گاڑی لندن کی کسی سڑک پر رواں دواں تھی اطراف میں خوبصورت مناظر تھے، روڈ پر ٹریفک کا ڈسپلن قابل ستائش تھا، صاف سڑکیں ترتیب میں بنی دکانیں، خوبصورت بس اسٹاپ پیدل چلنے والے تک اپنی طرف کے گرین سگنل کے بعد روڈ کراس کر رہے تھے کہیں پر کسی پولیس والے کا کوئی وجود نہیں تھا میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اتنا ڈسپلن ان میں کس طرح آیا کہ ایک ایسی سڑک جس کے دائیں بائیں سے بھی کوئی نہیں آرہا تھا وہاں بھی سگنل کی پابندی کی جا رہی تھی، پھر تھوڑی دیر میں مجھے اس بات کا جواب ایک زور دار چیخ کی صورت میں ملا جب میرے کزن نے یہ قیاس کیا کہ میں نے گاڑی کی کھڑکی کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ریپر کو پھینکنے کے لیے کھولا ہے جبکہ میرا ایسا قطعی طور پر پہ کوئی ارادہ نہیں تھا،مگر میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ اتنی زیاد قدر کرتے ہیں اپنی سڑکوں کی ایک کاغذ کے سڑک پر گرنے کے خدشہ پر اتنا زور سے چلائے، انہوں نے فرمایا بھائی، اگر کوئی کچرا سڑک پر پھینک دے تو کئی پونڈ جرمانہ ہو جاتا ہے، میری میں سمجھ گیا کہ یہ سڑک کی صفائی سے زیادہ جیب کی صفائی کا خوف تھا اور اسی جرمانے کا خوف ایک وقت آتا ہے کہ صفائی ڈسپلن دوسروں کے حقوق کے خیال کو ان کی عادت بنا دیتا ہے اور وہ ہر کام میں حکومت کی دی گئ ہدایت پر عمل کرتے ہیں اور یہ میں نے اس طرح محسوس کی کہ جو لوگ ایک کام جرمانے کے خوف سے نہیں کرتے وہ ہی کام ان ہی کے وہاں پیدا ہوکر بڑے ہونے والے بچے عادتاً اور اپنا فرض سمجھ کر کر رہے ہوتے ہیں ڈسٹ بن میں re cycle کچرے کی بن الگ ہوگی اور تلف کیے جانے والے کچرے کی الگ روڈ کے کس سائڈ پر پارکنگ ہو سکتی ہے اور کس طرف نہیں، دبئی کی مثال لے لیں آپ روڈ کراس کرنے کے لیے قدم رکھیں اور گاڑیاں رک جائیں گی، وطن عزیز میں موٹر وے پر سارا قانون اپنے جوبن پر عمل درآمد ہوتے ہوئے نظر آتا ہے یہ ہم ہی ہوتے ہیں جو اسپر سفر کرتے ہوئے ہر قانون پر عملدرآمد کرتے ہیں 700 روپے کے جرمانے کا خوف بہت سے لوگوں کو معزز شہری بنائے رکھتا ہے موٹر وے سے اترتے ہی خود کو سیٹ بیلٹ کی قید سے آزاد کر دیا جاتا ہے مگر اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی یہ سیٹ بیلٹ پھر سے عزت پا لیتی ہے، کراچی کی شاہرا فیصل پر بھی سیٹ بیلٹ کی عزت قائم رہتی ہے مگر اسکے بعد یہ سلسلہ بند ہو جاتا ہے، ساری بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں قانون ایمانداری اور سختی سے اپنے کردار کو ادا کر رہا ہوتا ہے وہاں سب اچھا ہوتا ہے مگر جہاں رٹ آف law چند پیسوں کے عوض بیچ دی جاتی ہے وہاں جنگل قائم ہو جاتا ہے، جب میں نے اپنے پڑوس میں رہنے والے تقریباً ستر سال کی عمر کے بزرگ سے ان کے ہاتھ پر پلستر کے بارے میں معلوم کیا تو فرمانے لگے کہ بیٹا ایک بائک والا مار کر چلا گیا میں نے کہا کہ آپ فٹ پاتھ پر کیوں نہیں چلتے انہوں نے فرمایا بیٹا تم کو کہیں پر بھی فٹ پاتھ نظر آتا ہے، اس سوال کو آگے بڑھاتے ہوئے میں آپ سب کی توجہ اس معاملے کی طرف دلانا چاہتا ہوں ہوں کچھ دیر کے لیے سڑکوں پر ہونے والی لوٹ مار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کچرے اور ابلتے ہوئے گٹروں کے درمیان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ان پر تعمیر کی گئی ناجائز عمارتوں کے تذکرے کو چھوڑ کر توجہ دیتے ہیں کہ ہم سے ہمارے فٹ پاتھ کیوں چھین لیے گئے ہیں اور لوگوں کو ایسا کرنے کی اجازت کس نے دی ہے کون ہے جن کی وجہ سے شہری سڑکوں پر چلنے کے لیے مجبور ہیں اور حادثات کا شکار ہو رہے ہیں آوازہ کی آواز وقت کے ساتھ بلند ہو رہی ہے میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ ہمارے فٹ پاتھ واپس کرو کے نام سے مہم کا آغاز کریں محترم فاروق عادل بھائی کی رسائی آگے تک ہے وہ اس مسئلے کو ارباب اختیار تک تحریر کے علاوہ ہر وہ پلیٹ فارم جس کا وہ حصہ ہیں کے ذریعہ آگے بڑھائیں چھوٹے چھوٹے کام ایک دن بہت بڑے کارنامے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں آییے عوام کو ان کا فٹ پاتھ پر چلنے کا حق دلوائیں اس کے لیے نہ تو کوئی رقم درکار ہے اور نہ کوئی بجٹ فٹ پاتھ موجود ہے مگر اس پر کسی کا جنگلہ ہے تو کسی کی دکان اور اس کے لئیے کسی توڑ پھوڑ کی ضرورت بھی نہیں بس تھوڑا سا جاگنے اور جگانے کی ضرورت ہے قانون کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعہ لاگو کرنے کی ضرورت ہے آج جرمانوں کے ذریعہ اس کو نافذ کروائیں کل یہ دل سے کرنے والا کام ہو جائے گا
جو تم چلو تو ابھی دو قدم میں کٹ جائے
جو فاصلہ مجھے صدیوں میں سفر کرنا ہے