سیاست امکانات کا کھیل ہے اور سیاست کی اونچ نیچ کا مطالعہ کرنے والے روزمرہ کے واقعات سے آنے والے حالات کی خبر پاتے ہیں، آنے والے حالات کی خبر اسلام آباد کی میئر شپ کے انتخابات سے ملتی ہے جس میں مسلم لیگ ن کے اپنی حریف تحریک انصاف کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ موجودہ مشکل حالات میں یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔
ایک ایسے سیاسی ماحول میں جس میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں دیکھتے ہی دیکھتے کمال ہو جاتا ہے، میئر اسلام آباد کا کھیل تو چٹکی بجانے سے بدلا جا سکتا تھا، اگر یہ نہیں ہوا تو یہ خبر معمولی نہیں۔ سمجھنے والے اس سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں۔
کاتا اور لے دوڑی والے صحافی ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر آصف علی زرداری کی کی تقریر کو جس میں انھوں نے حکمت عملی بدلنے کی بات کی، جانے کیا کیا معنی پہنا رہے ہیں اور اس بیان میں پی ڈی ایم میں اختلاف قرار دے رہے ہیں ورنہ زرداری صاحب نے جو بات کہی ہے، اس میں ہزار امکانات پوشیدہ ہیں اور اس کا مقصد پی ڈی ایم کی تحریک کو توانائی بخشنا ہی ہے۔
زرداری صاحب نے گڑھی خدا بخش بھٹو میں جیلیں بھرنے کی بات کہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تحریکوں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والی تحریکیں جب جیل بھرنا شروع کر دیتی ہیں تو اس کے نتیجے میں حکومتوں کا سانس پھول جاتا ہے اور ان کے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔
1977ء میں جب پاکستان قومی اتحاد نے انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کی تھی تو اس کاسب سے طاقت ور پہلو یہی تھا۔ اس تحریک کے دوران ہر شہر سے چھ افراد روزانہ رضاکارانہ طور پر گرفتاری پیش کیا کرتے تھے۔ تین چار ماہ کی تحریک کے دوران سیاسی قیدیوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ جیلوں میں جگہ نہ رہی جب یہ صورت حال پیدا ہو گئی تو حکومت چلنی مشکل ہو گئی۔
آصف علی زرداری پی ڈی ایم کی توجہ اسی جانب مبذول کر رہے ہیں کیونکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران میں احتجاجی تحریک جس درجے پر پہنچ چکی ہے، لانگ مارچ اور استعفوں جیسے آخری آپشن کو پہلے استعمال سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن اگر حکومت کو مزید زچ کرنا مقصود ہے تو اس کے لیے دباؤ میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ جیل بھرو مہم تحریک کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ کر سکتی ہے۔ حزب اختلاف کی تحریک کے جواب میں حکومت نے جو پتے کھیلے ہیں، اس پس منظر میں حزب اختلاف کی حکمت عملی میں بھی تبدیلی کی ضرورت تھی، زرداری صاحب نے تحریک کا رخ اسی جانب موڑنے کی کوشش کی ہے۔
آنے والے دنوں میں ہم پی ڈی ایم کی تحریک کا بدلتا ہوا رنگ دیکھیں گے جس سے اس کی شدت اور حکومت پر دباؤ میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔