ADVERTISEMENT
رات کے آخری پہر کسی وقت محمود حسن صاحب کا پیامچہ ملا (اور میں نے صبح پڑھا) کہ ان کے والد گرامی کچھ دیر پہلے راہی ملک عدم ہو گئے ہیں۔ محمود حسن محمد حسن مثنیٰ کے بڑے صاحبزادے اور انہی کے حوالے سے میرے کرم فرما ہیں۔ مثنیٰ صاحب محمد حسن عسکری کے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کے انتقال کے ساتھ ہی عسکری برادران کا سلسلہ اختتام کو پہنچا۔ ان للہ وانا الیہ راجعون۔ رہے نام اللہ کا!
بھائیوں میں عسکری صاحب سب سے بڑے تھے ان کے بعد بتدریج محمد حسن مثنیٰ، ناصر خاتون (بہن)، محمد حسن ثالث اور محمد حسن رابع تھے۔ یہ گھرانہ قیام پاکستان کے بعد اکتوبر 1947 میں لاہور آیا اور کرشن نگر میں اس گلی کے آخری مکان میں قیام پذیر ہوا جہاں بعد میں ناصر کاظمی کو گھر ملا تھا۔ بھائیوں میں سب سے پہلے انتقال محمد حسن عسکری کا جنوری 1978 میں، حسن ثالث کا 2009 میں، حسن رابع کا 2018 میں اور اب 22 دسمبر 2020 کو محمد حسن مثنیٰ کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کی پیدائش 10 جون 1926 کی تھی۔ اس اعتبار سے انہوں نے بھائیوں میں سب سے طویل عمر، 94 برس پائی۔ ابھی ان کی صرف ایک بہن ناصرہ خاتون زندہ ہیں جو امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔ عسکری صاحب جب تک پیر الہی بخش کالونی میں رہے اس بہن کا قیام بچوں سمیت انہی کے ہاں رہا تھا۔
مثنی صاحب جب پاکستان میں آئے تو الہ آباد سے ایم اے انگریزی کر کے آئے تھے۔ شروع کے چند سال تو وہ اپنی والدہ اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ لاہور میں عسکری صاحب ہی کی زیر کفالت رہے مگر 1950 میں عسکری صاحب کے کراچی چلے جانے کے بعد انہیں لاہور ہی میں پاکستان ٹائمز میں ملازمت مل گئی اور غالباً پاکستان ٹائمز، پشاور ہی سے وہ 1999 میں ریٹائرڈ ہوئے۔ پچھلے بیس بچیس برس سے ان کا قیام اسلام آباد میں تھا۔ 2004 میں اسلام آباد ہی میں میرا ان سے تعارف اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو ابھی ایک عدد مہینہ پہلے تک متواتر جاری رہا۔ آخری ایک ڈیڑھ برس چھوڑ کر مثنیٰ صاحب کی صحت بہت ہمیشہ بہت اچھی رہی تھی۔ سوائے بڑھاپے کی کمزوری کے وہ اکثر ٹھیک ہی رہے۔ ان سے آخری ملاقات ابھی مہینہ بھر پہلے ہوئی تھی۔ ان کی نحیفی کے پیش نظر ہیں میں نے ان کے ہاں جانا کم کر دیا تھا۔ پچھلے سال دسمبر میں شعبہ اردو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام، کی جانب سے جب ہم نے عسکری صاحب کے صد سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کیا تو مثنی صاحب اس میں آنا چاہتے تھے مگر کمزوری کے باعث تشریف نہ لاسکے۔ اپنے سارے گھرانے کو انہوں نے تاکید کر کے اس میں شرکت کے لیے بھیجا تھا۔
آٹھ نو مہینے پہلے 2020 کے آغاز میں فروری مارچ میں ان کی بیگم کا انتقال ہو گیا تھا اور اب 2020 کے اختتام پر وہ خود بھی چل بسے۔
سن 2004 میں جب میں نے عسکری صاحب پر اپنے کام کا آغاز کیا تو ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ 2007 میں جب میں اپنا مقالہ مکمل کیا تو اس کے پیش لفظ میں مثنیٰ صاحب کا ذکر کیا تھا:
“عسکری کے برادر خورد محمد حسن مثنٰی محبتوں اور کرم نوازیوں کا عجیب بحر بے پایاں ہیں۔ اِس دوران ان سے بہت سی ملاقاتیں اور لمبی لمبی نشستیں ہوئیں۔ عسکری کے گھریلو خاندانی حالات، بچپن اور دور طالب علمی کے واقعات، ان کے لڑکپن کی سرگرمیاں، والدین اور بھائی بہنوں سے عسکری کا میل جول، ان کے مطالعے اور فلموں کے شوق ،گھر آکر چھوٹے بھائی کے سامنے ایکٹنگ کے ساتھ فلموں کے مکالمے بولنے اور انہیں اپنی دلچسپیوں میں شریک رکھتے ہوئے ان کی تربیت اور روز مرہ کے معمولات و طور طریقوں کی کتنی ہی یادیں تھیں جن سے مثنٰی صاحب نے گھنٹوں تک مجھے مستفید کیا اور عسکری کی زندگی کے ان پہلوؤں سے آشنا کیا جو کسی اورذریعے سے ممکن نہ تھے ( میرے پاس یہ سب کیسٹ میں محفوظ ہے)۔ اس پر مستزاد کچھ نایاب تحریریں ،آڈیو کیسٹ پر منقش آوازیں اور پھر لذیذ کھانے، دور دوبئی سے آئی ہوئی مٹھایوں سے تواضع اور واپسی پر ویگن کے اڈے پر چھوڑنے آنا، پھر کوئی نئی بات یاد آنے پر اسلام آباد سے حسن ابدال فون کرنا؛ ان مدارات کا نام محمد حسن مثنٰی ہے، جو عسکری کے بھائی ہیں اور آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ٨٠ برس کی عمر میں بھی بفضل خدا ایسا اچھا حافظہ پایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی انہیں پوری تفصیل کے ساتھ یادہوتی ہے۔ خدا نہیں صحت و عافیت عطا کرے”۔
مجھے مثنیٰ صاحب کی جس خوبیوں نے ہمیشہ بہت متاثر کیا ایک تو ان کا کسی واقعے کی جزئیات تک کو محفوظ رکھنے والا بے مثال حافظہ تھا اور دوسری ان کی مہمان نوازی اور واپسی پر مہمان کی مشائعت کے لیے دور تک پیدل چلتے آنا اور جب تک مہمان آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے اس کے لیے وہیں کھڑے رہنے کی ادا تھی۔ اب ایسی روایتوں کے امین لوگ کہاں باقی ہیں۔
گزشتہ برس عسکری پر اپنی ایک کتاب کی تیاری کے دوران کچھ معلومات کے سلسلے میں میں ان سے رابطہ ہوا تو اس کا تذکرہ یوں لکھا تھا:
“عید کے روز حسب معمول رات کو مثنٰی صاحب کا فون آگیا۔ مثنیٰ صاحب محمد حسن عسکری سے چھ برس چھوٹے ہیں۔ ان کی پیدائش 1926 کی ہے۔ اس وقت ان کی عمر 90 سال کے قریب ہے۔ ناطاقتی اور ضعف کے علاوہ ماشاءاللہ وہ اس دور کے لوازم و لواحق، شوگر اور بلڈ پریشر، سے بھی محفوظ ہیں۔
سالہا سال سے یہ انکی روایت ہے کہ عام دنوں کے علاوہ عیدین کے موقع پر وہ خاص طور پر فون کیا کرتے ہیں۔
ابھی چند روز پہلے ایک خاص مسئلے میں کچھ تفتیش اور جستجو کے دوران مجھے بتایا گیا کہ فلاں صاحب(جن کا نام دیکھنا فی الحال مناسب نہیں) جو کہ اب مرحوم ہو چکے ہیں ان کے پاس کسی صاحب نے، جو کہ ابھی بقید حیات ہیں، محمد حسن عسکری کے ذاتی کتب خانے کی کچھ کتابیں دیکھی تھیں۔ میں کچھ دنوں سے ایک مضمون کی تیاری کے سلسلے میں اس تجسس میں تھا کہ یہ کتابیں ان صاحب کے پاس کس ذریعے سے پہنچی ہونگی کیونکہ میری اب تک کی تحقیق کے مطابق اُن صاحب کا عسکری صاحب سے ایسا قرب کسی طرح بھی ثابت نہیں کہ عسکری صاحب انہیں اپنی ذاتی کتابیں دے دیتے۔ مثنیٰ صاحب سے بھی اس معاملے کا ذکر آیا۔ انہوں نے ان مرحوم بزرگ کے عسکری صاحب سے تعلق اور ان تک رسائی کے ہر ممکن امکان کی نفی کی۔
اسی پچاسی سال پرانی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے مثنیٰ صاحب نے بتایا کہ
«جب پاکستان بنا اور عسکری بھائی نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا تو اکتوبر 1947 میں پہلے پہل وہ اکیلے ہی لاھور آئے تھے اور ایک آدھ ماہ بعد ہم تینوں بھائی- محمد حسن مثنیٰ، محمدحسن ثالث اور محمد حسن رابع- بھی اپنی والدہ اور چھوٹی بہن ناصرہ( مثنیٰ صاحب سے تین برس چھوٹی ہیں اور آج کل امریکہ میں مقیم ہیں) کے ساتھ پاکستان چلے آئے تھے۔ جب ہم نے پاکستان آنے کی تیاریاں شروع کیں اور اسٹیشن پہنچے تو افراتفری اور رش کی وجہ سے ہمارا کچھ سامان میرٹھ اسٹیشن پر ہی رہ گیا تھا۔ اس سامان میں میں کچھ تھوڑے سے عام استعمال کے کپڑے لتے تھے اور باقی بہت سی عسکری بھائی کی کتابیں تھیں جو ہم لوگوں نے ڈبوں میں بند کرکے پاکستان لے آنے کیلئے رکھی تھیں مگر شومئی قسمت ہم اس سامان کے بغیر ہی پاکستان پہنچے تھے۔ بعد میں ہم نے وہاں رہ جانے والے اپنے بعض اقارب کو لکھا کہ ہمارا جو سامان اسٹیشن پر رہ گیا ہے وہ فلاں صاحب، جو پاکستان آ رہے ہیں ان کے ساتھ گاڑی میں رکھوادیں۔ وہ صاحب ہمارے دور پار کے عزیز ہی تھے۔ میں تو انہیں جانتا تھا مگر عسکری بھائی نے انہیں نہیں دیکھا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ کپڑوں اور کتابوں کے وہ ڈبے ان کے ساتھ گاڑی میں رکھوا دیے گئے ہیں۔ وہ صاحب کراچی تو پہنچ گئے مگر وہ سامان ہمیں پھر کبھی نہیں ملا۔ عسکری بھائی کو زیادہ دکھ اپنی کتابوں کے ضائع ہوجانے کا تھا مگر یہ دکھ اس وقت دو چند ہو گیا جب کافی عرصے کے بعد ان میں سے کچھ کتابیں عسکری بھائی کو کباڑیے کے ہاں نظر آئیں جو انہوں نے خرید لیں۔ ان پر عسکری بھائی کا نام اور الہ آباد یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے کے ان کے ہاتھوں کے لگے نشان بھی تھے» “
تو صاحبو یہ تھے محمد حسن مثنیٰ جن کا رات انتقال ہوگیا۔
ڈاکٹر سہیل احمد خان نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ اپنے تمام بھائیوں میں عسکری کی جسمانی مشابہت اور آواز کی مماثلت سب سے زیادہ مثنی صاحب کے ساتھ تھی۔ میرے صوت خزانے میں مثنیٰ کی بہت سی سی آوازیں محفوظ ہیں بوقت فرصت اسکا کچھ نمونہ وقت پیش کروں گا۔