مستنصر حسین تارڑ ہمارے عہد کے بڑے مقبول اور بانکے ادیب ہیں۔ان کی تہ در تہ شخصیت کے سیپ سے محب مکرم پروفیسر سلمان باسط صاحب نے کیا موتی نکالے ہیں، پڑھئے اور حظ اٹھائیے۔ پروفیسر صاحب کے خاکوں کے مجموعے’خاکی خاکے’ میں یہ خاکہ گل باتیا کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے، فاضل مصنف سے معذرت کے ساتھ اس کے عنوان میں تبدیلی کی گئی ہے، اس طرح وہ بات جو ایک گرائیں دوسرے گرائیں سے کہنا بھی چاہتا ہے اور لحاظ بھی رکھنا چاہتا ہے، گرائیں اور اس کے محبت کرنے والوں تک شاید تیسرے فریق کی تخریب کاری سے پہنچ سکے۔
پرانے وقتوں میں کسی قلم رو کا شہزادہ ملک شام یا ملک یمن کی سیاحت کو جاتا۔ گھومتا پھرتا، پانچ سات شرطیں پوری کرتا، ایک آدھ شہزادی سے شادی کرتا اور واپس آکر کاروبار سلطنت میں اس طرح کھو جاتا کہ اسے سفر نامہ لکھنے کا خیال تک نہ آتا۔ یوں اس جیسے تمام شہزادوں کی روداد داستان الف لیلی میں یکمشت سمو دی جاتی ۔ ان کی دیکھا دیکھی لکشمی مینشن کا ایک شہزادہ بھی دور دراز کے ملکوں میں سیاحت کی خاطر جا پہنچا۔ خوب گھوما پھرا۔ نگر نگر کی شہزادیوں کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور طے کئے اور واپس آگیا۔ خوش قسمتی سے چلانے کے لیے کاروبار سلطنت موجود نہ تھا اس لئے گوالمنڈی لاہور میں بیجوں کا کاروبار سنھبال لیا۔ اس کے بیجوں سے اوروں کی پھلواریاں آباد ہوئیں یا نہیں مگرہ وہ خود ایک تناور درخت بنتا چلا گیا اور اب تو وہ ایک شجر سایہ دار ہے۔
“نکلے تری تلاش میں” سے آغاز کرنے والا مستنصر حسین تارڑ جب “” راکھ ” تک پہنچا ہے تو وہ ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیارکرچکا ہے اور اب وہ اتنی اونچائی پر کھڑا ہے کہ اس کو دیکھنے کے لیے دستار سنبھالنی پڑتی ہے۔ ویسے تو اس کے ساتھ بات کرنے کے لیے بھی اپنی دستار کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ موصوف نے اپنی گفتگو کو کچھ اس طرح لشکا رکھا ہے کہ سُننے والا چندھیا جاتا ہے۔ بات بات میں کاٹ اور مزاح اس کا طرہ امتیاز ہے۔ لہذا مخاطب کو علم بھی نہیں ہوتا اور نشتر اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف اس کا فن گفتگو ہے۔ وہ صحیح معنوں میں گل باتیا ہے۔ جب وہ بولتا ہے تو صرف وہی بولتا ہے۔ دوسرا مبہوت ہو کر اس کی ضروری، غیر ضروری گفتگو سُنتا رہتا ہے۔ اس کے بولنے کے فن نے اسے پاکستان ٹیلی ویژن کی صبح کی نشریات کا اینکر پرسن بنا دیا۔ آٹھ سال تک اپنی لچھے دار گفتگو سے ٹی وی کے ناظرین کو پاگل بنائے رکھا۔ بچوں کا چاچا جی بن گیا۔ صبح کی نشریات کو اس نے ون مین شو میں بدل ڈالا۔ کمپئرنگ کی دُنیا میں جب اس نے انقلاب برپا کر دیا تو ٹی وی کے ارباب اختیار کو بھی انقلاب کی سوجھی سو اُنہوں نے بسم اللہ مستنصر سے ہی کی ۔ ٹی وی والوں کا کہنا یہ تھا کہ وہ نئی نسل کو سامنے لانا چاہتے تھے اور اس طرح ہمارے دوست کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ وہ اب جوان نہیں رہا۔ لیکن اس کی شخصیت کی محبوبیت کچھ اس طرح لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکی ہے کہ لوگ اب بھی اس کی گھنگریالی زلف کے اسیر ہیں۔ اس کے ساتھ سفر کرتے ہوئے یا کہیں اور میں نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ لوگ اب بھی اس سے بات کرنے میں اس کو دیکھنے میں اور اس کی باتیں سُننے میں ایک مسرت بھرا فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اب بھی بچوں کا چاچا جی ہے مگر شاید ٹی وی کے ارباب اختیار کو رشتوں کی مہک اچھی نہیں لگتی۔
مستنصر پاکستان کے انتہائی زرخیز اور سر سبز خطے تحصیل پھالیہ سے تعلق رکھتا ہے اور اسے اس پر فخر ہے۔ اس بھاگ بھری مٹی کی خوشبو میرے اندر بھی رچی بسی ہے کیونکہ خوش قسمتی سے میرا تعلق بھی اس علاقے سے ہے جہاں میرے بزرگوں کی ہڈیاں دفن ہیں۔ یوں میں مستنصر کا گرائیں بھی ہوں۔ یہ علاقہ جہاں اپنی لہلہاتے کھیتوں اور خوبصورت لینڈ سکیپ کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں خاندانی دشمنیوں اور زمینی جھگڑوں کے باعث خطرناک بھی ہے۔ گو کہ مستنصر نے ایک عرصہ قبل اپنی جان بچانے کی خاطر لاہور میں سکونت اختیار کر لی تھی مگر اس کے اندر دشمنی نبھانے کی روایت اب بھی موجود ہے یقین نہ آئے تو اس کے بہت سے “بہی خواہوں” سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔
مستنصر کو سن آف دی سوئل ہونے کا بھی فخر حاصل ہے۔ غالباً اسی لئے سیدوں، قریشیوں، ہاشمیوں اور جعفریوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لہذا ” مردوں” سے دوستی کرتے وقت وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ دوست کا تعلق اس مٹی سے پھوٹنے والی کسی ذات سے ہو، ہاں دوسری صنف کے ساتھ معاملات میں وہ خاصا روشن خیال ہے اور ایسے میں اس کے اندر کا تارڑ دب جاتا ہے اور نہایت رومینٹک سا مستنصر انتہائی شائستگی کے ساتھ کسی جپسی، ریبکا، پاسکل، کرسٹائن ، سوئیٹی یا کیوٹی کے ساتھ بے دھڑک گھل مل جاتا ہے اور ہیلو، ہائے کرتا نظر آتا ہے۔
ذات کے علاوہ بھی مستنصر حسین تارڑ نے چند بعض پال رکھے ہیں مثلا اسے شاعری سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ بعض منہ زور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ عنا د دراصل اس کمپلیکس کا رد عمل ہے جو اسے شاعری جیسی لطیف شے کے سمجھ میں نہ آنے سے ہوتا ہے۔ لہذا وہ شاعروں سے دوستی اور شاعری سے دشمنی میں کمال رکھتا ہے۔ یوں بھی لسی پینے والے ، ساہن پال اور رڑمل کے میلوں میں ہیجڑوں کا ناچ دیکھنے والے اور گوالمنڈی کے کسان بیج سٹور پر بیٹھنے والے مستنصر حیسن تارڑ کی صریر خامہ اگر نوائے سروش نہیں بن سکتی تو کسی کو کیا تکلیف ہے۔ وہ نثر سے روٹی کما رہا ہے اور شاعروں سے بہتر کما رہا ہے۔ اس کثیف دور میں شاعری کی لطافت سے پیٹ نہیں بھرتا۔ یہ بات شاعروں کی سمجھ میں نہیں آتی اور اس کی سمجھ میں آگئی ہے۔
ایک عجیب و غریب اور تفاوت بھرا تعصب وہ اردو کے خلاف اور پنجابی کے حق میں بھی رکھتا ہے۔ وہ عمومً لکھتا اردو میں ہے جو ظاہر ہے زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچنے کے لیے اس کی مجبوری ہے۔ ٹی وی پر اور تقریبات میں بھِی اردو میں گفتگو کرتا ہے ۔ مگر ان سب کے علاوہ نہ صرف اردو میں بات کرنے سے اجتناب کرتا ہے بلکہ اردو کے خلاف بات کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتا۔ اس کا بس چلے تو اردو کو دہلی اور لکھنئو کے مشاعروں سے باہر نہ نکلنے دے لیکن زبان کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا اور اس کے پھِیلاو کو روکنا اس کے کیا، استاد امام دین کے بس کی بھی بات نہیں تھی۔
مستنصر حیسن تارڑ میں ایک معصوم سی خود پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اپنی نثر، اپنی زبان ، اپنے لہجے، اپنے ڈرامے، اپنی ایکٹینگ، اپنے علاقے، اپنے گھر اور اپنی ناک کے آگے اسے کچھ کم ہی نظر آتا ہے۔ خدا جانے بیرون_ ملک سفر کے دوران لڑکیاں کیسے نظر آ جاتی ہیں وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں۔ یہ بات بعض ہٹ دھرم نقادوں کے نزدیک ہنوز تصفیہ طلب ہے کہ یہ تمام لڑکیاں واقعی مستنضر کو نظر آئی تھیں یا صرف قارئین نے دیکھی ہیں۔ عطاء الحق قاسمی (جنہیں اپنے بارے میں بھی خاصی خوش فہمی ہے) بتاتے ہیں کہ یورپ میں بس کے سفر کے دوران ایک لڑکی ان کے ساتھ سیٹ پر براجمان تھی۔ سفر طویل ہو گیا تو لڑکی نے سستانے کی خاطر اپنا سر ان کے کندھے پر رکھ دیا۔ قاسمی صاحب فورا” ریکارڈ کی درستی کی خاطر اس سے مخاطب ہوۓ ، “بی بی سیدھی ہو کر بیٹھو تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرا نام مستنصر حسین تارڈ نہیں، عطاء الحق قاسمی ہے۔” ویسے تارڈ صاحب کو ایسی باتوں سے دل اور مید ان نہیں چھوڑنا چاہیے اور ابھی عشق کے مزید امتحانات میں بیٹھنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔
آج سے کئی برس بیشتر ہمارے اس جیک آف آل ٹریڈز دوست نے پی ٹی وی کے ڈراموں میں ایکٹنگ بھی کی ہے۔ اس کے اپنے خیال میں تو وہ ٹی وی کا سب سے کامیاب اداکار رہا ہے لیکن ناضرین اس کی خاموش فلموں جیسی ایکٹنگ سے کما حقہ لطف اندوز ہونےسے قاصر رہے سو اس نے ایکٹنگ کو خیر باد کہ دیا اور سکرپٹ رائٹنگ شروع کر دی۔ اس میدان میں اس نے اپنا لوہا منوایا۔ یہ کام بھی اسے ان پروڈیوسرز کی وجہ سے چھوڑنا پڑا جنہیں وہ پروڈکشن کی ٹیکنیک سمجھانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔
مستنصر بعض اوقات ایک چھوٹا سا بچہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا معصومانہ خوف اس وقت عروج پر ہوتا ہے جب وہ سفر کر رہا ہو۔ دراصل وہ موت سے ڈرتا ہے اور بے تحاشا ڈرتا ہے۔ سڑک کا سفر اس کے اعصاب پر سوار رہتا ہے اور وہ ڈرائیور کو ڈانٹ ڈانٹ کر اور اچھل اچھل کر گاڑی آہستہ چلانے کی تلقین کرتا رہتا ہے۔ ٹرین میں چونکہ ڈرائیور اس کی آواز اور ڈانٹ سے بہت دور بیٹھا ہوتا ہے اس لیے یہ اپنے کمپارٹمنٹ میں بیٹھا پیچ و تاب کھاتا رہتا ہے اور گاڑی کے کسی حصّے کو پکڑ کر اور دونوں ٹانگیں سامنے والی سیٹ کے ساتھ ٹکا کر اپنے تئیں ٹرین کی رفتار کم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ جہاز کے سفر کے دوران بھی اس کی حالت کم و بیش ایسی ہی ہوتی ہے مگر پائلٹ کی سبک رفتاری اور ائر ہوسٹس کی نرم گفتاری کے سبب وہ بیچ کی راہ نکال لیتا ہے۔ یوں بھی اپنی قومی ائر لائن کے ذریعے سفر کرتے ہوۓ ہر دم یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ دوران_ سفر جہاز خراب ہونے کی صورت میں کہیں استاد سواریوں کو نیچے اتار کر دھکا لگانے کا حکم صادر نہ کر دے۔
مستنصر کی وجہء شہرت اس کا نام بھی ہے۔ اگر اس کا نام اللہ دتّہ زخمی یا عاشق حسین پردیسی ہوتا تو شاید اسے اتنی شہرت نہ ملتی۔ اس کے مشکل نام نے بھی اسے بے شمار پریشان کن شہرت عطا کر رکھی ہے۔ لہزا اب کئی من چلے ٹریفک پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد اپنا نام مستنصر حسین تارڈ بتاتے ہیں اور یوں پیسہ اور عزّت صاف بچا کر لے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی غالب اکثریت چونکہ ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے اس لیے لوگوں کی کثیر تعداد اس کا نام لینے سے پہلے پانچ منٹ تک مُس مُس کرتی رہتی ہے پھر جب اس کے نام کے پہلے لفظ کے باقی حروف ادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو ایک ناقابل_ توجیہ ترتیب سامنے آتی ہے جس میں تن پہلے اور سر بعد میں آتا ہے۔ یقین نہ آۓ تو مستنصر کا نام ادا کر کے دیکھ لیجیے۔
ایک پبلک فگر ہونے کے ناطے اسے اپنے ا میج کا بہت خیال رہتا ہے۔ چاہے انتہائی مزاحیہ بات اس کے پیٹ میں گدگدی کر رہی ہو مگر وہ لوگوں کے سامنے کبھی کھل کر نہیں ہنسے گا۔ جوکالیاں کا تارڈ ہونے کے باوجود کھانا کھاتے ہوۓ آداب کا خیال رکھے گا۔ انتہائی جلدی میں ہونے کے باوجود باوقار انداز میں چلنے کی کوشش کرے گآ۔ کمر کے عین درمیان میں چاہے کتنی ہی خارش کیوں نہ ہو رہی ہو، لبوں پر ایک کرب انگیز مسکراہٹ سجاۓ رکھے گا اور ہاتھ نہیں ہلاۓ گا اور کوئی مضمون چاہے کتنا ہی پسند کیوں نہ آ رہا ہو، سر_ عام کھل کر کبھی داد نہیں دے گا۔
مستنصر خاصا آزاد خیال شخص ہے۔ فکشن لکھتے وقت چھوٹی موٹی گالیاں، ہلکے پھلکے جنسی مناظر سے اس کے مضبوط اعصاب اور شاک پروف اخلاقیات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ اس کا اندازہ آپ کو اس کی تحریروں کے تدریجی مطالعے سے۔ ہو گیا ہو گا۔ اگر کسی بھائی کا ایمان تازہ ہونے سے بچ گیا ہو تو وہ ” راکھ” کا مطالعہ کر لے یقیناً مایوسی نہیں ہو گی ، یہ کتاب سنگ میل والوں نے منی بیک گارنٹی کے ساتھ شائع کی ہے ، اس ناول میں کرسٹائنوں اور برگپتاوں کے ایسے توبہ شکن اذکار موجود ہیں کہ شدّاد کی جنت کا گمان ہونے لگتا ہے ، شنید ہے کہ بک سیلر اس کتاب کو کسی خفیہ شیلف میں چھپا کر رکھتے ہیں اور صرف اپنے مخصوص اور اعتبار والے گاہکوں کو ہی دیتے ہیں ، مستنصر صرف آزاد خیال ہی نہیں آزاد منش اور آزاد رو بھی ہے ، پا بندی اس سے کوئی برداشت نہیں ہوتی ، چاہے حکومت نے ہی کیوں نہ لگا رکھی ہو اور چاہے اس پر کوڑوں اور قید کی سزا ہی کیوں نہ مقرر ہو ،
موسیقی مستنصر کی کمزوری ہے بشرطیکہ شازیہ خُشک نغہ سرا ہو ، اس کے علاوہ اسے سب کچھ پھِیکا پھیکا سا لگتا ہے ، طبعیت زیادہ اُداس ہو تو ” قمیض تیری کالی ” سے بھی کام چلا لیتا ہے لیکن شازیہ خُشک کے چولے گھگھرے کے ساتھ موسیقی کے سر تال اس پر زیادہ آسانی سے کھلتے ہیں ،
تارڑ ایک مجلسی آد می ہے ، تنہائی سے اُس کی صرف اس وقت بنتی ہے جب وہ تخلیقی کام کر رہا ہو ، عام حالات میں اسے لوگ اچھے ، اور دوست بہت اچھے لگتے ہیں ، وہ یاروں کا یار ہے اور دوستی نبھانے کا فن جانتا ہے۔ اس کی دوستی ہے ہی اتنی خوبصورت کہ اس سے تعلق رکھنے والا آپی آپ نکھرنے لگتا ہے زندگی کے صحرا میں مستنصر کی قربت میرے جیسے درماندہ مسافر کے لیے نخلستان کی حیثیت رکھتی ہے ، اس کی محبت کا در وا ہوتا ہے تو آپ غیر محسوس طریقے سے اس میں داخل ہو جاتے ہیں ، پھر آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ دروازہ باہر سے بھیڑ دیتا ہے ، ظالم پھڑ پھڑانے بھی نہیں دیتا ۔ اس کے (Ethics) کچھ بھی ہوں اس کے نظریات مجھ سے کتنے ہی متصادم کیوں نہ ہوں ، شاعری سے جتنی بھی بیزاری کا اظہار کرے وہ میرا دوست ہے اور مجھے دل و جان سے عزیز ہے ، میں اس کا مداح بھی ہوں اس کی تحریروں کو چوم چاٹ کر پڑھتا ہوں اور اسے ، اس کی تحریروں کو میں نے تب سے دل میں اتار رکھا ہے جب سے میں نے اس کا پہلا سفر نامہ ” نکلے تری تلاش میں ” اپنی کورس کی کتابوں میں چھپا کر پڑھا تھا اور ڈاکٹر بننے سے بال بال بچ گیا تھا ، آپ کو میرے توصیفی جملوں سے ممکن ہے پنجابی کی وہ کہاوت یاد آ رہی ہو جس میں، ایک جانور کے چوروں کے ، ساتھ مل جانے کا تذکرہ ہے مگر میں نے صرف اپنے سچے محسوسات کو زبان دی ہے ویسے بھی چٹکیاں کاٹنے کے بعد سہلا دینے سے درد محسوس نہیں ہوتا ۔
مستنصر کے ناولوں میں قرۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین کی تحریروں سے اس کی وابستگی واضح طور پر نظر آتی ہے ، اگرچہ ” راکھ ” جیسا ناول لکھ کر یکایک وہ بہت اوپر اٹھ گیا ہے لیکن اس نے اردو فکشن کی ان دو قد آور ہستیوں کو اپنا مرشد مان رکھا ہے ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے اب تک جو کچھ لکھا ہے وہ سب آخر میں راکھ ہو گیا ہے لیکن چھوڑئیے لوگوں کے منہ لگنے سے فائدہ ، لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو ناول میں آریائی اثرات کی ایک مثلث بنتی ہے۔ اس مثلث میں شامل دو تو قراۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین ہیں مگر تیسرا کون ہے اس کا خود مستنصر کو علم نہیں۔ بالکل اس سکھ سردار کی طرح جو لاہور کی سیر کو آیا اور تانگے پر بیٹھا ۔ تانگے وا لے نے ترنگ میں آ کر سردار جی کو ایک سوال داغ دیا کہ سردار جی! میرے گھر میں تین افراد ہیں۔ ایک میری بیوی ہے، ایک میرا بچہ ہے، آپ بتائیں کہ تیسرا کون ہے۔ سردار جی کی تمام تر دماغی صلاحیتیں جواب دے گئیں اور اُنہوں نے ہار مان لی۔ تانگے والے نے کہا چھوڑیں سردار جی ، تیسرا میں ہوں اور کون ہے۔ سردار جی اس کی ذہانت سے بہت مثاتر ہوئے واپس اپنے گاوں پہنچے تو گاوں والوں کو اکٹھا کر کے یہی سوال کر دیا ، پورا گاؤں چونکہ سرداروں پر مشتمل تھا لہذا درست جواب دینے سے قاصر رہا۔ سردار جی نے طیش میں آ کر کہا او خالصیو! تیسرا وہ تانگے والا ہے اور کون ہے۔ تو دوستو ! اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ تیسرا کون ہے تو مستنصر کو ضرور بتا دیجئے گا ۔