ڈسکہ کے ضمنی الیکشن سے دو معاملات غیر معمولی طور پر نمایاں ہوئے، ان میں ایک کا تعلق سیاست سے ہے جس پر نتائج کے تجزیے کی صورت میں مختصراً بات ہو چکی ہے، دوسرے پہلو کا تعلق ذرائع ابلاغ کے طرز عمل سے ہے۔ ان سطور میں یہی معاملہ زیر بحث آ رہا ہے۔
پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی حسب سابق نتائج سے لاتعلق رہا، اس نے پاکستانی قوم کو اس وقت کے ایک اہم ترین واقعے کے نتائج سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈسکہ میں پی ٹی آئی کی شکست کے 6 سیاسی اثرات
نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی اکثریت کے طرز عمل کا مطالعہ بھی بڑا دلچسپ ہے جنھوں عوام کو ایک اہم واقعے سے درست طور پر آگاہ کرنے کے بجائے گمراہ کرنا زیادہ مناسب جانا۔
ایک نجی ٹیلی ویژن نے ابتدائی کئی گھنٹوں کے دوران میں جب بعض دیگر چینلوں کے مطابق 35 سے چالیس ہزار ووٹوں کے نتائج آ چکے تھے، نتائج 14 سے 17 ہزار تک منجمد کیے رکھے۔ ان منجمد شدہ نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملک جیت رہے تھے۔
کچھ دیگر نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے اس سے بھی زیادہ دلچسپ طرز عمل اختیار کیا۔ ان جینلوں نے انتخابی نتائج چند سو کے فرق کے ساتھ قریب قریب دکھائے۔ ایسا کرنے والے چینلوں نے پہلی قسم کے چینلوں کے برعکس حزب اختلاف کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کو مقابلے میں اپنے حریف سے آگے تو دکھایا لیکن سو، پچاس سے ڈیڑھ سو اور زیادہ سے زیادہ پانچ سو کے فرق سے۔
واضح رہے کہ یہ چینل اس وقت جس قسم کے نتائج دکھارہے تھے، اس وقت تک 35 سے 40 ہزار ووٹوں کے نتائج اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ نتائج سامنے آ چکے تھے جن کی تصدیق دیگر چینلوں سے ہو رہی تھی واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ حزب اختلاف کی امیدوار کامیاب ہو رہی ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کا اندازہ خود حکومتی شخصیات کے بیانات اور پی ٹی آئی کے ہم خیال تجزیہ کاروں کی گفتگو سے بھی ہو رہا تھا۔
پاکستان کے بعض نجی چینلوں کے اس رویے کی وجوہات سمجھنی مشکل نہیں ہیں لیکن ان وجوہات سے زیادہ کچھ دیگر حقائق زیادہ اہم ہیں۔
اس طرز عمل کا ایک فوری اور دیر پا اثر تو یہ ہو گا کہ پاکستانی ناظرین کی نگاہ میں ایسا طرز عمل اختیار کرنے والے ٹی وی چینل بے اعتبار ہو جائیں گے جس کے اثرات جلد ہی سامنے آنے شروع ہو جائیں گے۔
اس صورت حال کا دوسرا اثر پہلے اثر سے بھی زیادہ مہلک، زود اثر اور خطرناک ہے۔ ملک کے اندر اور باہر یہ تاثر قوی ہو گا کہ عمران خان کی حکومت میں پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو آزادی حاصل نہیں کیوں کہ اگر وہ عوام کو درست حقائق سے آگاہ کریں گے تو اس کے نتیجے میں انھیں سنگین نتائج، خاص طور پر مالی نقصانات کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ ناپسندیدہ رجحان گزشتہ چند برسوں سے فروغ پذیر ہے جس پر حکومت، ذرائع اور ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقات غور کرنا چاہئے، اس رجحان کے جڑ پکڑ جانے کے نتائج انتہائی خطرناک اور کثیر پہلو ہوں گے۔