اسلام آباد کے ریسٹورنٹ کی وائرل وڈیو دیکھ رحم آ رہا ہے ایسی لچر اور پست ذھنیت پر، دو بظاہر پڑھی لکھی خواتین، مہنگے ملبوسات مگر اتنی گھٹیا سوچ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ کنولی ریسٹورنٹ دو چار بار گیا ہوں، بہت عمدہ ماحول، ذائقہ مگر یہ وڈیو دیکھ کر لگا کہ سب کتنا مصنوعی ہے، ایک دکھاوا، یہ عہد بھی کر لیا کہ آئندہ کبھی نہیں جاؤں گا۔ ہمارے معاشرے میں ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ جاہل نہیں ہوتے، یقین جانیں ایسے لوگ اکثریت میں ہیں جو ظاہر میں تو تعلیم یافتہ پڑھے لکھے مگر باطن جہل کی کثافت سے بھرا ہوا ہے۔ یہ افسوسناک وڈیو کل سے وائرل ہے، خیال تھا اس پر کچھ نہ کیا جائے عجیب بیہودہ اور لچر معاملہ ہے مگر پھر سوچا کہ کیوں نہ کیا جائے، ایسے گھنائونے چہروں کو نے نقاب نہ کرنا بھی تو جرم ہے، ایسی غلیظ ذھنیت پر خاموش رہنا بھی تو سراسر غلط ہے۔ انگریزی ایک زبان ہے گو کہ طبقہ اشرافیہ کی ہے مگر اتنی بھی باعزت نہیں کہ کسی کو نہ آئے تو اسکا اسطرح مذاق بنایا جائے، کسی کی عزت نفس مجروح کی جائے۔ یہ دو بظاہر مہذب نظر آنیوالی گنوار خواتین نے تو اپنے اسٹاف منیجر کو ذلیل کیا بلکہ اسکی وڈیو بھی وائرل کر دی، کیا ان کے خلاف سائبر کرائم کا مقدمہ درج نہیں ہونا چاہیئے؟ مزیدار بات یہ ہے کہ جب سوشل میڈیا پر لعن طعن شروع ہوئی تو کنولی ریسٹورنٹ کا وضاحتی بیان بھی بے حسی کی دلیل ہے، جس میں بتایا گیا کہ یہ تو صرف ہلکا پھلکا مذاق تھا۔ ایسے ظلم پر خاموش رہنا بھی تو ظلم ہے جناب، آئیے دیکھتے ہیں مکالمہ