مستاس بات کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، تب سے میں مستنصر حسین تارڑ کو جانتا ہوں ۔
وہ یکم مارچ 1939 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے ۔ وہ نامور مصنف اور سفر نامہ نگار ہیں۔ اب تک پچاس سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت سفر نامے اور ناول نگاری ہے۔
لیکن میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھایا کرتے تھے ۔ ایک ڈرامہ سیریز خاص طور پر یاد ہے، جس میں وہ ایک اخبار میں رپورٹر کا کردار ادا کرتے تھے اور ان کا نام امجد تھا ۔ نثار قادری مرحوم ان کے نیوز ایڈیٹر کا کردار انجام دے رہے تھے ۔ ان کا یہ ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا کہ ماچس ہوگی، آپ کے پاس ۔ یا مستنصر حسین تارڑ سے بہت کھینچ کر یہ کہنا کہ امجد ۔۔۔
میں اپنے طور پر اس خام خیالی میں مبتلا رہا کہ جیسے میں انہیں جانتا ہوں وہ بھی مجھے جانتے ہوں گے ۔ جب کہ کیسے ممکن تھا، ہماری ایک ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔
پھر جب پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا دور شروع ہوا تو وہ جیو ٹی وی پر رشتے کے حوالے سے ایک پروگرام میں بطور میزبان اپنے جوہر دکھانے لگے ۔
اس وقت تک میں ان کے سفر ناموں کا مطالعہ کرنے لگا تھا اس طرح ان کی شخصیت سے میرا ایک تعلق اور پیدا ہو گیا ۔
پھر جب سن 2016 میں حج پر گئے تو اس سے پہلے مستنصر حسین تارڑ کی منہ ول کعبہ شریف کا مطالعہ کیا حج سے واپسی کے بعد میں نے ان کا نمبر کہیں سے حاصل کر کے انہیں کال کی۔
میں حیران رہ گیا کہ انہوں نے میرا فون اٹینڈ کیا اور مجھ سے بات بھی کی میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کا حوالہ دیا کہ میں وہاں تیس سال نیوز پروڈیوسر کے طور پر کام کر چکا ہوں اور یہ کہ میں ان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوں
اور ان کے کئی سفرناموں کا مطالعہ کیا ہے اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ سے فرمایا کیا آپ جب چاہیں مجھے کال کر سکتے ہیں ۔
خیر میں نےانہیں کال تو نہیں کی، سچ تو یہ ہے کہ مجھے مناسب نہیں لگا کہ ان کو وقت بے وقت ڈسٹرب کروں ۔
میں ان کی کتابوں کے علاوہ ان کے اخباری کالموں کا مطالعہ کرتا رہا ۔
کئی سال قبل وہ دسمبر کی ایک سرد شام آرٹس کونسل میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی آئے تو ان سے مختصر بات چیت اور فوٹو کھنچوانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔
مستنصر کا آبائی تعلق گجرات سے ہے لیکن اس وقت لاہور میں رہتے ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ کے والد رحمت خان تارڑ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مستنصر صاحب نے اپنے والد سے گہرا اثر قبول کیا۔
مستنصر حسین تارڑ کا بچپن بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں گزرا جہاں سعادت حسن منٹو پڑوس میں رہتے تھے۔ اُنھوں نے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔
ایف اے کے بعد برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا رخ کیا، جہاں فلم، تھیٹر اور ادب کو نئے زاویے سے سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ پانچ برس وہاں گزارے اور ٹیکسٹائل انجنئیرنگ کی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس آئے ۔
انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں کام کیا، متعدد سفر کیے۔ اخبارات میں کالم لکھے۔ اس کے علاوہ ناول کے حوالے سے بھی وہ ایک اہم نام ہے۔ انہوں نے بہاؤ، راکھ (ناول)، خس و خاشاک زمانے اور اے غزال شب جیسے شہرہ آفاق ناول تخلیق کیے۔ اس کے علاوہ آپ ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی وی نے جب پہلی مرتبہ 1988ء میں صبح بخیر کے نام سے صبح کی نشریات شروع کیں تو مستنصر حسین تارڑ نے ان نشریات کی کئی سال تک میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ ریڈیو پروگرام کی بھی میزبانی کی ۔
1957ء میں شوقِ آوارگی انھیں ماسکو، روس میں ہونے والے یوتھ فیسٹول لے گئی۔ (اُس سفر کی روداد 1959 میں ہفت روزہ قندیل میں شایع ہوئی۔)۔ اس سفر کی روداد پر ناولٹ “فاختہ” لکھی۔ یہ قلمی سفر کا باقاعدہ آغاز تھا۔
پاکستان واپسی کے بعد جب ان کے اندر کا اداکار جاگا، تو انھوں نے پی ٹی وی کا رخ کیا۔ پہلی بار بہ طور اداکار ”پرانی باتیں“ نامی ڈرامے میں نظر آئے۔ ”آدھی رات کا سورج“ بہ طور مصنف پہلا ڈراما تھا، جو 74ءمیں نشر ہوا۔ آنے والے برسوں میں مختلف حیثیتوں سے ٹی وی سے منسلک رہے۔ جہاں کئی یادگار ڈرامے لکھے، وہیں سیکڑوں بار بہ طور اداکار کیمرے کا سامنا کیا۔ پاکستان میں صبح کی نشریات کو اوج بخشنے والے میزبانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بچوں کے چاچا جی کے طور پر معروف ہوئے۔ 2014ء میں ایکسپریس ٹی وی پر “سفر ہے شرط” کے نام سے سفر نامہ پروگرام بھی کر رہے ہیں ۔
1969ء میں وہ یورپ کی سیاحت پر روانہ ہوئے، واپسی پر ”نکلے تری تلاش میں“ کے نام سے سفرنامہ لکھا۔ یہ 71ءمیں شائع ہوا۔ قارئین اور ناقدین دونوں ہی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اِس کتاب کو ملنے والی پذیرائی کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اگلا سفر نامہ “اندلس میں اجنبی” تھا ۔ 42 برسوں میں 30 سفرنامے شائع ہوئے۔
12 صرف پاکستان کے شمالی علاقوں کے بارے میں ہیں۔ پاکستان کی بلند ترین چوٹی “کے ٹو” پر ان کا سفرنامہ اس قدر مقبول ہوا کہ دو ہفتے میں پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ اِس علاقے سے اُن کے گہرے تعلق کی بنا پر وہاں کی ایک جھیل کو “تارڑ جھیل” کا نام دیا گیا۔
“غار حرا میں ایک رات اور منہ ول کعبہ شریف” ان کے وہ سفر نامے ہیں جوحجاز مقدس کے بارے میں تحریر کیے گئے ہیں۔