مسلم لیگ ن نے ڈسکہ کا انتخابی معرکہ مار لیا ہے۔ اب ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اس سیاسی پیش رفت کا مطلب کیا ہے؟
بیس بائیس کروڑ کے ملک میں کسی پارلیمانی نشست کا آگے پیچھے ہو جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، سوائے اس کے کہ ایسا واقعہ آئندہ دو تین روز کے لیے سیاسی گفتگو اور ذرائع ابلاغ کے خبری ایجنڈے میں شامل رہے اور پھر معمول کی سیاسی زندگی کا حصہ بن جائے۔ اب تک کے ضمنی انتخابات کی طرح اس حلقے میں بھی یہی ہوتا اگر فروری میں دھاندلی کے ذریعے نتائج بدلنے کی کوشش نہ کی جاتی۔ نتائج بدلنے کی یہ کوشش محدود پیمانے پر ویسے ہی نتائج کا باعث بنی جیسے نتائج 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے نتائج بدلنے کی کوشش کے ہوئے تھے، مکرر عرض ہے کہ محدود پیمانے پر۔
فروری میں دھاندلی کے واقعات اور 10 اپریل کے انتخابی معرکے نے چند خدشات اور الزامات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1- 2014ء کے دھرنے کے ذریعے عمران خان اور تحریک انصاف نے اپنے بارے میں یہ تاثر مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ شفافیت سیاسی اور انتخابی عمل پر یقین رکھنے والی جماعت ہے لیکن اس انتخاب نے ثابت کر دیا ہے کہ تحریک انصاف بھی دیگر بدعنوان سیاسی گروہوں کی طرح ایک بدعنوان سیاسی گروہ ہے جو انتخابی دھاندلی پر یقین رکھتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت نے جس طرح ان دھاندلی زدہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے پر زور دیا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے جس کی تردید مشکل ہے۔ گویا تحریکِ انصاف بھی کان کا نمک ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
2- تحریک انصاف کے مخالفین کہا کرتے تھے کہ تحریک انصاف ماضی سے بڑھ کر عوام کے لیے مایوسی کا باعث بنے گی، اس واقع سے ثابت ہوا کہ مایوسی کا یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔
3- تحریک انصاف کی حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات، خاص طور پر ڈسکہ کے نتائج سے واضح ہو گیا کہ اس حکومت کی کارکردگی صفر ہے جس کی عوام نے اپنے ووٹ سے تصدیق کردی ہے۔
4- اس انتخابی نتیجے کا ایک اور بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تحریک انصاف کے پاؤں تلے سے زمین کھسکنی شروع ہو گئی ہے۔
5- توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ انتخابی نتیجہ کراچی کے ضمنی انتخاب کے نتیجے پر اثر انداز ہو گا جس سے مسلم لیگ کی توقعات بلند ہوں گی اور اس کی کامیابی کی راہ ہموار ہو گی۔
6- تحریک انصاف سے ہمدردی کی شہرت رکھنے والے ایک اینکر ارشاد بھٹی نے انتخابی نتائج پر تبصروں کے دوران بار بار کہا کہ مسلم لیگ کو ہمدردی کا ووٹ ملا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بیان ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ 2014ء کے بعد سے میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا، عوام نے اسے نا انصافی اور ظلم سمجھا جس کا ردعمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔