ADVERTISEMENT
1955ء میں منٹو فوت ہوا، یہ سن 2021ء ہے اوریوں لگتا ہے کہ منٹو ابھی زندہ ہے اور یہیں کہیں آس پاس موجود ہے ۔ جس زمانے میں منٹو نے یہ کہا تھا کہ ’سعادت حسن تو مر سکتا ہے، منٹو نہیں‘ تب بھی لوگوں کو یقین تھا منٹو اتنی جلدی مرنے والا نہیں ہے۔
’جلدی‘ سے یاد آیا کہ جب اشعر نجمی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ”ہمارے لیے منٹوصاحب“ لکھ دی تھی تو منٹو کے افسانوں کی تعبیر کے باب میں کئی نئے سوالات اٹھا دیے تھے۔ کتاب چھپنے سے پہلے میں نے وہ ساری بحث پڑھی اور اپنے تئیں جو سوجھا، وہ لکھا اور ”ہمارے منٹو صاحب“ کا عنوان جما کر فاروقی صاحب کو بھیج دیا تھا۔ مجھے اچھا لگا کہ فاروقی صاحب نے اس پر بہت مثبت ردعمل دیاتھا۔
فاروقی صاحب کی کتاب ”ہمارے لیے منٹو صاحب“ اور میری کتاب”سعادت حسن منٹو:جادوئی حقیقت نگاری اور آج کا افسانہ“ جس میں فاروقی صاحب کو بھیجی گئی تحریر شامل تھی پہلے آصف فرخی نے چھاپی تھی ، ہوا یوں کہ آصف نے اپنے ادارے ”شہرزاد“ سے فاروقی صاحب کی کتاب”ہمارے لیے منٹو صاحب“ شائع کی۔ یہ کتاب عنایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا’جلدی سے ”ہمارے منٹو صاحب“ اور منٹو پر دیگر مضامین مرتب کرکے انہیں بھیج دوں ۔ خیر وہ کتاب آصف فرخی کے بہت اہم نوٹ کے ساتھ چھپی اور خدا کا شکر کہ منٹو پر اس حوالے سے مکالمے کا نیا دریچہ کھلا۔ آصف فرخی نے اپنے نوٹ میں لکھا تھا:
“شمس الرحمن فاروقی جیسی جیّد ادبی شخصیت نے اپنی تازہ گراں قدر کتاب میں لکھا ہے کہ منٹو کو نقاد کی ضرورت نہیں ۔لیکن نئے زمانے ، حقیقت نگاری کے تقاضے،اس دور کی معروضات کا جائزہ لینے اور ان سے اُٹھنے والے مباحث سے نبرد آزما ہونے کے بعد حمید شاہد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ”منٹو کو اب بھی سنجیدہ نقاد کی ضرورت ہے۔” وہ منٹو کی طرف اس کے تخلیقی متن کے راستے سے آئے ہیں اور ایک نئے تناظر میں دیکھنے کے قائل ہیں۔ اپنے شاداب متخیلہ کی بدولت معاصراُردو افسانے میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے اور معاصر افسانے کی گہری تنقیدی بصیرت کے حامل محمد حمید شاہد، اس طرح کے تخلیقی نقاد کی تازہ تر اور تازہ دم مثال ہیں جس کے ذریعے سے منٹو کی باز یافت نہیں بلکہ تجدید ہوتی ہے ۔ اپنے سلسلہ مضامین میں محمد حمید شاہد نے مختلف تنقیدی مباحث کے ذریعے سے منٹوکے مطالعے کو ایک نیارُخ عطا کر دیا ہے ۔”
شمس الرحمن فاروقی صاحب کے مطابق منٹو پر میر کا یہ شعر صادق آتا تھا:
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
منٹو اور میر کا اس طرح ایک ساتھ ذکر کرنے والے میرے محترم شمس الرحمن فاروقی نے ’جلدی جلدی‘ والا الزام منٹو پر دھرا تھا تو میں نے عرض کیا تھا کہ صاحب، دیکھئے اگر ایک حد تک یہ مان بھی لیا جائے کہ منٹو کا بیانیہ سادہ اور اکہرا تھا تو اس حقیقت کو بھی ماننا ہوگا کہ منٹو نے اسی’جلدی جلدی‘ میں جو بیانیہ مرتب کیا وہ صاف،رواں اور روزمرہ کے قریب تھا، اور افسانے کے لیے ایسی موزوں زبان میں تھا کہ اس کے وسیلے سے منٹو نے افسانے میں کہانی کو سریع اور چست کر دیا تھا۔ خالص فکشن کی زبان سے کہانی لکھنے کا ایسا چلن پہلے کہاں تھا؟ یہ ماننا ہوگا کہ لکھتے ہوئے، چاہے وہ جتنی بھی ’جلدی‘ میں ہوتا فنی امور کو نگاہ میں ضرور رکھتا تھا۔یہی سبب ہے کہ شمس الرحمن فاروقی،جنہوں نے منٹو پر’جلدی‘ والی پھبتی کسی تھی، منٹو کے ایسے افسانوں کی فہرست بنانا چاہی جن میں ’سارے نہیں اکثر‘ ”شاہکارافسانے“ کہے جا سکتے تھے تو وہ تیرہ افسانوں تک گنتے چلے گئے تھے۔اس فہرست میں “موذیل”،”باپوگوپی ناتھ”،”ٹوبہ ٹیک سنگھ”،”ہتک”،”نیا قانون”، “کالی شلوار” اور “خوشیا”جیسے افسانے شامل ہیں اور “جانکی”، “بادشاہت کا خاتمہ”،”میرا نام رادھا ہے”،”شاردا” اور “لتیکا رانی” جیسے افسانے بھی۔ انہوں نے “پھندنے” کو بھی انہی شاہکار افسانوں کی ذیل میں رکھا تھا۔ اس فہرست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر مجھے یہاں یہ بتانا ہے کہ منٹو کے اس’جلدی‘ کے چلن کے باوجود شمس الرحمن فاروقی جیسا جید ناقد بھی ایک دو نہیں درجن بھر افسانوں کو لائق اعتنا قرار دیتا ہے۔
بک کارنر جہلم نے منٹو پر شمس الرحمن فاروقی کی کتاب”ہمارے لیے منٹو صاحب“ اور میری کتاب”منٹو:آج بھی زندہ ہے“(یعنی ”سعادت حسن منٹو؛جادوئی حقیقت نگاری اور آج کا افسانہ“ نام کی تبدیلی اور اضافوں کے ساتھ) بہت اہتمام سے شائع کر دی ہے۔ بہت شکریہ بک کارنر.