کراچی میں بحریہ ٹاؤن پر ایک مخصوص گروہ کا حملہ اور اس پر صوبائی حکومت و دیگر اداروں کا خاموش تماشائی بننے کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ قومی الیکٹرونک میڈیا کا اتنی بڑی خبر کا بلیک آؤٹ کرنا بھی سوالیہ نشان پیدا کررہاہے۔
عموماً ہمارا میڈیا بحریہ ٹاؤن کے بارے میں کسی بھی منفی خبر شائع کرنے سے احتراز کرتا ہے اس کی واضح وجہ انکے ظاہری و خفیہ مالی مفادات ہوتے ہیں۔میڈیا کی دوکان اشتہارات کے بل پر چلتی ہے اور بحریہ ٹاؤن ملک کا سے سب بڑا مشتہر ہونے کی وجہ سے کسی بھی ادارے کا گلا گھونٹتے کے قابل ہے۔اس کے علاوہ مختلف سیاسی و صحافتی شخصیات پر ملک ریاض کے مالی “احسانات” بھی سینہ گزٹ کا حصہ ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل ہونے والا حملہ بحریہ ٹاؤن کو اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع فراہم کرکے بعض دوسرے معاملات پر بڑھتے ہوئے دباؤ سے نکلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس صورت میں وہ کیوں اس اسٹوری کو kill کرنا یا دبانا چاہیں گے؟
یادرہے سانحہ مشرقی پاکستان کی بنیاد ویسے تو بنگلہ زبان و قومیت کے پر چارک پہلے ہی رکھ چُکے تھے لیکن کی 1965ء جنگ کے دوران مشرقی پاکستان (نام نہاد مشرق کا دفاع مغرب سے کے تصور کے تحت )کو بڑی حدتک کمزور دفاعی حالت میں چھوڑ دیا کیا تھا بھی سانحہ مشرقی پاکستان کی ایک وجہ تھی۔
دوقومی نظر یہ بھی اسی طرح پروان چڑہا تھا۔۔ پہلے ہندو مسلم مذہبی فسادات پھر ساتھ رہنا ناممکن ہے کا نعرہ ۔۔۔کل کے واقعے نے کراچی کو لاچار چھوڑ کرایک حدتک اسی قسم کے احساس کو اُجاگر کرنے کی کوشش تو نہیں ہورہی؟
کیا الگ ملک تو نہیں لیکن کراچی کو مرکزی یا صوبہ بنانے کے لئے میدان تیار کیا جارہا ہے؟؟ شاید اسی لئے “ادارے” بھی اس قسم کے لسانی نفرت کے واقعات پر بند باندھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
جہاں تک “اداروں” کا مسئلہ ہے “بظاہر” قانون کے مطابق حرکت میں آنے کے لئے سندھ کی صوبائی حکومت کی ہدایات کے محتاج ہیں۔ (لیکن جب انہیں کچھ کرنا ہوتا ہے تو کوئی قائیدہ و قانون انہیں روک بھی نہیں سکتا)۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔
مکمل طور پر لسانیت میں گردن تک لتھڑی ہوئی سندھ حکومت کو رینجرز یا پولیس کے ذریعے مزاحمت کا خمیازہ اپنے “ہوم گراؤنڈ” میں منفی ردعمل کی صورت میں بھگتنا پڑسکتا ہے، اس لئے اس معاملے خاموش تماشائی رہنا ان کی سیاسی ضرورت بھی ہو سکتی ہے۔
کیونکہ کراچی میں سوائے چند پاکٹس کے وہ بڑی حدتک فارغ ہیں۔ اندرون سندھ ہی کی سیٹیں انکے سندھ میں اقتدار کی ضامن ہوتی ہیں، کیا وہ وہاں پر غیرمقبولیت کا خطرہ مول لے سکتے ہیں؟
گذشتہ 30سالوں کے دوران شھر کراچی کی گلیوں میں اتنا خون بہا ہے کہ لوگ انسانی جان کی حُرمت و حساسیت ہی بھول گئے تھے روزانہ کی انسانی اموات کا تذکرہ کرکٹ کے اسکور کارڈ کی طرح ہونے لگا تھا۔اس میں وہ مقدس ترین ادارے و سیاسی حکومتیں دونوں بھی حسب مصلحت خاموش تماشائی کے ساتھ حسب ضرورت پشت پناہ بھی تھے۔
دیر سے سہی جب سر سے پانی گذر چکا تو ایوان عدل اور نہ جانے کون کون خواب غفلت سے بیدار ہوا ، یہ الگ بات ہے انہیں بیدار کرنے کے لئے انہی کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے ایک “پتھر کے صنم” کو لندن سے تقریر کرنی پڑی۔
اب وہ کل کے چنگیز جو ایک اشارے پر شھر میں کشتوں کے پشتے لگو دیتے تھے، آج لندن و نہ جانے کہاں کہاں بلوں بیٹھ کر اپنی معصومیت کی قسمیں کھا رہے ہیں۔
دنیا میں تو انصاف ملتا ہوگا، پر ہمارے ہاں انصاف کے نام پر بھی گیہوں کو نکال کر گھُن ہی پیسا جاتا ہے،
اس شھر کی سڑکیں و گلیاں ٹوٹی پھوٹی، پانی ، بجلی ، تعلیم سے لیکر ٹرنسپورٹ وصحت کا فقدان ،امن و امان کی بات ہی چھوڑدیں ۔ اس شھر کے باسیوں کے لئے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند۔۔ کھیل کے میدان سے لیکر خالی جگہیں ، جہاں بھی تھیں اور جیسی بھی تھیں قبضہ مافیا اور چائنا کٹنگ کے ہاتھوں ۔۔ قصہ ماضی بن چکے ہیں۔
بجائے شھر کو اس مقام پر لانے کے بڑے مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کے، غیرقانونی زمینوں پر قبضہ کرنے والے تو اُڑن چھُو ہوگئے غریب عوام جو اپنی جہالت و لاعلمی کی بناء پر اس پھندے میں پھنس گئے کو انصاف کے نام پر اپنی خون پسینے سے خرید کردہ مکانوں سے محروم کیا جارہا ہے۔
حالیہ بحریہ ٹاؤن کے واقعے میں بھی یہی ہونا ہے، کہ اگرکوئئ غلط کاری ہوئی بھی ہے تو اصل مجرم اور انکے سھولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے بجائے بے گناہ و معصوم انوسٹرز جنہوں نے اپنی زندگی پھر کی جمع پونجی داؤ پر لگادی ہے ہی روئیں گے۔
بحریہ ٹاؤن کا سانحہ ۔۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ کراچی کو کم از کم سندھ سے الگ کرنے لیے میدان تیار کیا جارہا ہے لیکن موجودہ سندھ کی حکومت کا اس میں کیا کردار ہے؟
کیا وہ اس سونے کے چڑیا کو ہاتھ سے جانے دیں گے؟؟ بظاہر ناقابل یقین ہے۔یہ شھر ۔۔ گذشتہ پچاس سالوں سے متعصب نسل پرستوں ، چاہے “اپنے “ ہوں یا وہ “فرزندان زمین “ جنکی نہ یہاں قبریں ہیں اور نہ جائے پیدائش نہ ہی انکئ نسلوں نے پہلے کراچی دیکھا ہو گا کے ہاتھوں یرغمال ہو کر سسک رہا ہے۔
1965میں سنگاپور کو فیڈریشن آف ملایا سے لات مار کر نکالنے کے بنیادی وجہ برابری کے حقوق کی مہم تھی۔۔ جسکی وجہ سے اقلیت النسل اکثریت کے حامل سنگاپور کو لات مار کر ملائشیا سے نکال دیا گیا تھا۔تاکہ باقی ماندہ ملائشیا میں نسلی توازن “درست” کیا جاسکے۔ شاید یہی ہم نے بدترین طریقے سے مشرقی پاکستان میں کیا ۔
اگر کراچی کی مردم شماری ہی کودیکھ لیا جائے تو سندھ کی اسمبلی میں کراچی کی نشتوں میں متوقع اضافہ ہی سندھ کی سیاست کو تلپٹ کر سکتا ہے۔اس صورت میں ایسا وقت بھی آسکتا ہے سندھی وڈیرہ شاہی سندھ میں اپنے اقتدار اور بالا دستی کو قائم رکھنے کے لئے خود کراچی کو سندھ سے لات مار کر نکالنے کی بات کرے ۔
اب اگر کراچی کے عوام اور سیاسی جماعتوں نے منصفانہ مردم شماری کے لئے دباؤ بڑہایا اور نہی مردم شماری کی صورت میں سندھ کئ شہری نمائندگی چالیس فیصد سے بڑھ گئی اور وڈیرہ شاہی کے لئے پورے سندھ پر اپنا اقتدار باقی رکھنا مشکل ہو گا۔ اس صورت میں یہ نسل پرست اشرافیہ پوری روٹی کی بجائے آدھی روٹی پر راضی ہو کر ادھر ہم اُدھر تم پر راضی ہو جائے گی۔
ن لیگ نے کراچی کو اپنے حکومتی ادوار میں بھی اس کے حال پر چھوڑا ہوا تھا یقیناً اب حالات کام کرنے کے لئے آسان ہیں لیکن تب بھی سوائے جماعت اسلامی کے کوئی بھی کراچی پر فوکس نہیں کررئا۔
کیا کراچی کے بیس پچیس نشستیں ن لیگ کے لئے اہم نہیں ہیں(جوکہ نئی مردم شماری کی صورت میں دوگنی ہو سکتی ہیں)؟؟ یا وہ ذہنی طور پر کراچی اور سندھ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔کراچی ابھی بھی خالی ہے اگر محنت کرنا چاہیں تو۔۔۔ لیکن کراچی والوں کو اپنانا پڑے گا۔
پہلے جماعت اسلامی نے غلطی کی اب درست کرنے کے کوشش کررہی ہے۔ یہی غلطی ن لیگ نے کی ہے اور مسلسل کررہی ہے۔
جماعت اسلامی کی تمام تر کوششوں کے باوجود نسبتا چھوٹی جماعت کی محدودات ہیں اور رہیں گی۔ کراچی کے پی ٹی آئی سے مایوسی ۔۔ اور بظاہر اگلے کسی بھی انتخاب میں مسلم لیک کی government In waiting کے تاثر کو لیکر ن بہت کچھ کرسکتی ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ ن لیگ اور جماعت اسلامی ماضی کو بھول کر اس شھر ناپرساں کے مفاد میں مشترکہ پلیٹ فارم پر آکر کراچی کی مردم شماری سے لیکر دیگر شھری مسائل پر یکساں پوزیشن لیں؟
جماعت اسلامی کا کراچی میں گراؤنڈ ورک اور ن لیگ کی مرکزی پوزیشن دونوں کے لئے فائیدہ مند ثابت ہو سکتی ہے (بشرطیہ کراچی کی حدتک انتخابی تعاون بھی شامل ہو)۔
کیا یہ بہتر وقت نہیں ہے کہ کراچی کو مکمل طور پر اون کردیں؟ زیادہ سے زیادہ “وہ” ناراض ہی ہوں گے۔۔۔ تو پہلے کون سے خوش ہیں۔درحقیقت ن لیگ کے لئے وِن وِن صورتحال ہے۔
عوام کی نبض پر ہاتھ رکھیں۔۔جماعت اسلامی کے ساتھ مل کرباقایدہ جارحانہ مہم بنائیں ۔۔۔ یقیناً اندرون سندھ کچھ نقصان ہو گا۔کراچی سے کامیابی کی صورت میں اس سے زیادہ دے دیگا۔۔ اسوقت سوائے مہاجر تنظیموں یا جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی کراچی کی بات نہیں کررہا ہے۔ ن لیگ کے کراچی کے علمبردار ہونے سے کراچی کو قومی دہارے میں لانے کا سبب بنے گا۔
اسوقت کراچی میں بلند آہنگ مہم چلانے کئ ضرورت ہے جس میں عوام تمام دکھتی رکوں بشمول کوٹہ، ملازمتیں ، مردم شماری ، تعلیم کو آگے لیکر چلیں ۔۔اگر فوری انتخابات نہیں بھی ہوتے تو سال دیڑھ سال کا عرصہ زمین ہموار کرنے کے لئے کافی ہوگا۔