فارن فنڈنگ کیس سے ایک حکایت یاد آگئی جس میں کہتے ہیں کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ اُس حکایت اور اِس قضیے میں ایک فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ حکایت کے کردار شرط سن کر پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن اس مقدمے کے کردار اعتراف گناہ کر کے بھی اس کا وبال کسی دوسرے کے سر رکھنے اور خود کو پاکیزہ ثابت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔
ملک میں فی زمانہ سیاسی اخلاقیات کی جو صورت حال ہے، اس اگر ایسا نہ کیا جاتا تو حیرت ہوتی۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن سے اس مقدمے کا فیصلہ ایک فریق کی ہار اور ایک کی جیت ہوگی لیکن اصل میں یہ مقدمہ کچھ اور ہے۔
الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کی طرف سے بالواسطہ اعتراف جرم کے بعد اب معاملہ تیکنیکی نکات پر جا ٹھہرا ہے۔ یہ درست ہے کہ بلیک لا ڈکشنری کی طرح کے کسی قانونی نکتے کی مدد سے ملزم چھوٹ جائے تو تحریک انصاف فتح مند سمجھی جائے گی اور جیسے بظاہر دکھائی دیتا ہے، جرم ثابت ہو جائے تو حزب اختلاف بالخصوص ن لیگ دشمن کے چاروں شانے گرنے پر خوشی کے شادیانے بجائے گی۔ ظاہری طور پر تو یہ معاملہ ان ہی دو فریقوں کے درمیان ہے لیکن اصل میں مقدمہ یہ نہیں بلکہ یہ معاملہ قومی اداروں اور خاص طور پر الیکشن کمیشن کی ساکھ کا ہے۔
الیکشن کمیشن اور اس جیسے دیگر قومی اداروں کی ساکھ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں بہت متاثر ہوئی ہے جیسے سینیٹ کے گزشتہ انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ ن کامیاب رہی لیکن بعض قانونی نکتہ طرازیوں کی مدد سے اس کے کامیاب سینیٹروں کو بھی آزاد قرار دے دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ جب اس طرح کے فیصلے دیے جاتے ہیں تو ظاہری طور پر وہ قانونی جواز کے بغیر نہیں ہوتے لیکن عوامی عدالت اور تاریخ کا ترازو انھیں مختلف انداز میں تولتا ہے اور یہی فیصلہ دوام پاتا ہے۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں رونما ہونے والے ایسے واقعات سے لے کر بہت سے دیگر فیصلوں کے بارے میں خلق خدا کا انداز فکر جداگانہ ہے، دل و دماغ کے کان بند نہ ہوں تو ان کی صدائیں اس ملک در و دیوار سے گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ اس لیے یہ مقدمہ صرف دو فریقوں کے درمیان فتح و شکست کا نہیں بلکہ اس ریاست اور اس کے اداروں کی ساکھ کا ہے۔ اگر ہمارے ادارے قانون و انصاف کی روح کے مطابق فیصلہ کریں گے تو نہ صرف اپنے عوام اور تاریخ کی عدالت میں سرخ رو ہو جائیں گے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو نہ صرف خلق خدا میں خود کو مزید اجنبی کرلیں گے بلکہ ریاست پر بھی عوام کے اعتماد میں کمزوری کا باعث بنیں گے، اب فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔