جب پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن کی بنیاد پڑی، تو اسکرپٹ رائٹرز کی تلاش شروع ہوئی۔ ٹیلے ویژن کے لیے کیسے لکھا جاتا ہے، یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ ماہرین کی نظر میں، ریڈیو کے لیے لکھنا سب سے مشکل ہے، لیکن ریڈیو ڈرامے کی طرز پہ ٹیلے ویژن ڈراما لکھنا، نقص مانا جاتا ہے۔ ریڈیو کا ڈراما، مکالموں کے سہارے آگے بڑھتا ہے۔ جب کہ ٹیلے ویژن آہنگ ہی نہیں، عکس کا بھی نام ہے۔ عکس یعنی تصویر کو، یا یوں کہیے تصویروں کو جوڑ کر ایک عمل دکھانا، اسکرین رائٹنگ کہلاتا ہے۔ وہ مصنفین جو ریڈیو کے لیے لکھتے تھے، اور وہ جو تھیٹر کے لیے لکھتے تھے، انھی سے ٹیلے ویژن ڈرامے لکھواے گئے۔ ایسوں نے بھی ٹیلے ویژن کے لیے لکھا، جن کا میدان صحافت تھا۔ جیسا کہ منو بھائی۔ وہ بھی تھے جنھوں نے نہ کبھی تھیٹر کے لیے لکھا، نہ فلم کے لیے نہ ریڈیو سے واسطہ تھا۔ ان مصنفین کی تربیت اس وقت کے ذہین پروڈیوسرز نے کی۔ ان میں سے اکثر دانش ور تھے، ان کے پاس کہنے کو تھا، صرف یہ کہ ان کو یہ سکھایا گیا، کہ ٹیلے ویژن کے لیے کیسے لکھنا ہے۔ کچھ اچھے ڈرامے لکھے گئے، کچھ بہت اچھے، اور کچھ ایسے بھی، جو عام سے تھے۔ فلم والوں نے ٹیلے ویژن کو ہمیشہ کم تر سمجھا، یہی وجہ تھی کہ جو فن کار فلم کے میدان میں شناخت بنا چکے تھے، انھوں نے ٹیلے ویژن کا رُخ نہ کیا۔ وہ جو فلم انڈسٹری میں اسٹرگل کر رہے تھے، انھوں نے سرکاری نوکری کو ترجیح دی، یوں ٹیلے ویژن پر ایسے ڈرامے بھی دکھاے گئے جو فلم کی ٹریٹ منٹ لیے ہوے تھے۔ پاکستان ٹیلے ویژن کے منجھے ہوے پروڈیوسر یاور حیات، انھی فن کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے فلم انڈسٹری سے ٹیلے ویژن کا رُخ کیا۔ تجربات سے گزرتا، اُتار چڑھاو دیکھتا ہوا، پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن ایک توانا ادارہ بن گیا۔ یہ صرف ایک پروڈکشن ہاوس، یا نشریاتی ادارہ ہی نہیں، بل کہ ایک اکادمی کی شکل میں ڈھل گیا۔ جہاں بہت سوں کی تربیت ہوئی۔ اُن میں اسکرپٹ رائٹر بھی تھے۔
پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن، چُوں کہ سرکاری ادارہ ہے، اس لیے اس پہ بیرونی و اندرونی ہر طرح کا دباو رہتا تھا، رہتا ہے۔ اس نے ضیا کی آمریت بھی دیکھی، حکم رانوں کی چاپلُوسی بھی کی، لیکن تفریحی پروگرامنگ خُوب سے خُوب تر رہی۔ بہ قول آغا ناصر کے، پی ٹی وی کا سُنہرا دور وہی تھا، جب ضیا کی مارشل لائی دور کی پابندیوں کا سامنا تھا۔ آغا ناصر کا کہنا تھا، کہ ہم نے اپنی بات تو کہنی تھی، بس اسے علامت کے پردے میں کہ دیتے تھے۔ یہ اس ادارے کی خوش قسمتی تھی، کہ اس کا مقابلہ، اپنے ہی ادارے سے تھا۔ پانچوں سینٹرز پروگرام تیار کرتے، لیکن کراچی سینٹر ہمیشہ چہیتا رہا۔ وجہ یہ تھی کی اشتہاری کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں تھے، اور سب سے زیادہ بزنس، یہی سینٹر دیا کرتا تھا۔ کراچی سینٹر کے، اُس وقت کے ڈراموں میں بھی، کمرشل ازم کی جھلکیاں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ دور تھا، جب کسی وجہ سے نشریاتی رابطے میں تعطل آ جاے، تو ناظرین ٹی وی اسکرین پر “انتظار فرمایئے” کی سلائڈ کو ٹکٹکی باندھے دیکھا کرتے تھے۔ آج کی معروف اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے، کہ “انتظار فرمایئے” کا یہ کارڈ بھی، اتنی ہی “ریٹنگ” لیتا تھا، جتنا کہ کوئی دوسرا پروگرام۔
کیا یہ ممکن نہ تھا، کہ پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن، اُس وقت بھی جیسے تیسے ڈرامے دکھاتا اور ناظرین نہ دیکھتے؟ یہ ممکن تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اُس وقت کے محنتی پروڈیوسرز اچھے سے اچھا پروگرام بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ کیوں کہ ٹیلے ویژن کے “دماغ” سیٹھ نہیں، بل کہ فنون لطیفہ سے جُڑے افراد تھے۔ وہ ایسوں کی قدر کرتے تھے، جو اپنے فن میں طاق ہوں۔ ناظرین جب معیاری پروگرام دیکھتے، تو اُن کے ذوق کی تربیت ہوتی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے، کہ پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن نے، ناظرین کے ذوق کی تربیت کی۔ یہ بھی تھا، کہ پانچوں سینٹرز علاقائی اعتبار سے، اپنے ارد گرد کی کہانیوں، اپنے ارد گرد کے کرداروں کو لکھواتے تھے۔ پشاور سینٹر کا ڈراما اپنا رنگ لیے ہوتا، تو کوئٹہ کے پروگرام کی اپنی شکل ہوتی۔ کراچی سینٹر کے چُلبلے پروگرام، اور لاہور سینٹر سے فکر انگیز کہانیاں دیکھنے کو ملتیں۔ پی ٹی وی صحیح معنوں میں ایک گُل دستہ تھا۔
پھر یوں ہوا، کہ نجی اداروں کو ٹیلے ویژن چینل کے لائسینس دیئے گئے۔ ان اداروں کی وہ مجبوریاں نہ تھیں، جو پی ٹی وی یعنی سرکاری ادارے کی رہی ہیں۔ ناظرین کو ڈگر سے ہٹ کر کچھ دیکھنے کو ملا تو وہ وہاں متوجہ ہوے۔ پچھلے دس گیارہ برسوں میں نجی ٹیلے ویژن اداروں نے اچھے پروگرام بھی پیش کیے، کم اچھے بھی، عام سے بھی اور بُرے بھی۔ مسابقت کی دوڑ میں نجی چینلز نے جس شئے کا ستیا ناش کیا اسے کاروباری اخلاقیات کہتے ہیں۔ محض اسکرپٹ کے شعبے کی بات کرتے ہیں۔ میں نے ایک ٹیلے ویژن نیٹ ورک کو ڈراما لکھ کر دیا، جس کا مرکزی خیال عصمت چغتائی کی کہانی “بے کار” سے ماخوذ ہے۔ ایمان داری کا تقاضا تھا کہ عصمت چغتائی کو کریڈٹ دیا جاتا۔ کانٹینٹ ہیڈ نے (جو اسی ادارے کی مالکن کی بہو ہیں) کہا کہ یہ کہانی عصمت چغتائی کی ہے، تو آپ کو طے شدہ فیس کی نصف ملے گی۔ میں نے عرض کی اگر آپ عصمت چغتائی کے ورثا کو رائلٹی دنے کو تیار ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ جواب ملا اُن کے ورثا تو ہُندستان میں ہیں، اس لیے ایسا ممکن نہیں۔ میں نے مطالبہ کِیا، تو پھر آپ مجھے پوری فیس ادا کیجیے۔ کیا میرا قصور یہی ہے کہ میں نے عصمت کی کہانی کو اپنا نہیں کہا؟ اِس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا، کہ مجھے طے شدہ فیس سے نصف ہی ادا کی گئی نیز ناپسندیدہ شخص مانا گیا۔ عصمت کے ورثا کو کیا ملا، اور کیا ملنا تھا، اس کا کیا ذکر۔ گویا عصمت کا وارث یہ چینل ہی بن بیٹھا تھا۔ اسی ادارے کی مذکورہ کانٹینٹ ہیڈ نے، ڈائجسٹ کے لیے لکھنے والی ایک معروف کہانی کار کے ناول کے کرداروں میں، معمولی رد و بدل کر کے اپنے نام سے ڈراما سیرئیل لکھ ڈالی۔ جب ناول نویس نے اعتراض کیا تو کہا گیا ،آپ کورٹ میں بھی چلی جائیں، تو کیس نہیں جیتیں گی۔ اس لیے خاموش رہیے، اور ہمارے لیے کچھ لکھ کر لایئے۔ اگر عدالت جانے کا شوق ہے، تو آیندہ اس چینل کے دروازے آپ پر بند ہیں۔ لیجیے یوں ڈراما انڈسٹری کو ایک فطین تمثیل نگار مل گئیں۔ المیہ یہ ہے، کہ پاکستان میں کاپی رائٹ ایکٹ، اتنا کم زور ہے جو آج کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا۔ چینل اور پروڈکشن ہاوسز مصنفین سے کہانی کا خلاصہ منگوا لیتے ہیں، اس کے بعد اپنے من چاہے مصنفین سے اسی آئڈیئے پہ لکھوا لیں تو کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ تفنن طبع کے لیے یہاں ایک اور قصہ بیان کرتا ہوں۔ ایک بار ایک ادارے کے کانٹینٹ منیجر نے کہا، کوئی اچھُوتا آئڈیا تو دیجیے۔ میں نے سوال کِیا، کیا آپ کو اُس اچھُوتے آئڈیئے میں ایسی سچو ایشنز تو نہیں چاہتے، جس میں دکھایا جاتا ہے کہ سازشی ساس نے مظلوم بہو کی ہانڈی میں نمک یا مرچ ڈال کر اسے بد ذائقہ کر دیا؟ فرمانے لگے جی بالکل یہ تو چاہیے۔ انھوں نے مزید ہدایات دیں، یہ خیال رہے کہانی کی ہیروئن گھریلو لڑکی ہو۔ مظلوم ہو۔ میں نے عاجزی سے کہا، تو پھر اچھُوتا کیا ہوا؟ وہ صاحب مجھ پر برہم ہوے کہ آپ کام ہی نہیں کرنا چاہتے۔ آپ کا پیشن ہی ختم ہو گیا ہے۔ اور یہ کہ بتایئے اس سال آپ کے کتنے ڈرامے نشر ہوے ہیں؟ اسی لیے تو آپ کو کام نہیں ملتا۔
میرا خیال ہے اگر حکومت پاکستان کوئی ایسا ادارہ بنا دے جہاں مصنفین اپنے آئڈیاز” پیٹنٹ کروا سکیں اور اُن کے چوری ہونے کا خدشہ نہ رہے تو آپ ہماری اسی ٹیلے ویژن اسکرین ہی پر انقلابی تبدیلیاں رو نما ہوتے دیکھیں گے۔
ایک تاثر یہ ہے، کہ ٹیلے ویژن ڈراما صرف خواتین دیکھتی ہیں۔ اس تاثر کو فروغ دیتے، ایسے ایسے فضول ڈراموں کا سلسلہ پیش کیا گیا جس میں مرد کو بے ایمان، کم ظرف، دوسروں کی بیویوں پہ رال ٹپکانے والا دیو بنا کر پیش کیا گیا۔ عورت کو مظلومیت کا استعارہ بنا دیا گیا۔ پھر یہ کہ کسی کہانی کا مرکزی کردار مرد ہو، تو اسے رِجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ مکالموں میں بھی اسی بات پر فوکس کیا جاتا ہے، کہ مرد یوں ہے تو عورت وُوں ہے۔ مرد اور عورت کے سوا دُنیا میں کوئی موضوع ہی نہیں بچا۔ اب سطحی سوچ کی کہانیاں ٹیلے ویژن اسکرین پر عام ہو گئی ہیں۔ ڈرامے کی کہانیوں کے کردار شہری زندگی بالخصوص کراچی سے متعلق ہیں۔ گویا کراچی ہی سارا ملک ہے۔ یہی احوال نیوز چینل کا ہے، کراچی میں پٹاخا بھی پھُوٹے تو ملک بھر میں ہل چل دکھائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ اشتہاری کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں ہیں، یوں انھیں کراچی ہی دُنیا لگتی ہے۔ کراچی لاہور اور راول پنڈی/اسلام آباد کی مرکزی چوراہوں پہ بِل بورڈز لگانے کا مقابلہ ہے، کہ اشتہاری کمپنیوں کی نظر میں رہیں۔ توجہ حاصل کرنے کا کوئی موقع، چاہے مناسب ہے، یا نا مناسب، اسے ضائع نہیں کیا جاتا۔ توجہ نہیں ہے، تو “کانٹینٹ” پر۔ جن مصنفین کے سر میں گُودا ہے، اُن کی کہانیوں کا خریدار کوئی نہیں۔ جو بھِیڑ چال کے شکار ہیں، وہ منڈی کی مانگ ہیں۔ وہ کہانیاں، جو خواتین ڈائجسٹ، پاکیزہ، شعاع، دوشیزہ، اور ایسے ہی خواتین کے لیے مخصوص ڈائجسٹوں میں چھپتی ہیں، اچھی ہیں یا بُری۔ سبھی نہیں تو بیش تر ٹیلے ویژن اسکرین کا حصہ بنیں۔ یہ دعوا کرتے ہوے، کہ ناظرین یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو ڈائجسٹوں میں سب سے مقبول ڈائجسٹ “سب رنگ” جس کی اشاعت کسی بھی ڈائجسٹ کی اشاعت سے دُگنی تگنی چوگنی تھی۔ اُس کی کہانیاں ٹیلے ویژن اسکرین پر کیوں نہ دکھائی گئیں؟ معیار کی بات کریں تو شاید ہی “سب رنگ” کی کوئی کہانی کم تر معیار کی رہی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ سستی سوچ کے پروگرام سستے لوگ بناتے ہیں، اور عمدہ پروگرام کے لیے قابل افراد کو چُننا پڑتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ قابل افراد کی شناخت قابل افراد ہی کرتے ہیں۔ آپ سبھی ٹیلے ویژن چینلز کے ڈِپارٹمنٹل ہیڈز کو دیکھ لیجیے۔ اکثر “سیٹھ” کے بیٹے بیٹیاں بہوئیں، بھتیجے بھتیجیاں، بھانجے بھانجیاں یا رشتے دار ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے میں اُن کے عزیز و اقارب نہیں بل کہ وہ لوگ ہیں جو سیلز کا وسیع تجربہ یا مہارت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ “سیٹھ” آمدنی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتا۔ یہی سیلز کے قابل افراد، کانٹینٹ کے نا لائق افراد کو کمانڈ کرتے ہیں۔ اسی لیے ہماری ٹیلے ویژن اسکرین ہماری ذوق کی تسکین کا باعث نہیں رہی۔