ھمارا خطہ و علاقہ عموماً پیچلھے نصف صدی سے جنگوں و دھماکوں اور بارود و جنگ و جدل سے منسوب کیا گیا ہے حالانکہ امن و آشتی اور سکون و اطمینان علاقے و خطے کا اثاثہ اور شناخت رہا ہے بدقسمتی سے عالمی استعماری طاقتوں کی مداخلت کے باعث یہ خطہ و علاقہ اپنے روایتی دانش کو بروئے کار لانے کے بجائے المناک نظریاتی و فکری یلغار میں الجھ کر رہ گیا اگرچہ اقتصادیات کی مجموعی کمی اور اپنے فکر و دانش کو نئے علمی و تحقیقی سانچے میں نہ ڈالنے کے باعث بالآخر ھمارے معاشرے الجھاؤ کے شکار ہو کر متنازعہ بن گئے ہیں جس کے نتیجے میں روایتی قبائلی روایات اور اقدار تھوڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی ساخت کو نہیں بچا سکے۔
لمحہ موجود میں یعنی 21 ویں صدی کے علمی و سائنسی ترقی و خوشحالی کے سامنے بھی ھمارے ممالک بحیثیت مجموعی بے بس نظر آتے ہیں اور خود آپس میں بے اعتمادی کی مجموعی روئیے کے شکار ہیں،یہ ایک مربوط اور منظم تجزیے کا تقاضا کرتی ہے جس کے لئے حکومتوں کے ساتھ دانش و بینش رکھنے والے سوسائٹی اور اداروں کو بھی اسے یقینی طور پر ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔
مجلس فکر و دانش نے اسی بنیادی ضرورت اور احساس ذمہ داری کے تحت پاک افغان ایران اقبال ڈائلاگ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فورم تشکیل دیا ہے جس کی افتتاحی تقریب نومبر 2020ء میں پاکستان ایران اور افغانستان کے سنگم پر واقع علمی و فکری مکالمے کے مرکز کویٹہ میں کیا گیا اور یقنیی طور پر یہ احساس اور ادراک کا سفر اسلام آباد،کابل و جلال آباد اور تہران و مشھد سے ہوکر دہلی و ڈھاکہ اور استنبول و قطر سے ہوتے ہوئے ملایشیا اور وسط ایشیائی ریاستوں سے ہوتے ہوئے چین و روس کے مراکز دانش و حکمت تک رسائی کا سفر طے کرنے کی تگ و دو میں مصروف عمل رہے گا۔
اس نقشہ کار کو اختیار کرتے ہوئے 21 ویں صدی کے 21 ویں سال شروع کرتے ہوئے علاقے و خطے کے تین حصوں میں مثبت تبدیلی اور ممکنات کی دنیا میں سے مادی ترقی اور خوشحالی کے آرزو مندی لئے اعتماد و بھروسہ کے ماحول کی عکاسی و تشکیل سازی میں انتہائی شاندار اور معتبر قدم بڑھانے کی خوشخبریاں مل پارہے ہیں جسے ہم زخمی اور آرزو دہ مردوں و خواتین اور بچوں و نوجوانان وطن کے ساتھ شئیر کررہے ہیں۔
پہلی خوشخبری ایران و افغانستان کے درمیان ہرات کے مقام پر ٹرین سروس کے افتتاحی قدم جسے بالآخر کابل،مزارشریف اور دوسرے افغان شہروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش و ضرورت ہے۔
دوسری بڑی خوشخبری ایران و پاکستان کے درمیان گوادر کے ساحل پر گبد ریمدان کے علاقے میں ایران کے ساتھ طویل سرحد یعنی 945 کلومیٹر ایریا میں تفتان بارڈر پوائنٹ کے بعد دوسرے ویزاء پروسیسنگ سینٹر کا افتتاح ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان ریلوے لائن اور سڑک کے ذریعے رابطے کی صورت اختیار کرنے کے بعد دونوں بندرگاہوں یعنی گوادر و چابہار کے درمیان بھرپور رابطوں اور تجارتی فوائد حاصل کرنے کے مواقع فراہم ہوں گے۔
تیسری خوشخبری جو اگرچہ ابھی مبہم انداز میں پیش کی گئی ہے مگر انتہائی شاندار اور وسیع مواقع فراہم کرنے والی ہے یعنی کوئٹہ چمن ریلوے لائن کی افغانستان کے سنگم پر واقع سرحدی شہر اسپین بولدک تک رسائی حاصل کرنا ہے اگرچہ یہ فاصلہ صرف 11 کلومیٹر ہے اور قندھار تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت پاکستان نے کرونا وائرس سے متاثرہ سال 2020 ء میں ہی چمن کے ساتھ بادینی باڈر ٹریڈ سینٹر اور پوائنٹ بھی اوپن کیا ہے جو یقنیی طور پر تجارت اور کاروبار کے بڑھوتری کے ساتھ اعتماد سازی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے، اگرچہ چمن بارڈر پر انتہائی ناخوشگوار واقعات نے فضا کو زخم خوردہ کردیا ہے جس کی تلافی اور مستقبل میں اس طرح کے بے رحمانہ اور بے مقصد ماحول پیدا نہ کرنا حکومتی اور دفاعی اداروں دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے پاکستان میں بارڈر ٹریڈ کے قوانین انتہائی کمزور اور سفاکانہ ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی دینا کی ضرورت اور احساس کے پیشِ نظر قوانین میں جوہری اور بنیادی تبدیلیاں لائی جائے تاکہ ترقی و خوشحالی کی جانب پیش قدمی ممکن ہو سکے۔
تاریخ کے اوراق سے ایک دو واقعات اور دلائل مستعار لیتے ہیں ورنہ اس خطے کی مجموعی ترقی و خوشحالی ہر دور میں ایک دوسرے سے مربوط و مبسوط رہی تھی کابل یونیورسٹی کے افتتاح اور نئے زمانے کی تمدنی و تہذیبی چاشنی و علمی اسلوب اختیار کرنے کے لئے وسیع مشاورت کی خاطر افغانستان کے دیدہ ور حکمرانوں نے خصوصی طور پر مفکر اسلام شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال لاھوری رحمۃ اللہ علیہ کو ہی اپنے دو معزز اور ممتاز فلسفیوں و دانشوروں سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ دعوت دی گئی تھی۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال لاھوری کے سفر کابل میں کی گئی بنیادی تصورات اور زندہ نظریات آج بھی افغانوں کے ساتھ پاکستان کے لئے بھی قابل تحسین و آفرین کے لائق ہیں ایران ترکی اور پاکستان کے درمیان ریلوے لائن اور آر سی ڈی شاہراہ کی تعمیر ماضی قریب کی کوشش تھی۔ اس لئے تینوں ممالک کے درمیان مشترکات زیادہ اور مسائل و مشکلات کم ہی واقع ہیں ایک جوہری اور بنیادی نوعیت کا مسلہ افغانستان میں امن کی سنجیدہ اور آبرو مندانہ کوشش و قیمت ہے جسے اب افغانوں کے ساتھ خطے کے ممالک کو سنجیدگی اور متانت کے ساتھ لینا چاہیے افغانوں کا یہ شک و شبہ اور گلہ و زخم ،کہ استعمار اور ظالمانہ قوتوں کے ساتھ ہمارے بربادی میں اپنوں اور قریبی دوست نما ہمسایوں نے بھی شرارتیں کی ہیں، اسے اب کھلے دل کے ساتھ بڑے فن اور انسانیت کے تقاضوں کے مطابق تسلیم کرنا چاہیے تاکہ مکالمے و ڈائیلاگ کا راستہ کھول دینے کی ابتدائی اور ذھنی رکاوٹیں دور ہوسکیں۔
لمحہ موجود میں 21 ویں صدی کے 21 ویں سال کے آغاز پر کورونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری میں یہ تینوں خوشخبریاں تینوں ممالک کے کروڑوں انسانوں کے لئے نیک تمنائیں پیش کرتے ہوئے نئی دینا کے ضرورت اور احساس کے پیشِ نظر اپنے مخالفین کے خول سے باہر نکل کر اپنی دینا آپ پیدا کرنے کی جستجو اور تلاش قرار دیا جاسکتا ہے،