Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔۔۔آج احفاظ بھائی کی پہلی برسی ہے لیکن میں اسے برسی نہیں کہوں گا یہ یوم احفاظ ہے ۔ ایک ایسے شخص کی یادیں تازہ کرنے کا دن جو صحافی تھا جنگجو تھا اور لیڈر تھا،۔ بطور صحافی اس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اس وقت بھی نہیں جب بہت سے کہہ رہے تھے کہ اس بار تو احفاظ پھنس گیا ۔۔۔۔بہت سے لوگوں کے وہ دوست ہوں گے لیکن میرے تو بھائی تھے ۔ مساوات میں تیسرے چوتھے دن خود ہی آواز دے کر بلایا تھا ” کیوں مولوی صاحب کہاں ڈنڈے بجاتے گھومتے رہتے ہو ”
میں ہنس پڑا کہا ” بھائی میرے نام میں مولوی نہیں آتا ”
صرف ایک سیکنڈ کے لئے اوپر سے نیچے دیکھا اور پھر اپنے بہترین انداز میں ہنس پڑے
احفاظ بھائی کی ہنسی کئی قسم کی ہے( تھی) ایک کا مطلب تھا آپ بے وقوف ہیں۔ دوسری کے معنی تھے ” آگے جاو نالائق ہو ” تیسری کا مطلب تھا ” آپ لکھتے کیوں ہیں ” چوتھی ” میں مارشل لا سے نہیں ڈرتا ” اور سب سے دلکش ہنسی تھی جب وہ مہ ناز کو بطور میگزین ایڈیٹر ڈانٹنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔
پورا جائزہ لیتے ہوئے بولے ” دیکھا مہ ناز میں نہ کہتا تھا کہ چال ڈھال سے چلتا پرزہ ہے ” پھر دل کھول کر خوب ہنسے۔۔۔سامنے بٹھایا ۔۔۔چنا چاٹ منگوائی ۔۔انٹرویو کیا اور طے پایا کہ میں نوجوانوں کے صفحے کے لئے جامعہ کراچی کی ڈائری( درویش کی ڈائری ۔ اس میں چار درویش تھے ) اور میگزین کے لئے فیچر۔.لکھوں ۔۔۔میں نے کہا مجھے تو خبر بھی بنانی نہیں آتی ۔۔۔۔کہنے لگے ۔۔۔۔” کس کو آتی ہے۔۔۔تم دونوں کام شروع کرو جب میگزین کے لئے موضوع تیار ہوجائے تو بتادینا کیمرہ مین جا کر تصویریں بنا لے گا ”
یہ ہیں احفاظ الرحمن۔۔۔۔اور دوسری طرف یہ تصویر ہے۔۔۔سڑک پر پولیس والے ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں یہ پریس کلب کی سڑک ہے۔۔۔۔یہ محترم جگہ ہے ۔۔۔یہ آزادی کی شارع ہے۔۔احفاظ بھائی نے صحافت اور صحافیوں کے لیے کئی جنگیں لڑیں ضیا کے مارشل سے مشرف تک ۔ یہ تصویر بھی مشرف دور کی ہے جب جنرل نے الکٹرانک میڈیا پر شب خون مارا تھا ۔۔۔مجھے یاد ہے کہ جب درجنوں صحافی لاک اپ میں گئے تو ایس ایچ او نے فورا چائے بسکٹ کا حکم دیا لیکن احفاظ الرحمن کی گرج دار آواز نے روک دیا ” ہرگز نہیں۔۔۔ہم ظالموں سے لے کر نہیں کھاتے ” اسی دوران ہم دس گیارہ گاڑیوں میں بھر کر پہنچ گئے ۔۔۔۔قیدی اور ہم نیم قیدی سب ساتھ چائے پینے لگے ۔۔۔تب ہی احفاظ الرحمن کی آواز پھر آئی ۔۔۔۔ارے نصیر احمد بھی بہت پٹا ہے اس کو تو دیکھو۔۔۔۔”
پٹے سب تھے مگر ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی بات کررہے تھے ۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر دنیا میں احفاظ الرحمن جیسے لوگ نہ ہوتے تو دنیا کتنی غریب ہوتی ۔ میں جنگ کی ایڈیٹوریل کمیٹی کا پہلا چئیرمین بنا تو احفاظ بھائی رکن تھے ۔ میں نے صدارت کرنے سے انکار کردیا۔۔۔۔میر شکیل الرحمٰن تک بات گئی تو انہوں نے انتظامیہ سے کہا کہ مداخلت بالکل نہ کرنا یہ خود مسلہ حل کر لیں گے ۔ اگلے روز احفاظ بھائی میٹنگ کے وقت 4 بجے میرے ” کمپاؤنڈ ” میں آگئے ۔۔۔ایسا کم ہوتا تھا وہ دوسری بلڈنگ میں ہوتے تھے۔۔۔۔وہ سیدھا کانفرنس روم ( لائبریری ) جاسکتے تھے۔۔۔۔
وہ مجھے دیر تک سمجھانے رہے ۔۔۔اس بار ڈانٹنے کا نہیں ” مشاورت ” کا انداز تھا۔۔۔۔نصف گھنٹے بعد میں مجبورا تیار ہوگیا۔۔۔۔ان کے دلائل بہت ٹھوس تھے
مجھے یاد ہے کہ جب میرا ناول سلگتے چنار آیا تو مہ ناز بھابی نے انہیں دیا ۔۔۔بہت پیار سے پڑھا۔ بہت بیمار تھے بار بار آئی سی یو جاتے تھے ۔ ٹھیک ہوکر پھر پڑھنا شروع کردیتے تھے ۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے مجھے خط لکھا۔۔۔۔۔” منے تم بڑے ہوگئے ہو اتنا بڑا ناول لکھ دیا۔ ”
پھر ان کا جملہ ۔۔۔۔” میں تمہیں درخت کی اوٹ سے چھپ چھپ کر دیکھوں گا ”
یہ خط مجھے اشکبار کرگیا۔۔۔۔۔۔اب کرونا تھا ۔۔ہر طرف اور ڈاکٹرز نے ان سے ملنے پر پابندی لگا دی تھی۔۔۔۔۔شاید یہ آخری تحریر تھی۔۔۔۔جو انہوں نے لکھی ۔۔۔سلگتے چنار آخری کتاب تھی جو انہوں نے پڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سب یاد ہے یہ بھی صرف ایک پیرا لکھا ہے
احفاظ الرحمن کا خط بنام این بی سی بھی پھر پوسٹ کررہا ہوں۔۔۔۔۔
احفاظ بھائی مجھے پتہ ہے آپ جہاں ہیں وہاں باغ ہونگے چمن زار اور گلستاں ہونگے۔۔۔تتلیاں ہونگی رنگ ہونگے خوشبو ہوگی اور ظلم نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔خوش رہیں۔ دوسری کتاب شروع کررہا ہوں لیکن سلگتے چنار کے برعکس آپ سے مشورہ نہیں کرسکوں گا
آپ کا منا ۔
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔۔۔آج احفاظ بھائی کی پہلی برسی ہے لیکن میں اسے برسی نہیں کہوں گا یہ یوم احفاظ ہے ۔ ایک ایسے شخص کی یادیں تازہ کرنے کا دن جو صحافی تھا جنگجو تھا اور لیڈر تھا،۔ بطور صحافی اس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اس وقت بھی نہیں جب بہت سے کہہ رہے تھے کہ اس بار تو احفاظ پھنس گیا ۔۔۔۔بہت سے لوگوں کے وہ دوست ہوں گے لیکن میرے تو بھائی تھے ۔ مساوات میں تیسرے چوتھے دن خود ہی آواز دے کر بلایا تھا ” کیوں مولوی صاحب کہاں ڈنڈے بجاتے گھومتے رہتے ہو ”
میں ہنس پڑا کہا ” بھائی میرے نام میں مولوی نہیں آتا ”
صرف ایک سیکنڈ کے لئے اوپر سے نیچے دیکھا اور پھر اپنے بہترین انداز میں ہنس پڑے
احفاظ بھائی کی ہنسی کئی قسم کی ہے( تھی) ایک کا مطلب تھا آپ بے وقوف ہیں۔ دوسری کے معنی تھے ” آگے جاو نالائق ہو ” تیسری کا مطلب تھا ” آپ لکھتے کیوں ہیں ” چوتھی ” میں مارشل لا سے نہیں ڈرتا ” اور سب سے دلکش ہنسی تھی جب وہ مہ ناز کو بطور میگزین ایڈیٹر ڈانٹنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔
پورا جائزہ لیتے ہوئے بولے ” دیکھا مہ ناز میں نہ کہتا تھا کہ چال ڈھال سے چلتا پرزہ ہے ” پھر دل کھول کر خوب ہنسے۔۔۔سامنے بٹھایا ۔۔۔چنا چاٹ منگوائی ۔۔انٹرویو کیا اور طے پایا کہ میں نوجوانوں کے صفحے کے لئے جامعہ کراچی کی ڈائری( درویش کی ڈائری ۔ اس میں چار درویش تھے ) اور میگزین کے لئے فیچر۔.لکھوں ۔۔۔میں نے کہا مجھے تو خبر بھی بنانی نہیں آتی ۔۔۔۔کہنے لگے ۔۔۔۔” کس کو آتی ہے۔۔۔تم دونوں کام شروع کرو جب میگزین کے لئے موضوع تیار ہوجائے تو بتادینا کیمرہ مین جا کر تصویریں بنا لے گا ”
یہ ہیں احفاظ الرحمن۔۔۔۔اور دوسری طرف یہ تصویر ہے۔۔۔سڑک پر پولیس والے ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں یہ پریس کلب کی سڑک ہے۔۔۔۔یہ محترم جگہ ہے ۔۔۔یہ آزادی کی شارع ہے۔۔احفاظ بھائی نے صحافت اور صحافیوں کے لیے کئی جنگیں لڑیں ضیا کے مارشل سے مشرف تک ۔ یہ تصویر بھی مشرف دور کی ہے جب جنرل نے الکٹرانک میڈیا پر شب خون مارا تھا ۔۔۔مجھے یاد ہے کہ جب درجنوں صحافی لاک اپ میں گئے تو ایس ایچ او نے فورا چائے بسکٹ کا حکم دیا لیکن احفاظ الرحمن کی گرج دار آواز نے روک دیا ” ہرگز نہیں۔۔۔ہم ظالموں سے لے کر نہیں کھاتے ” اسی دوران ہم دس گیارہ گاڑیوں میں بھر کر پہنچ گئے ۔۔۔۔قیدی اور ہم نیم قیدی سب ساتھ چائے پینے لگے ۔۔۔تب ہی احفاظ الرحمن کی آواز پھر آئی ۔۔۔۔ارے نصیر احمد بھی بہت پٹا ہے اس کو تو دیکھو۔۔۔۔”
پٹے سب تھے مگر ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی بات کررہے تھے ۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر دنیا میں احفاظ الرحمن جیسے لوگ نہ ہوتے تو دنیا کتنی غریب ہوتی ۔ میں جنگ کی ایڈیٹوریل کمیٹی کا پہلا چئیرمین بنا تو احفاظ بھائی رکن تھے ۔ میں نے صدارت کرنے سے انکار کردیا۔۔۔۔میر شکیل الرحمٰن تک بات گئی تو انہوں نے انتظامیہ سے کہا کہ مداخلت بالکل نہ کرنا یہ خود مسلہ حل کر لیں گے ۔ اگلے روز احفاظ بھائی میٹنگ کے وقت 4 بجے میرے ” کمپاؤنڈ ” میں آگئے ۔۔۔ایسا کم ہوتا تھا وہ دوسری بلڈنگ میں ہوتے تھے۔۔۔۔وہ سیدھا کانفرنس روم ( لائبریری ) جاسکتے تھے۔۔۔۔
وہ مجھے دیر تک سمجھانے رہے ۔۔۔اس بار ڈانٹنے کا نہیں ” مشاورت ” کا انداز تھا۔۔۔۔نصف گھنٹے بعد میں مجبورا تیار ہوگیا۔۔۔۔ان کے دلائل بہت ٹھوس تھے
مجھے یاد ہے کہ جب میرا ناول سلگتے چنار آیا تو مہ ناز بھابی نے انہیں دیا ۔۔۔بہت پیار سے پڑھا۔ بہت بیمار تھے بار بار آئی سی یو جاتے تھے ۔ ٹھیک ہوکر پھر پڑھنا شروع کردیتے تھے ۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے مجھے خط لکھا۔۔۔۔۔” منے تم بڑے ہوگئے ہو اتنا بڑا ناول لکھ دیا۔ ”
پھر ان کا جملہ ۔۔۔۔” میں تمہیں درخت کی اوٹ سے چھپ چھپ کر دیکھوں گا ”
یہ خط مجھے اشکبار کرگیا۔۔۔۔۔۔اب کرونا تھا ۔۔ہر طرف اور ڈاکٹرز نے ان سے ملنے پر پابندی لگا دی تھی۔۔۔۔۔شاید یہ آخری تحریر تھی۔۔۔۔جو انہوں نے لکھی ۔۔۔سلگتے چنار آخری کتاب تھی جو انہوں نے پڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سب یاد ہے یہ بھی صرف ایک پیرا لکھا ہے
احفاظ الرحمن کا خط بنام این بی سی بھی پھر پوسٹ کررہا ہوں۔۔۔۔۔
احفاظ بھائی مجھے پتہ ہے آپ جہاں ہیں وہاں باغ ہونگے چمن زار اور گلستاں ہونگے۔۔۔تتلیاں ہونگی رنگ ہونگے خوشبو ہوگی اور ظلم نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔خوش رہیں۔ دوسری کتاب شروع کررہا ہوں لیکن سلگتے چنار کے برعکس آپ سے مشورہ نہیں کرسکوں گا
آپ کا منا ۔
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔۔۔آج احفاظ بھائی کی پہلی برسی ہے لیکن میں اسے برسی نہیں کہوں گا یہ یوم احفاظ ہے ۔ ایک ایسے شخص کی یادیں تازہ کرنے کا دن جو صحافی تھا جنگجو تھا اور لیڈر تھا،۔ بطور صحافی اس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اس وقت بھی نہیں جب بہت سے کہہ رہے تھے کہ اس بار تو احفاظ پھنس گیا ۔۔۔۔بہت سے لوگوں کے وہ دوست ہوں گے لیکن میرے تو بھائی تھے ۔ مساوات میں تیسرے چوتھے دن خود ہی آواز دے کر بلایا تھا ” کیوں مولوی صاحب کہاں ڈنڈے بجاتے گھومتے رہتے ہو ”
میں ہنس پڑا کہا ” بھائی میرے نام میں مولوی نہیں آتا ”
صرف ایک سیکنڈ کے لئے اوپر سے نیچے دیکھا اور پھر اپنے بہترین انداز میں ہنس پڑے
احفاظ بھائی کی ہنسی کئی قسم کی ہے( تھی) ایک کا مطلب تھا آپ بے وقوف ہیں۔ دوسری کے معنی تھے ” آگے جاو نالائق ہو ” تیسری کا مطلب تھا ” آپ لکھتے کیوں ہیں ” چوتھی ” میں مارشل لا سے نہیں ڈرتا ” اور سب سے دلکش ہنسی تھی جب وہ مہ ناز کو بطور میگزین ایڈیٹر ڈانٹنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔
پورا جائزہ لیتے ہوئے بولے ” دیکھا مہ ناز میں نہ کہتا تھا کہ چال ڈھال سے چلتا پرزہ ہے ” پھر دل کھول کر خوب ہنسے۔۔۔سامنے بٹھایا ۔۔۔چنا چاٹ منگوائی ۔۔انٹرویو کیا اور طے پایا کہ میں نوجوانوں کے صفحے کے لئے جامعہ کراچی کی ڈائری( درویش کی ڈائری ۔ اس میں چار درویش تھے ) اور میگزین کے لئے فیچر۔.لکھوں ۔۔۔میں نے کہا مجھے تو خبر بھی بنانی نہیں آتی ۔۔۔۔کہنے لگے ۔۔۔۔” کس کو آتی ہے۔۔۔تم دونوں کام شروع کرو جب میگزین کے لئے موضوع تیار ہوجائے تو بتادینا کیمرہ مین جا کر تصویریں بنا لے گا ”
یہ ہیں احفاظ الرحمن۔۔۔۔اور دوسری طرف یہ تصویر ہے۔۔۔سڑک پر پولیس والے ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں یہ پریس کلب کی سڑک ہے۔۔۔۔یہ محترم جگہ ہے ۔۔۔یہ آزادی کی شارع ہے۔۔احفاظ بھائی نے صحافت اور صحافیوں کے لیے کئی جنگیں لڑیں ضیا کے مارشل سے مشرف تک ۔ یہ تصویر بھی مشرف دور کی ہے جب جنرل نے الکٹرانک میڈیا پر شب خون مارا تھا ۔۔۔مجھے یاد ہے کہ جب درجنوں صحافی لاک اپ میں گئے تو ایس ایچ او نے فورا چائے بسکٹ کا حکم دیا لیکن احفاظ الرحمن کی گرج دار آواز نے روک دیا ” ہرگز نہیں۔۔۔ہم ظالموں سے لے کر نہیں کھاتے ” اسی دوران ہم دس گیارہ گاڑیوں میں بھر کر پہنچ گئے ۔۔۔۔قیدی اور ہم نیم قیدی سب ساتھ چائے پینے لگے ۔۔۔تب ہی احفاظ الرحمن کی آواز پھر آئی ۔۔۔۔ارے نصیر احمد بھی بہت پٹا ہے اس کو تو دیکھو۔۔۔۔”
پٹے سب تھے مگر ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی بات کررہے تھے ۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر دنیا میں احفاظ الرحمن جیسے لوگ نہ ہوتے تو دنیا کتنی غریب ہوتی ۔ میں جنگ کی ایڈیٹوریل کمیٹی کا پہلا چئیرمین بنا تو احفاظ بھائی رکن تھے ۔ میں نے صدارت کرنے سے انکار کردیا۔۔۔۔میر شکیل الرحمٰن تک بات گئی تو انہوں نے انتظامیہ سے کہا کہ مداخلت بالکل نہ کرنا یہ خود مسلہ حل کر لیں گے ۔ اگلے روز احفاظ بھائی میٹنگ کے وقت 4 بجے میرے ” کمپاؤنڈ ” میں آگئے ۔۔۔ایسا کم ہوتا تھا وہ دوسری بلڈنگ میں ہوتے تھے۔۔۔۔وہ سیدھا کانفرنس روم ( لائبریری ) جاسکتے تھے۔۔۔۔
وہ مجھے دیر تک سمجھانے رہے ۔۔۔اس بار ڈانٹنے کا نہیں ” مشاورت ” کا انداز تھا۔۔۔۔نصف گھنٹے بعد میں مجبورا تیار ہوگیا۔۔۔۔ان کے دلائل بہت ٹھوس تھے
مجھے یاد ہے کہ جب میرا ناول سلگتے چنار آیا تو مہ ناز بھابی نے انہیں دیا ۔۔۔بہت پیار سے پڑھا۔ بہت بیمار تھے بار بار آئی سی یو جاتے تھے ۔ ٹھیک ہوکر پھر پڑھنا شروع کردیتے تھے ۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے مجھے خط لکھا۔۔۔۔۔” منے تم بڑے ہوگئے ہو اتنا بڑا ناول لکھ دیا۔ ”
پھر ان کا جملہ ۔۔۔۔” میں تمہیں درخت کی اوٹ سے چھپ چھپ کر دیکھوں گا ”
یہ خط مجھے اشکبار کرگیا۔۔۔۔۔۔اب کرونا تھا ۔۔ہر طرف اور ڈاکٹرز نے ان سے ملنے پر پابندی لگا دی تھی۔۔۔۔۔شاید یہ آخری تحریر تھی۔۔۔۔جو انہوں نے لکھی ۔۔۔سلگتے چنار آخری کتاب تھی جو انہوں نے پڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سب یاد ہے یہ بھی صرف ایک پیرا لکھا ہے
احفاظ الرحمن کا خط بنام این بی سی بھی پھر پوسٹ کررہا ہوں۔۔۔۔۔
احفاظ بھائی مجھے پتہ ہے آپ جہاں ہیں وہاں باغ ہونگے چمن زار اور گلستاں ہونگے۔۔۔تتلیاں ہونگی رنگ ہونگے خوشبو ہوگی اور ظلم نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔خوش رہیں۔ دوسری کتاب شروع کررہا ہوں لیکن سلگتے چنار کے برعکس آپ سے مشورہ نہیں کرسکوں گا
آپ کا منا ۔
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔۔۔آج احفاظ بھائی کی پہلی برسی ہے لیکن میں اسے برسی نہیں کہوں گا یہ یوم احفاظ ہے ۔ ایک ایسے شخص کی یادیں تازہ کرنے کا دن جو صحافی تھا جنگجو تھا اور لیڈر تھا،۔ بطور صحافی اس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اس وقت بھی نہیں جب بہت سے کہہ رہے تھے کہ اس بار تو احفاظ پھنس گیا ۔۔۔۔بہت سے لوگوں کے وہ دوست ہوں گے لیکن میرے تو بھائی تھے ۔ مساوات میں تیسرے چوتھے دن خود ہی آواز دے کر بلایا تھا ” کیوں مولوی صاحب کہاں ڈنڈے بجاتے گھومتے رہتے ہو ”
میں ہنس پڑا کہا ” بھائی میرے نام میں مولوی نہیں آتا ”
صرف ایک سیکنڈ کے لئے اوپر سے نیچے دیکھا اور پھر اپنے بہترین انداز میں ہنس پڑے
احفاظ بھائی کی ہنسی کئی قسم کی ہے( تھی) ایک کا مطلب تھا آپ بے وقوف ہیں۔ دوسری کے معنی تھے ” آگے جاو نالائق ہو ” تیسری کا مطلب تھا ” آپ لکھتے کیوں ہیں ” چوتھی ” میں مارشل لا سے نہیں ڈرتا ” اور سب سے دلکش ہنسی تھی جب وہ مہ ناز کو بطور میگزین ایڈیٹر ڈانٹنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔
پورا جائزہ لیتے ہوئے بولے ” دیکھا مہ ناز میں نہ کہتا تھا کہ چال ڈھال سے چلتا پرزہ ہے ” پھر دل کھول کر خوب ہنسے۔۔۔سامنے بٹھایا ۔۔۔چنا چاٹ منگوائی ۔۔انٹرویو کیا اور طے پایا کہ میں نوجوانوں کے صفحے کے لئے جامعہ کراچی کی ڈائری( درویش کی ڈائری ۔ اس میں چار درویش تھے ) اور میگزین کے لئے فیچر۔.لکھوں ۔۔۔میں نے کہا مجھے تو خبر بھی بنانی نہیں آتی ۔۔۔۔کہنے لگے ۔۔۔۔” کس کو آتی ہے۔۔۔تم دونوں کام شروع کرو جب میگزین کے لئے موضوع تیار ہوجائے تو بتادینا کیمرہ مین جا کر تصویریں بنا لے گا ”
یہ ہیں احفاظ الرحمن۔۔۔۔اور دوسری طرف یہ تصویر ہے۔۔۔سڑک پر پولیس والے ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں یہ پریس کلب کی سڑک ہے۔۔۔۔یہ محترم جگہ ہے ۔۔۔یہ آزادی کی شارع ہے۔۔احفاظ بھائی نے صحافت اور صحافیوں کے لیے کئی جنگیں لڑیں ضیا کے مارشل سے مشرف تک ۔ یہ تصویر بھی مشرف دور کی ہے جب جنرل نے الکٹرانک میڈیا پر شب خون مارا تھا ۔۔۔مجھے یاد ہے کہ جب درجنوں صحافی لاک اپ میں گئے تو ایس ایچ او نے فورا چائے بسکٹ کا حکم دیا لیکن احفاظ الرحمن کی گرج دار آواز نے روک دیا ” ہرگز نہیں۔۔۔ہم ظالموں سے لے کر نہیں کھاتے ” اسی دوران ہم دس گیارہ گاڑیوں میں بھر کر پہنچ گئے ۔۔۔۔قیدی اور ہم نیم قیدی سب ساتھ چائے پینے لگے ۔۔۔تب ہی احفاظ الرحمن کی آواز پھر آئی ۔۔۔۔ارے نصیر احمد بھی بہت پٹا ہے اس کو تو دیکھو۔۔۔۔”
پٹے سب تھے مگر ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی بات کررہے تھے ۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر دنیا میں احفاظ الرحمن جیسے لوگ نہ ہوتے تو دنیا کتنی غریب ہوتی ۔ میں جنگ کی ایڈیٹوریل کمیٹی کا پہلا چئیرمین بنا تو احفاظ بھائی رکن تھے ۔ میں نے صدارت کرنے سے انکار کردیا۔۔۔۔میر شکیل الرحمٰن تک بات گئی تو انہوں نے انتظامیہ سے کہا کہ مداخلت بالکل نہ کرنا یہ خود مسلہ حل کر لیں گے ۔ اگلے روز احفاظ بھائی میٹنگ کے وقت 4 بجے میرے ” کمپاؤنڈ ” میں آگئے ۔۔۔ایسا کم ہوتا تھا وہ دوسری بلڈنگ میں ہوتے تھے۔۔۔۔وہ سیدھا کانفرنس روم ( لائبریری ) جاسکتے تھے۔۔۔۔
وہ مجھے دیر تک سمجھانے رہے ۔۔۔اس بار ڈانٹنے کا نہیں ” مشاورت ” کا انداز تھا۔۔۔۔نصف گھنٹے بعد میں مجبورا تیار ہوگیا۔۔۔۔ان کے دلائل بہت ٹھوس تھے
مجھے یاد ہے کہ جب میرا ناول سلگتے چنار آیا تو مہ ناز بھابی نے انہیں دیا ۔۔۔بہت پیار سے پڑھا۔ بہت بیمار تھے بار بار آئی سی یو جاتے تھے ۔ ٹھیک ہوکر پھر پڑھنا شروع کردیتے تھے ۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے مجھے خط لکھا۔۔۔۔۔” منے تم بڑے ہوگئے ہو اتنا بڑا ناول لکھ دیا۔ ”
پھر ان کا جملہ ۔۔۔۔” میں تمہیں درخت کی اوٹ سے چھپ چھپ کر دیکھوں گا ”
یہ خط مجھے اشکبار کرگیا۔۔۔۔۔۔اب کرونا تھا ۔۔ہر طرف اور ڈاکٹرز نے ان سے ملنے پر پابندی لگا دی تھی۔۔۔۔۔شاید یہ آخری تحریر تھی۔۔۔۔جو انہوں نے لکھی ۔۔۔سلگتے چنار آخری کتاب تھی جو انہوں نے پڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سب یاد ہے یہ بھی صرف ایک پیرا لکھا ہے
احفاظ الرحمن کا خط بنام این بی سی بھی پھر پوسٹ کررہا ہوں۔۔۔۔۔
احفاظ بھائی مجھے پتہ ہے آپ جہاں ہیں وہاں باغ ہونگے چمن زار اور گلستاں ہونگے۔۔۔تتلیاں ہونگی رنگ ہونگے خوشبو ہوگی اور ظلم نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔خوش رہیں۔ دوسری کتاب شروع کررہا ہوں لیکن سلگتے چنار کے برعکس آپ سے مشورہ نہیں کرسکوں گا
آپ کا منا ۔