سید منور حسن کی پہلی برسی کے موقع پر میرے خیالات ۔
* میرا مرشد *
میں ساری دنیا میں پیر و مرشد سید منور حسن کے مریدوں میں واحد، یکہ و تنہا مرید ہوں جو سید صاحب کی ریش مبارک کا بوسہ لیتا تھا، آپ کے ہاتھ چومتا تھا، ہاتھ چومنے والے تو اب بہت ہوگئے تھے لیکن ریش مبارک کا بوسہ لینے کی آزادی صرف مجھے حاصل تھی، اس آزادی کی بھی اک داستان ہے یہ ایسی آسانی سے نہی مل گئی تھی جن دنوں سید صاحب کراچی جماعت کے امیر تھے اس وقت میرا ان سے تعلق واجبی سا تھا، بعد میں منور صاحب پاکستان کے سکریٹری اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیر بنے ان دنوں بھی میرے سید صاحب کے ساتھ تعلق کی نوعیت عمومی سی ہی رہی، بس معمول کے تعلقات، کوئی ذاتی تعلق نہ تھا صرف یہ تھا کہ وہ مجھے جانتے تھے۔
سید منور حسن نے عمر عزیز کے 22 سال منصورہ جیسی جگہ میں کھپائے، جب بیرونی دبائو اور اندرونی افواہوں کی بنیاد پر آپ کو جماعت اسلامی کی امارت سے سے فارغ کیا گیا اور آپ واپس اپنے ایک بیگ کے ساتھ کراچی تشریف لے آئے ان دنوں میں بھی سنیچر کے روز دستور جماعت اسلامی اور مولانا سید ابوالعلی مودودی صاحب کی دیگر کتب کی آڈیو ریکارڈنگ کے لئے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے اسٹوڈیو جایا کرتا تھا۔ الحمداللہ یہ اعزاز مجھے حاصل ہےکہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب زادراہ ، مولانا مودودی رحمتہ اللہ کی کئی کتب ، دستور جماعت اسلامی میری آواز میں ریکارڈ کئے ہیں ۔
وہ اک سنیچر کا دن تھا جس کو میں نے بعد میں “یوم سبت ” کا نام دیا۔ اس تاریخی دن کا اک اک لمحہ مجھے یاد ہے ظہر کی نماز میں نے سید صاحب کے برابر میں ادا کی، وہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کررہے تھے، نماز کے بعد میں نے کالے رنگ کی سینڈل کا رخ آپ کے پیروں کی طرف کردیا آپ نے ناپسندیدہ انداز میں میری طرف دیکھا سینڈل پہن کر کھڑے ہوئے تو میں نے مصافحہ کرتے ہوئے ہاتھ کو بوسہ دیا اور گلے ملتے ہوئے داڑھی کو بوسہ دیا ، سید صاحب خشمگین نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ میں بول پڑا کہ سید صاحب میں تو پرائوڈ ( Proud ) بریلوی ہوں میرا تو مسلک یہی ہے کہ سیدوں کا دامن پکڑے پکڑے جنت میں جانا ہے اور آپ تو ایسے سید ہیں کہ جو آج بھی اپنوں اور بیگانوں دونوں کے تیر ، تلوار و خنجروں کی زد میں ہیں یہ سن کر آپ کے چہرے پر ہلکا سا تبسم نمودار ہوا اور مجھ سے کہا کہ “اچھا تو تم بریلوی ہو “میں نے کہا سید صاحب میں تو پرائوڈ بریلوی ہوں یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اچھا تم بریلوی ہو تو میٹھا کیوں نہی لیکر آتے میں نے کہا کہ میٹھا ابھی حاضر کرتا ہوں، اس کے بعد آپ کی ریش مبارک کا بوسہ لینا میرا معمول ہوگیا اور آپ نے بھی کبھی اعتراض نہیں کیا بعد میں تو یہ بھی ہوا کہ اگر کبھی میں ریش مبارک کو بوسہ نہی دیتا تو کہتے کیا بات ہے آج وظیفہ مکمل نہی کیا۔
آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے بعد آپ کی قبر پر یوم سبت مناتا ہوں، سید منور حسن کی قبر روایتی سمینٹ اور بجری کی بنی اینٹوں کی ہے جس پر اب پلاسٹر ہوگیا ہے کچھ عرصہ پہلے تک یہ نہی ہوا تھا کیوں نہی ہوا نہ میں نے گورکن سے معلوم کیا نہ اس نے بتایا، یہ گزشتہ سنیچر کی بات تھی۔
عید الضحی بھی سنیچر کے دن تھی ( گزشتہ عید الااضحی کا ذکر ہے ) اس روز حاضری ہوئی قبر کو پلاستر ہوچکا تھا لیکن کتبہ اب بھی نہی تھا ممکن ہے ابھی تیار نہ ہوا ہو (اب کتبہ لگ گیا ہے ) قبر پر چار پودے لگے ہوئے ہیں جن میں سے ایک موتیے کا ہے بقیہ تین کے بارے میں مجھے اندازہ نہی ہوا، بارش کی وجہ سے قبر کی مٹی گیلی تھی کچھ پھول کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں مجھ سے پہلے بھی کوئی آکر گیا تھا بارش کے بعد کی روایتی سیلن فضاء میں موجود تھی، قبر کے قریب لگا نیم کا درخت دھلا ہوا پاکیزہ لگ رہا تھا۔
مرشد کا 120 گز کا گھر شادمان ٹائون کراچی میں واقع ہے، گھر سے سخی حسن قبرستان کے عقبی دروازے کا فاصلہ چند لمحوں کا ہے اس دروازے سے شہر خموشاں میں داخل ہوں تو بائیں ہاتھ کی جانب اندازاء سو قدم کے فاصلے پر بنی ایک چاردیواری کے بعد ایک قبر آتی ہے جس کو لوہے کی جالیوں اور آہنی دروازے سے بند کیا گیا ہے اس کے
فورا بعد پتلا سا ایک راستہ ہے جس پر قبروں سے بچتے بچاتے چلیں تو پہلے جماعت اسلامی کے غیر متنازعہ سیاسی قائد اور میاں طفیل محمد صاحب رحمتہ اللہ کے بعد امارت کے لئے نظر انداز کیے جانے والے جماعت اسلامی میں امیر کے لئے سب سے موزوں ، سب سے محترم، مدبر ، سیاسی سوجھ بوجھ اور حرکیات پر نظر رکھنے والے قائد جنت مکانی پروفیسر غفور احمد اور انکی اہلیہ کی قبر آتی ہے پروفیسر غفور احمد صاحب کو امارت سے جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت اسلامی پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت بن کر سیاسی تنہائی کا شکار ہوگئی۔ پروفیسر غفور احمد صاحب کی قبر سے شاید پانچ قدم کے فاصلے پر یا اس سے دو قدم زیادہ پر پاکستان کی پس پردہ قوتوں کے شدید مخالف اور بالآخر اسی شدید مخالفت کے نتیجے میں امارت کے انتخاب میں نظر انداز کئے جانے والے مرشد سید منور حسن کی قبر آجاتی ہے،
عموما میں قبر کے کنارے کھڑا ہوجاتا ہوں اب رونا نہی آتا سوچتا ہوں کہ مرشد سے کیا بات کروں جسے سن کر آپ کی طبیعت بشاش ہوجائے (عطا محمد تبسم نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ شکیل خان کے آنے سے مرشد کی طبیعت بشاش ہوجاتی تھی) آپ مسکرانے لگتے تھے لیکن اب میں خود ان یادوں پر مسکرانے لگتا ہوں کہ وہ تو اس وقت قدسیوں کی محفل میں ہوں گے مجھے کہاں لفٹ کرائیں گے معا میموری ری کال ہوتی ہے اور مجھے یاد آتا ہے کہ ایک سنیچر سید صاحب کی طبیعت بہت اچھی تھی جنت اور اسکی محفلوں کا ذکر ہورہا تھا کہ بیچ میں داڑھی کا ذکر آگیا کسی نے داڑھی کی اہمیت اور جنت میں جانے کے لئے اس کی ضرورت پر زور دیا ایک صاحب نے شرعا داڑھی کی لمبائی کا ذکر کرتے ہوئے میرے کلین شیو ہونے پر طنز کیا تو سید صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھ بے ریش و ریا کو دیکھا اور فرمایا کہ بھئی شکیل کے لئے تو جنت میں کوئی گنجائش نکالنی پڑے گی انکو باہر تو نہی چھوڑا جاسکتا ہے یہ وعدہ سوچ کر میں تو خوش ہوگیا اس لئے کہ مجھے اس وعدہ کے پورا ہونے کا مکمل یقین ہے لیکن معا یہ بھی خیال آیا ہے کہ قدسیوں کی محفل میں بھی سید صاحب چھاگئے ہوں گے وہاں بھی خوب جملہ بازی ہوگی اپنے مخصوص انداز میں پورے ردھم کے ساتھ نثر میں شاعری کررہے ہونگے۔
داڑھی کے حوالے سے ایک اور یاد آگئی، منور صاحب اکیڈمی سے گھر جانے کے لئے اٹھے میں، سرفراز، ہمایوں نقوی ، عثمانی صاحب، ساتھ ہیں اکیڈمی کے استقبالیہ پر جو صاحب بیٹھتے ہیں ان کا نام احمد جان ہے وہ بھی میری طرح کلین شیو ہیں سید صاحب نے ان کو بلآیا اور کہا کہ احمد جان اب آپ بھی داڑھی رکھ لیں وہ گردن ہلا کر اپنی جگہ دوبارہ بیٹھ گئے، میں نے قریب ہوکر آہستگی سے اردو کا مشہور محاورہ کہا کہ سید صاحب آپ بھی خوب ہیں ” بیٹی کو کہتے ہیں بہو کو سناتے ہیں” سید صاحب نے جواباً کہا
” بہو پھر بھی نہی سنتی “
آخری زمانہ میں اکٹر برصغیر میں صوفیت کے مختلف سلسلوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حضرت امام احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمتہ اللہ کا ذکر بڑی عقیدت و محبت سے کرتے اپنی خوبصورت آواز میں آپ کا مشہور سلام ” یانبی سلام علیک یارسول سلام علیک ” سناتے پرنم آنکھوں سے کہتے کہ اس سے اچھا سلام اردو میں آج تک نہی لکھا گیا اس سلام کے ردھم، اور اس کی لے ساری دنیا میں ایک ہی ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ یہ جماعت اسلامی والے اگر مجھے اجازت دیں تو میں یہاں سید صاحب کا مزار بنوائوں، مرشد کا عرس کرائوں ابو محمد ایاز فرید کی قوالی کروائوں، رنگ پڑھوائوں، خواجہ کی نوبت بجائوں۔ لیکن جماعت اسلامی والوں کے خوف سے یہ باتیں سوچ کر چپ ہوجاتا ہوں۔
اس دوران مجھے قبروں پر پانی ڈالنے والے بچے تنگ کرتے رہتے ہیں کسی کو پیار سے کسی کو ڈانٹ کر منع کرتا ہوں یہ بچے مجھے پہچان گئے ہیں کبھی پھول کی پٹیاں لے لیتا ہوں کبھی نہی بھی لیتا یہ موقع بڑے سکون کا ہوتا ہے عموما یہ وہی وقت ہوتا ہے جب میں مرشد کے دربار میں حاضر ہوتا تھا اس لئے دربار کا تصور سامنے آتا ہے گزشتہ پانچ سال کے یوم سبت سامنے آتے ہیں۔ یہ میموری ری کال مجھے وجد میں لے آتا ہے۔
میں اردو شعراء میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کا پرستار ہوں اس لئے دوستوں میں غالبیاء کہلاتا ہوں، سید صاحب کے سامنے غالب و اقبال کا موازنہ کرتا اور غالب کو برصغیر کا سب سے بڑا شاعر ثابت کرنے کی کوشش کرتا، علامہ اقبال کو ایک مخصوص نظریے کا شاعر بنانے کی کوشش کرتا سید صاحب میری ہر کوشش کو ناکام بنادیتے، ان دنوں سید صاحب کے پاس وقت گزارنے کا واحد مقصد یہ ہوتا تھا کہ سید صاحب کو سنا جائے ان کی باتوں کو ریکارڈ کیا جائے وہ 65 سال پاکستان کی سیاسی زندگی کا متحرک کردار رہے ہیں، انکی یادوں کو تاریخ کے لئے محفوظ کرلیا جائے لیکن ہم اس میں یکسر ناکام رہے۔ ہم نے کچھ بھی محفوظ نہی کیا۔
میرا تعلق کراچی آرٹس کونسل سے ہے میں وہاں کی گورننگ باڈی کا ممبر ہوں اس حوالے سے مختلف تقریبات کا میں ذکر کرتا رہتا تھا، سید صاحب ان میں شاید میری دلدہی کے لئے دلچسپی لیتے ایک مرتبہ میں نے 60 ء کی دھائی کے نورجہاں کے اک گانے کا ذکر کیا تو سید صاحب نے مجھے اس کا دوسرا مصرعہ بتادیا،
سید صاحب اپنی والدہ محترمہ کو بہت یاد کرتے ان کا ذکر بڑی عقیدت، محبت و آبدیدہ ہوکر کرتے، ان کی نیکی سچائی اور سادگی کا بیان کرتے، والدہ صاحبہ محلے کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتی تھیں لڑکیوں کو امور خانہ داری سکھاتی تھیں آپ کے میلاد شریف پڑھنے کا ذکر کرتے، بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے ناتے والدہ صاحبہ کے ساتھ ہر محفل میں جانے کا ذکر کرتے والدہ صاحبہ کتنی سادہ خاتون تھیں ایک دن بتانے لگے کہ صاحبزادہ طلحہ بہت چھوٹا تھا کہ میں، اہلیہ عائشہ منور صاحبہ ہوائی جہاز سے کہیں جانے والے تھے والدہ صاحبہ کو پتہ چلا تو مجھے اور بہو کو
بلاکر نصیحت کی کہ تم ہوائی جہاز سے جارہے ہو طلحہ بہت چلبلا اور شرارتی بچہ ہے اس کو جہاز کی کھڑکی سے دور بٹھانا اور پکڑ کر رکھنا۔
میرے لئے یہ گزرے ہوئے سنیچر ایک اثاثہ ہیں جو روح میں جلترنگ بکھیر دیتے ہیں۔میں ایک نارمل مسلمان ہوں، کبھی بھی مزہبی شدت پسند نہی رہا، لبرل شدت پسندی اور مذہبی شدت پسندی دونوں مجھے سخت ناپسند ہیں، مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے فیصلوں، افغانستان میں جنگ، کشمیر میں جنگ ان سب پر میرے تحفظات رہے ہیں اور ہیں، پراکسی وار ( Proxy war) اور پس پردہ قوتوں کے اشاروں پر،منتخب سیاسی حکومتوں کے خلاف احتجاج کا میں کبھی بھی قائل نہی رہا، اسٹیبلشمنٹ اور اس طرح کے دیگر ادارے کو جو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے خلاف سازشیں کریں میں نے انکو ہمیشہ ناپسند کیا ہے ۔ مشرقی پاکستان، افغانستان اور کشمیر میں پس پردہ قوتوں کا ساتھ دینے پر اور منتخب سیاسی حکومتوں کےخلاف دھرنوں اور کچھ دیگر معاملات پر میں اپنی الگ رائے رکھتا ہوں کبھی کبھی مرشد سے بھی اختلاف کرتا تھا سید صاحب میری ہر مختلف رائے کا بہت مدلل جواب دیتے تھے
گزرے ہوئے ان پانچ برسوں کے بہت سے سنیچر کے دوران سید صاحب نےصرف ایک مرتبہ مجھ سے سخت لہجہ میں بات کی اور یہ محسوس ہوا کہ آپ کی گفتگو اور لہجہ میں تلخی در آئی ہے اور آپ میری اس بات سے ناراض ہوئے ہیں اور وہ موقع تھا جب میں نے 10 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں قتل کئے جانے والے کچھ دانشوروں کا ذکر کرتے ہوئے البدر کو اس کا ذمہ دار ٹھرایا، مجھے محسوس ہوا کہ اس بات سے سید صاحب کو دکھ پہنچا ہےاور ایسی بات کرنا سید صاحب کو تکلیف دینا ہے اور اس پر میری سرزنش ضروری تھی، مشرقی پاکستان کا برضا و رغبت بنگلادیش بن جانا ان کو بہت دکھ دیتا تھا۔ مشرقی پاکستان وہاں کے جماعت اسلامی و جمیعت کے لوگوں سے وہ بہت محبت کرتے تھے ان کو دی جانے والی سزائوں پر ہم نے انہیں ہمیشہ نم دیدہ دیکھا ہے۔، میرا اختلاف ایک پیار کرنے والے کا اپنے محبوب سے ہوتا تھا کہ جس میں آخری بات محبوب کی ہی مانی جاتی ہے، مرشد ہم سب کہ محبوب تھے۔
سید صاحب ساتھیوں سے حددرجہ محبت کرنے والے فرد تھے میرے ذاتی معاملات میں دلچسپی لیتے، میری اہلیہ کی صحت، بچوں کی تعلیم، میری والدہ کی صحت، میرے فوت ہونے والے بھائی کے بچے کی تعلیم کے بارے میں معلومات لیتے رہتے تھے، نومبر 2017 میں میرے چھوٹے بھائی سہیل خان ( شاہیل) کا بائی پاس ہوا سید صاحب مستقل خیریت معلوم اور دعا کرتے رہے، ایک ہفتہ بعد اس کا انتقال ہوگیا سرفراز نے سید صاحب کو اطلاع دی مجھے فورا فون کیا بہت غمگین تھے کہنے لگے میں آرہا ہوں میں نے عرض کیا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے آپ آرام فرمائیں لیکن آپ تشریف لائے،طیبہ مسجد لیاقت آباد کے گراونڈ میں نماز جنازہ باوجود بیماری اور کمزوری کے پڑھائی۔ میری اور اہل خاندان کی ڈھارس بندھائی۔ اگر میں کراچی میں غیر موجودگی کی وجہ سے کسی سنیچر نہ پہنچ سکوں تو سرفراز سے معلوم کرتے کہ آج شکیل نہی آیا۔ سرفراز مجھ سے کہتا تھا کہ سید صاحب تمہارے آنے سے خوش ہوتے ہیں تم آجایا کرو یہ بات مجھے ساری زندگی مسرور رکھے گی کہ سید صاحب مجھے یاد رکھتے تھے۔
ذاتی تعلق کے حوالے سے ایک واقعہ جو ان کی محبت اور تعلق کی عکاسی کرتا ہے میں وہ آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں ایک سنیچر کو میں ایک نارمل سی گھر میں استعمال کرنے والی چپل پہن کر اکیڈمی آگیا آپ نے دیکھا اور جب میں آپ کے ساتھ اکیلا ہوا تو فرمایا کہ چپل پہن کر کسی محفل میں یا کسی سے ملنے مت جایا کرو ہمیشہ جوتے یا سینڈل پہن کر باہر نکلا کرو آدمی کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیلے یا آسمانی رنگ کو بہت پسند کرتے تھے خود تو اب، اب صرف سفید رنگ کے لباس زیب تن کرتے لیکن میں کبھی نیلے یا آسمانی رنگ کے کپڑے پہنتا تو تعریف کرتے ایک دن میں سیاہ رنگ کے شلوار قمیض میں اکیڈمی آیا تو حیران ہوئے میں نے کہا کہ آج کے دن میری شادی ہوئی تھی اس لئے اس تاریخ کو میں یوم سیاہ کے طور پر مناتا ہوں کہنے لگے کہ سرفراز ذرا فون شکیل کی اہلیہ کو ملائو۔
سید صاحب کی صاحبزادی کے نکاح مسنونہ کی تقریب فاران کلب میں تھی سید صاحب نکاح کی اہمیت، مرد و عورت کے نکاح کی بنیاد ، انکے خاندان کے درمیان تعلق، اور نکاح پر بات کررہے تھے اور بیچ میں پاکستانی کمیونسٹوں کا ذکر نکل آیا لیکن سید صاحب یکدم بات کو دوسری طرف لے گئے، کچھ عرصہ بعد میں نے استفسار کیا کہ نکاح کی تقریب کے دوران آپ نے اپنی تقریر میں پاکستانی کمیونسٹوں کا ذکر کرتے ہوئے بات کا رخ فورا تبدیل کردیا تھا کہنے لگے کہ میری نظر سامنے بیٹھے ہوئے معراج بھائی( معراج محمد خان نوجوانی کے دوست اور بائیں بازو کے مشہور رہنما ) پر پڑی تو میں نے تقریر کا رخ موڑ دیا کہ معراج بھائی میرے مہمان ہیں انکو اس قسم کی بات سے تکلیف پہنچے گی،سید منور حسن صاحب اور معراج محمد خان صاحب جس محبت اور خلوص سے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے وہ منظر دیکھنے والا ہوتا تھا،
پروفیسر غفور احمد صاحب کی سینٹ کی سیٹ پر انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب پروفیسر غفور احمد صاحب کو اسلام آباد کی سیٹ سے امیدوار نامزد کیا گیا تو سید صاحب اور دیگر رہنما مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین سے غفور صاحب کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ملنے گئے، ہر جگہ یہ ذکر ہوتا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین صاحب نے کہا کہ پروفیسر غفور احمد صاحب کے ہم پر احسان ہیں اور میں ان کی مکمل حمایت کروں گا لیکن آخری بات جو سید صاحب چودھری شجاعت صاحب کی ساری تعریف کرنے کے بعد بتاتے تھے کہ چوہدری صاحب نے کہا کہ پروفیسر غفور احمد صاحب کو سینٹ میں سپورٹ کرنے کے لئے اجازت تو مجھے محکمہ زراعت سے لینی پڑے گی محکمہ زراعت کی مرضی کے بغیر تو کچھ نہی ہوسکتا۔ سید منور حسن صاحب نے محکمہ زراعت اور محکمہ زراعت نے سید صاحب کو کبھی پسند نہی کیا۔
مجھے نقوی بھائی، سرفراز کو آپ کے سامنے کسی کا بھی بولنا برا لگتا تھا، ہماری تگڑم وہ تھی جو صرف آپ کو سننے اکیڈمی آتی تھی، ایک دن تین جید صحافی آپ کے پاس بیٹھے اپنے تجزئیے پیش کررہے تھے اور خود کو سب سے بڑا عالم و تجزیہ نگار ثابت کررہے تھے میں بیزار ہوکر کمرے سے باھر چلاگیا کچھ دیر میں واپس آیا تو صحافی صاحب کی تقریر جاری تھی میں نے سید صاحب سے کہا کہ مجھے تو اجازت عطا فرمائیں کہنے لگے کہ تم بہت جلال میں لگ رہے ہو میں نے برملا کہا کہ سید صاحب میں تو یہاں صرف آپ کو سننے آتا ہوں، یہ حضرات جو تقاریر کررہے ہیں ان سے اچھی تقریر تو میں خود کرلیتا ہوں، میں اجازت لیکر چلا آیا۔اگلے ہفتہ مجھ سے کہا کہ جلال میں مت آیا کرو غصہ کم کیا کرو۔ ہمیں تو یہ بھی برا لگتا تھا کہ آپ کے سامنے کوئی دوسرا اپنی لیڈری دکھائے۔ اکٹر ہمارے ایک دوست سید صاحب کے کمرے میں بیٹھ کر ہمارے سامنے مختلف سرمایہ داروں اور انکے افعال کا ذکر کرتے تھے جس میں ایک دو اور افراد بھی حصہ لیتے لیکن یہ باتیں وہاں بیٹھے ہم جیسے دیگر لوگوں کو سخت ناپسند پوتی تھیں۔
سید صاحب کے کراچی آنے کے بعد سے انکے مرض الموت تک سرفراز نے جس طرح سید صاحب کی خدمت کی وہ قابل تحسین ہے اولاد سے بڑھ کر وہ آپ کی خدمت میں لگا ریا اللہ پاک نے سرفراز کو یہ سعادت عطافرمائی کہ اس نے اس جنتی روح کو حتی الامکان آرام پہنچائے کی کوشش کی ۔ موت کا وقت متعین ہے لیکن کرونا وائرس کی تنہائی سید صاحب کو کھاگئی اگر آن دنوں بھی وہ اکیڈمی آتے رہتے سعید عثمانی صاحب، سرفراز، طفیل بھائی، ہمایوں بھائی، اور دیگر کے ساتھ محفل جمتی تو سید صاحب شاید ہم سے اتنی جلد نہ روٹھتے۔
اب میں بہت ساروں کو سید منور حسن کے نام کی تسبیح پڑھتے دیکھتا ہوں جید جغادری ہزار دانوں والی تسبیح پر مرشد کا وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں لیکن یہ تسبیح اور یہ نام صرف دکھاوے کے ہیں چھ سال قبل یہ صاحبان تقوی و طہارت، سید صاحب کے بیانیہ کے خلاف کمپین چلارہے تھےاور ان اداروں کی زبان بول رہے تھے جو سید صاحب کو ناپسند کرتے تھے، سید صاحب کا سچ کہ جس کو انکی اپنی جماعت برداشت نہ کرسکی اس سچ کے خلاف باتیں کررہے تھے جن کو سید صاحب کے سچ سے تکلیف تھی وہ دیکھ لیں آج وہ سچ جس سے سب کو تکلیف تھی اس مملکت کا بیانیہ ہے لیکن اس بیانیہ کا کیا کریں جب مرشد ہی نہ رہے۔