ایک طرف کلیسا تھا اور دوسری طرف مسجد کے مینار، درمیان میں کھنڈرات کا وسیع و عریض سلسلہ جن کے بارے شرق و غرب متفق ہیں کہ یہی وہ زرخیز سرزمین ہے جہاں علم و دانش کا پودا برگ و بار لایا اور وہ کتاب لکھی گئی جس کے بارے میں روسو کا خیال ہے کہ فن تعلیم پر اب تک لکھی جانے والی کتابوں میں وہ سب سے بہتر بلکہ اعلیٰ ترین ہے۔ یہ ذکر ہے، افلاطون کی قرن ہا قرن سے علم کی جوت جگائے رکھنے والی کتاب ’ریاست‘ کا، اہل علم جسے ’تحقیق عدل‘کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر اُس وقت اکیڈیمیا (Akademeia) کے کھنڈرات پر کھڑے تھے، ڈاکٹر صاحب میرے ہم عمر اور ہم عصر ہیں لیکن مطالعے اور ریاضت، ان دو نعمتوں نے انھیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ نگاہ اٹھا کر دیکھنا دشوار ہے، آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، لہٰذا ایسے مقامات پر جہاں پہنچ کر لوگ سیلفی بنانے کے لیے مناسب منظر کی تلاش میں ہلکان ہو جاتے ہیں، وہ پیچیدہ سوالات پر غور و فکر میں مصروف نظرآتے ہیں۔ عین اس وقت جب یونانی بے فکروں کا ایک بینڈ گاتا بجاتا، آغورا پہنچا اور افلاطون اور سقراط سے منسوب کھنڈرات پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالتا ہوا آگے بڑھ گیا، وہ سوچ رہے تھے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کسی کو سزائے موت سنادی جاتی ہے اور وہ پھندا چوم کر رسے سے لٹک جاتا ہے یس پھر زہرکو آب حیات سمجھ کرپیالہ غٹاغٹ چڑھا جاتا ہے۔ رہوار خیال یہاں تک پہنچا تو ایک سوچ کمک پر آئی کہ اس راہ میں فقط موت ہی تو نہیں آتی، جلاوطن بھی تو ہونا پڑتا ہے۔ آغورا اور اکیڈمیا کے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر ممکن ہے کہ سقراط کو موت کا پیالہ پیتے انھوں نے ایک بار پھر دیکھا ہو۔ اس منظر نے ڈاکٹر صاحب سقراط کے روبرو لا کھڑا کیا نیز افلاطون کے جس کے لیے اپنے استاد کی موت کے بعد اپنے وطن میں رہنا مشکل ہوا اوروہ ہجرت کر گیا۔ یوں معلوم ہوا کہ بہادری سے موت کو گلے لگا لینے سے زیادہ بڑی بہادری ایک اور ہے اور وہ بہادری ہے کہ اپنی جنم بھومی سے نکل کر پردیسی بن جانا۔ نیت نیک اور طلب سچی ہو تویہ دربدری روشنی کا سفر بن جاتی ہے جس کی برکت سے وہ کمزور سا دیاجس کی روشنی کوحاسد یا کم فہم ابنائے وطن برداشت نہیں کر پاتے، اس کی روشنی ملکوں ملکوں پھیل جاتی ہے جیسے سقراط دربدر ہوا تو جانے کن کن دیسوں کی خاک چھانتا ہوا اٹلی پہنچا، بادشاہ کا منظور نظر ہوا اور ایسی خدمات انجام دیں جن کی بدولت علم و حکمت کی نئی منزلیں سر ہوئیں، اٹلی نے ترقی کی اورخلق خدا کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ خیال کاسفر یہاں تک پہنچا تو راہ روکنے والے پہاڑ کی طرح ایک اور سوال ان کے سامنے آکھڑا ہوا اور انھوں نے سوچا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا کہ آزمائش ان ہی کی راہ کا پتھر بنتی ہے جو لوگ غیر معمولی خدمات انجام دیتے ہیں یاخلق خدا کی بہتری کے لیے کوئی کارنامہ انجام دیتے ہیں گویا ؎
دنیا میں جو اہل دل رہے ہیں
آزردہ وہ مستقل رہے ہیں
اس خیال نے انھیں غزالی کی یاد دلائی جن کے ہم عصروں نے اُن کا ناک میں دم کیے رکھا، غزالی کے ذکر سے وہ ابن رشد تک پہنچے جو اپنے حاسدوں کی کج ادائیوں کا نشانہ بنے، ابن رشد کی یاد انھیں فردوسی تک لے گئی جنھیں محمود کے درباریوں نے خوب پریشان کیا۔ ایتھنز کے کھنڈرات سے شروع ہونے والے سوچ کے اس سفر کا بنیادی سبق یہ ہے کہ انسان سقراط اور افلاطون کی طرح علم و ہنر کا جویا ہو، نوشیرواں عادل کی طرح تاج دار ہو اور مدبر ہو جیسے ہی وہ روایت سے ہٹ کر کوئی تخلیقی راستہ اختیار کرتا ہے یا خلق خدا کی بہتری اور اس کی خدمت کا بیڑا اٹھاتاہے، مشکلات اس کا مقدر ہوجاتی ہیں، سقراط اور افلاطون کے زمانے سے لے بعد کے زمانوں تک آوازہئ حق بلند کرنے والوں پر یہی کچھ بیتا ہے۔ اس آشوب میں کام کی بات یہ ہے کہ اگر یہ لوگ مایوس ہو جاتے تو یہ دنیا اتنی ترقی یافتہ اور روشن خیال ہرگز نہ ہوتی جتنی آج ہے۔ اس کی مثال افلاطون کے طرز عمل سے ملتی ہے کہ اس نے ایتھنز اور اٹلی والوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر دنیا سے منھ نہیں موڑا بلکہ ہجرت کاراستہ اختیار کیا، اس طرح علم کے چراغ سے چراغ جلتا چلا گیا اور دنیا علم کے نور سے منور ہوتی چلی گئی۔
اس دنیا کا ایک مسئلہ یہ ہے جس کا ابھی ذکرہواہے، ایک مسئلہ اس سے بھی کچھ زیادہ گمبھیر ہے۔ اہل دل جب اپنے قرب و جوار پر نگاہ پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اہل وطن میں اپن دیس سے وابستگی کچھ واجبی سی ہی ہے، ثبوت اس کا تب ملتا ہے جب کبھی کوئی ناراض گروہ غضب ناک ہو کر سڑکوں پر نکلتا ہے تو کسی تاتاری لشکر کی طرح ہر چیز، خواہ سرکاری ہو یا نجی، تباہ و برباد کرتا چلا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ جوع الارض کا بھی ہے، یوں محسوس ہوتا کہ ہمارے ارد گرد خواہ وہ کوئی طاقت ور ہے یا کمزور جس قدر اس کا بس چلتا ہے، سرکاری ہو یا نجی زمین، اس پر قبضہ جما لیتا ہے۔ ایسا لگتا کہ ہمارے ہاں قومی ملکیت اور اس کے تحفظ کااحساس ہی ختم ہو گیا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ افلاطون کے سامنے بھی سب سے بڑا سوال یہی تھا اور وہ سوچتا تھا کہ ایک فرد معاشرے کااچھا رکن کس طرح بن سکتا ہے۔ اس کی تمام تر فکر اسی سوال کے گرد گھومتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ فرد کی اجتماعی حیثیت کا شعور اجاگر ہو جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ضبط نفس پیدا ہو جاتا ہے، کسی معاشرے میں ضبط نفس کی نعمت کیسے پیدا ہوتی ہے، اس کے نزدیک یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ اچھا آدمی پیدا کرے گویا پہلے خود اپنے اندر ضبط نفس پیدا کرے۔ یہاں تک پڑھ کر میں نے یہ سوچا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ افلاطون نے یہ سارا چکر چلایا ہی ہمارے لیے ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں ’سقراط کا دیس‘نامی کتاب پڑھنی پڑے گی جو ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے دورہ یونان کے بعد حال میں ہی سپرد قلم کی اور القلم نے اسے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔