سو (100) سال پرانی بات ہے۔۔۔۔۔سردی کا موسم، کڑا کے کا جاڑا، رات کے بارہ ایک بجے ہوں گے، بازاروں میں سناٹا۔
اسی دوران جامع مسجد دہلی کے باہر ہلکے ہلکے ایک بگھی (گھوڑا گاڑی) آئی اور جنوبی دروازے کی سیڑھیوں کے پاس ٹھہر گئی ۔ اس میں سے ایک صاحب باہر نکلے۔ سیڑھیوں پر جو لوگ سکڑے سکڑے پڑے تھے، گاڑی میں سے لحاف نکالتے اور ہر ایک کو آہستہ سے اوڑھا دیتے۔ جب سب کو اڑھا چکے تو گاڑی ہلکے ہلکے ہرے بھرے صاحب کے مزار کی طرف چلی گئی۔
وہ صاحب ہندوستان کے نامور طبیب، سیاستدان اور کل ہند طبی کانفرنس کے بانی حکیم اجمل خان دہلوی تھے، جن کا آج (29 دسمبر کو) یوم وفات ہے ۔ ان کے جد امجد شہنشاہ بابر کے ساتھ ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔
حکیم اجمل 12 فروری 1868ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے قرآن حفظ کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے بڑے بھائی حکیم محمد واصل خاں سے طب پڑھی۔ اور اس علم میں اتنی دست گاہ پیدا کی کہ ملک کے طول و عرض میں مشہور ہو گئے۔ 1892ء میں نواب رام پور کے طبیب مقرر ہوئے۔ 1906ء میں طبی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ اسی سال مسلم لیگ کے قیام کی تائید کی۔ 1908ء میں حکومت ہند نے حاذق الملک کا خطاب دیا۔ دو مرتبہ یورپ کا سفر کیا۔
1912ء میں طبیہ کالج قائم کیا اور 1920ء میں جامعہ ملیہ کے منتظم اعلٰی مقرر ہوئے۔ کانگرس کی مجلس عاملہ نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک آپ ہی کی صدارت میں منظور کی تھی۔ 1921میں خلافت کانفرنس کی صدارت کی۔ قوم نے آپ کو مسیح الملک کا خطاب دیا تھا اور آپ دہلی کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔
ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے۔ ملکی سیاست میں آپ کی رائے خاص اہمیت رکھتی تھی۔ سیاسی مضامین کے علاوہ طب پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔
قیام پاکستان سے بیس سال قبل 29 دسمبر 1927ء کو ان کا دلی میں انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے ۔
آج کا ان کے نام پر اجمل دواخانے کی شاخیں پورے ملک میں موجود ہیں۔