مظلوم کی اب تو مشکل ہے پہچان
کیسے چھیڑوں راگ خوشی کے کیسے میٹھی تان
جب ہو جائے دل کی بستی ساری ہی سنسان”
اور پھر جنگ میں دیکھیئے
“موت بانٹنے والو باغ زندگانی کی شاخ کاٹنے والو
موت کی تجارت میں سب کا ہی خسارہ ہے
بھوک کی اضافے پر خوش نہیں ہوا کرتے
جنگ جیتنے والو جنگ کس نے جیتی ہے “
سفارش
الفت کی نگارش کا
اور دل کی سفارش کا
تھوڑا سا بھرم رکھو نفرت ذرا کم رکھو
کرامت بخاری کی نظم ہو یا گیت یا ہائیکو ہر شعر اپنا خاص اثر رکھتا ہے