اپریل 1919ءمیں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کرکے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کردیا۔
دس اپریل 1919ءکو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے میں دو سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا اور ان کی گرفتاری پر جب عوام نے جلوس نکالنا چاہا تو ان پر گولی چلا دی گئی۔

تیرہ اپریل 1919ءکو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت جلانے بنوایا تھا اور اسی سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔
جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا اور اس نے بغیر کسی انتباہ کے عوام پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک اسلحہ ختم نہیں ہوگیا۔ خود انگریز مورخین کے مطابق اس سانحہ میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے۔ سنگدلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحہ کے فوراً بعد کرفیو نافذ کرکے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا۔
اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے دو دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لاءنافذ کردیا گیا۔