روزنامہ خبریں کے بانی ضیاشاہد اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان کی حمایت میں چند اور مخالفت میں بہت پوسٹ نظر سے گذررہی ہیں ۔ قطع نظران کے چند لائن اپنی یاداشتوں سے ضبط تحریر میں لانا چاہتا ہوں۔
ضیاشاہد روزنامہ جنگ لاہور میں میگزین ایڈیٹر رہے ، جب میر شکیل الرحمان صاحب نے لاہور سے جنگ نکالنے کا فیصلہ کیا تو کراچی سے میرے والد مختارمحمود کو ساتھ لیکر گئے تھےکیونکہ وہ لاہور کی صحافتی مارکیٹ کوبخوبی جانتے تھے ۔ میرے والد 1987 تک لاہور میں مقیم رہے ، اس زمانے میں سٹوڈنٹ تھا جب کراچی سے لاہور گیا تو جنگ آفس میں ضیاشاہد سے بھی ملاقات ہوئی ، وہ میرے والد کے کولیگ تھے۔
دوسری ملاقات 1999جیکسن ہائٹس کوئننز نیویارک کے پاکستانی ریسٹورنٹ ڈیرہ میں ہوئی جہاں ان کی پاکستانی کمیونٹی کے چیدہ چیدہ لوگوں سے ملاقات تھی، اس زمانے میں ویکلی عوام کا ایڈیٹر تھا ۔ضیا شاہد نیویارک سے خبریں کا اجراکرنا چاہتے تھے ، مجھ سے دریافت کیا کہ کامیابی کے امکانات کیا ہیں تو میں نے ان کے خیال کی مخالفت کی کیونکہ امریکا ایک بہت بڑا ملک ہے اورکمیونٹی بکھری ہوئی ہے مثلن صرف ایک ٹیکساس ریاست کاسائز پورے پاکستان کے برابر ہے ۔ دوسرے امریکا کی مارکیٹ کاانگلینڈ سے تقابل بھی درست نہیں کیونکہ انگلینڈ ایک چھوٹا ساملک ہے شاید صوبہ سندھ کے برابر ، دوسرے یہ کہ پاکستانی کمیونٹی کی بڑی تعداد لندن ، بریڈ فورڈ ، مانچسٹر اور دیگر شہروں میں موجود ہے جبکہ امریکا میں دس لاکھ پاکستانی ہیں اور یہ ملک اتنا بڑا ہے کہ اس میں پانچ ٹائم زون آتے ہیں ۔
ضیاشاہد نے میری بات کو توجہ سے سنا اور پھر کچھ باتیں پرنٹنگ پریس اور دیگر اشوز پر بھی ہوئیں۔ ضیاشاہد مجھے ذہین شخص لگے ، بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے اور جوابی سوالات کرتے۔ باقی ان کی ذاتی زندگی بارے لکھنا مناسب نہیں لیکن ان کے ناقدین صحافت کے بعض منفی ہتھ کنڈوں کو جدت دینے کا الزام انھی کو دیتے ہیں۔ وہ اگرچہ خود پنجابی تھے لیکن خبریں اخبار کو پاپولر کرنے کےلئے سرائیکی اشوکو سپورٹ کرتے رہے چنانچہ خبریں ملتان سب سے بڑا اخبارتھا اور وہی باقی شہروں کے خبریں ایڈیشن بھی پال رہاتھا، لطف کی بات یہ کہ ضیاشاہد خود کو پنجابی نیشنلسٹ بھی کہتے تھے لیکن ملتان میں ان کا روزنامہ سرائیکی تحریک کے ترجمان کی حیثیت رکھتا تھا۔ رب مغفرت کرے۔