سال گذشتہ کے آخر میں جب کورونا کی وباء دنیا کے سامنے آئی تو ہمارے ہاں سازشی نظریات اور نہ جانے کس کس قسم احمقانہ تھیوریاں گردش میں تھیں جن پر ہنسنے سے زیادہ رونے کو جی چاہتا تھا۔
یہاں تک کہ ہمارے وزیراعظم بھی اسے معمولی فلُو قرار دینے پر تُلے ہوئے تھے۔ خوش قسمتی سے اس وباء کا پہلا ریلہ ہمارے ہاں نسبتا کم نقصان کے ساتھ گذر گیا تو سازشی نظریات کے چورن فروشوں کی زبانیں اور آزاد ہو گئیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت سے زیادہ نااہل، نکمی اور لاپرواہ حکومت شاید پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھی گئی۔ اس وجہ سے انکی اس وباء کے مقابلے کی تدابیر نیم دلانا رسمی اور غیر تسلسل کے ساتھ رہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے عبادت گاہوں اور بعض کاروباری مقامات پر کورونا کے ایس او پی کے عملدرآمد پر اصرار لیکن دوسری طرف سرکاری سیاسی بلکہ مخصوص مکاتب فکر کے اجتماعات کو کھُلی چھٹی دیکر پہلے ہی شبہ میں مبتلا عوام کو مزید کنفیوز کردیا گیا اوپر سے ہمارے سیاسی و مذہبی چورن فروشان نے بھی بجائے مرض یا وباء کو سمجھ کر عوام کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے احتیاط کی تلقین کرنے کے شک کی آگ کو جان بوجھ کر پھیلانے میں پورا حصہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔
جتنی بھی سازشی تھیوریاں سامنے آئیں ان پر کسی تحقیق کی زحمت بھی گوارا کیئے بغیر جھوٹ کو آگے بڑھا کر ہی نیکی کمائی جاتی رہی کہ مجموعی طور پر بطور قوم ہمیں تحقیقی مزاج محرومی نہ سہی تو قلت کا سامنا ضرور ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کی کھلے دل تحقیقات کی بجائے اپنے پسندیدہ مفروضات قائم کرکے اس حق میں دلائل اکھٹے کئے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ مزید خرابی۔
اس معاملے کو پہلے امریکی صدر ٹرمپ بھی چینی سازش یا لاپرواہی کے طور پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے، اس کے لئے نصف صدی قبل شائع ہونے والے ناول کو بطور دلیل بھی استعمال کیا گیا جس میں چین کے شھر ووہان (جہاں سے کورونا وائرس شروع ہوا تھا) کی لیبارٹری کے کسی خوفناک جرثومے کے پھیلاؤ میں کردار کا ذکر کیا گیا تھا۔
ہمارے ان لوگوں کو جو درحقیقت یہودیوں سے دشمنی کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ یہود سے ذہنی مرعوبیت کے شکار ہیں اس لئے، بجائے مصائب کا عقل ہمت وحوصل سے سامنا کرنے کی بجائے کا کسی بھی مصیبت کے ڈانڈے ان تک ملا کر پروپیگنڈہ کرنے ہی میں خوش رہنا پسند کرتے ہیں۔
اس لئے اگلی قسط میں کورونا کے نام کو توریت سے تلاش کرکے اس مرض اور وبا کو یہودی سازش ثابت کرنے اب اس لفظ میں کیا صداقت ہے کم از کم یہ فقیر توریت سے تحقیق کرنے سے قاصر کہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی تو ہم پڑھ سکتے ہیں لیکن عبرانی ہمارے بس کی نہیں۔
ہمارے عوام چونکہ کورونا کے نام سے حالیہ وباء کے دوران واقف ہوئے ہیں اس لئے انہیں نئے چورن کی پھُکّی کھلانا آسان ہے، ورنہ درحقیقت کورونا وائرس کم از کم از کم ایک صدی سے موجود ہے لیکن اس کی اقسام میں زیادہ تر معمولی نزلہ زکام پیدا کرتی ہیں۔ اس وائرس کی چند جان لیوا اقسام میں MERS اور SARS پہلے ہی موجود تھیں 2003 میں SARS کی وباء میں دنیا بھر سے 8000 افراد متاثر ہوئے اور 811 اموات ہوئیں دلچسپ بات یہ ہے موجودہ COVID-19 کی طرح یہ وباء بھی چین ہی سے شروع ہوئی تھی۔ موجودہ کورونا وائرس یا COVID-19 بھی اسی کی ایک بہت زیادہ خطرناک و جان لیوا قسم ہے۔
اب جب محققین اس وائرس کی ویکسین تلاش کے دعوے کرنے لگے تو شوشل میڈیا پر ایک نئی کہانی گردش کرنے لگی کہ ووہان کی وہ لیبارٹری جس پر وائرس پھیلانے کا شبہ کیا ہے۔درحقیقت امریکی دواساز کمپنی گلیکسو اور فائیزر کی ملکیت ہے ۔(فائیزر دنیا کی پہلی کمپنی ہے جس نے کامیابی کے ساتھ اس وائرس کے لئے ویکسین بنانے کادعوی کیا)۔اور نہ جانے کتنے بین القوامی اداروں کو لپیٹ کر ایک پوری سازشی کہانی کا تانا بانا بُن دیا گیا۔
لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ ووہان کی جس لیبارٹری پر کورونا وائرس کی ابتدا کا شبہ کیا گیا تھا اسکا نام Wuhan Institute of Virology جو کہ کسی بین القوامی کمپنی نہیں بلکہ چین کے سرکاری ادارے چائنیز اکیڈمی برائے سائنس کے زیر انتظام ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ابھی تک اس دعوے کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی کہ وائرس کی ووہان کی لیبارٹری ہی اس وائرس کے پھیلاؤ کی اصل ذمہ دار تھی۔۔۔ووہان کی اس لیبارٹری پر امریکی صدر ٹرمپ نے الزام لگانے کی کوشش کی تھی لیکن بات چلی نہیں۔
بین الالقوامی ادارہ برائے صحت بھی اس وائرس کے اصل منبع کی تحقیقات کررہا ہے، لیکن ان تحقیقات میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں اس بات کے امکان ہیں کہ تحقیقات اسے تلاش کرنے میں ناکام رہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر واقعی یہ وائرس فائیزر کی سازش ہے تو چین کو امریکہ سے اتنی “محبت “ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کے سامنے گھسیٹ کر نہ کھڑا کرے؟ لیکن چین نے تو ٹرمپ کے دعوے کی تردید تو کی لیکن جواب میں کسی بھی امریکی یا یوروپی ادارے پر الزام عائد نہیں کیا اور باقی دنیا نے بھی اسے تسلیم کیا۔
اس وقت تین کمپنیوں نے وائرس کی ویکسین بنانے کا دعوی کیا ہے۔ اس میں فائیزر کی ویکسین بڑی حدتک کامیاب تو لگ رہی ہے لیکن اس کی ترسیل میں عملی مسائل کاسامنا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اسے رکھنے کے لئے منفی 70 ڈگری کے درجہ حرارت کی ضرورت ہے، یعنی اس کے رکھنے اور نقل وحمل کے لئے موجودہ ریفریجریٹر اس ٹمپریچر تک نہیں سنبھال سکتے۔
یعنی اس ویکسین کی نقل وحمل کے اخراجات دولت مند ممالک تو شاید برداشت کرسکیں لیکن غریب ممالک کے لئے ایسے انتظامات کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اس وجہ سے مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے ٹھیک ٹھاک مشکلات کا سامنا ہے ۔
چند دنوں پہلے سمیع ابراہیم کے شو میں صاحب لال ٹوپی جناب زید حامد دعویٰ کررہے تھے کہ تحقیقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے یہ ویکسین انسانی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے اور خواتین کو بانجھ کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
کوئی ہم کو بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
جو ویکسین ابھی چند دنوں قبل ہی لوگوں کو لگوانی شروع ہوئی ہے (گذشتہ ہفتے برطانیہ پہلا ملک ہے جس نے اس کا عوام کے لئے استعمال شروع کردیا ہے) ۔۔ اور اس کے بارے میں اس قسم کی تحقیقاتی رپورٹس بھی شایع ہو گئیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی رپورٹیں کسی بھی دوا یا ویکسین کے استعمال کے مہینوں یا سالوں بعد ہی سامنے آتی ہیں نہ کہ چند دنوں میں۔
یاد رہے کہ یہی بات پولیو کی ویکسین کے بارے میں بھی اُڑائی گئی ہے اس سے تولیدی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس افواہ کے نتیجے میں ہمارے اور بعض دیگر ممالک میں پولیو ورکرز کا قتل اور ان پر حملے شروع ہو گئے اور اب پاکستان میں پولیو کی ویکسین لگانے کے لئے باقائدہ مسلحہ محافظوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔
یہ تو صرف بانجھ پیدا کرنے کی حد تک بات ہورہی ہے تو بعض حضرات نے تو یہاں تک اُڑائی ہے کہ اس ویکسین کے بہانے لوگوں کے جسم میں کوئی ایسی چِپ داخل کردی جائے گی لوگوں کے دل و دماغ سے دین اور اللہ کو مٹادے گی۔ یہ اتنی خوفناک اور شر انگیز افواہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جو ہو جائے وہ کم ہے۔
حقیقت یہ ہے یہ ویکسین جو انتہائی لاچارگی کی حالت میں جاری کی جارہی ہے۔ عموماً کسی بھی دوا یا ویکسین کی منظوری میں پانچ چھ سال کا وقت لگتا ہے۔ لیکن اس طوفان کی شدت کی وجہ سے مجبوراً اس کے ممکنہ طویل المدت نقصانات کو سمجھے بغیر جاری کردیا گیا ہے
ابتدائی طور پر اس کے فوری فوائد و نقصانات دیکھے جارہے ہیں لیکن اس کے طویل المدت نقصانات کیا ہوں گے اس کا تعین وقت ہی کر سکے گا۔
ویسے بھی ابتدائی طور پر یہ ویکسین برطانیہ، یوروپین یونین ،امریکہ، اور جاپان ہی استعمال کریں گے کہ اطلاعات کے مطابق فائیز نے یوروپئین یونین ، امریکہ اور جاپان و برطانیہ کے ساتھ اس ویکسین کے ایک ارب سے زائد کی تعداد میں فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔
اگر ان ممالک نے اپنے معاہدات کے مطابق ساری ویکسین حاصل کرنے پر اصرار کیا تو کم از کم ایک سال تک دنیا کا کوئی اور ملک اس ویکسین کو حاصل نہیں کرسکے گا، اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ کسی نہ کسی بین القوامی مفاہمت کے تحت دیگر ممالک کو بھی کچھ نہ کچھ ویکسین فراہم کی جاسکیں۔
لیکن اس سلسلے میں بھی چونکہ اس ویکسین کے لئے منفی 70 ڈگری کا درجہ حرارت چاہیے ہوتا ہے جو عام ریفریجریٹر کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے مطلوبہ پیمانے پر اس کی نقل و حمل کی انتظامات کے لئے جدید ترین ریفریجرشین کیپسٹی کا حصول بھی فضائی کمپنیوں اور کم از کم غریب ممالک کے لئے تو فی الحال ایک بہت بڑا سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔
اس وقت تک (13 دسمبر2020) کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تک دنیا بھر میں کورونا سے ہونے والی 16 لاکھ سے زائد اموات میں سے ٹاپ 25 ممالک کی فہرست جہاں 14 لاکھ سے زائد اموات ہوئی ہیں ایران ، انڈونیشیا، اور عراق سمیت صرف چار مسلمان ممالک شامل ہیں جن کی ٹوٹل اموات ایک لاکھ کے قریب ہے اس میں بھی نصف سے زائد اموات ایران میں ہوئی ہیں۔
ان نمبروں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف سازش کی تھیوری تو دفن ہو جانی چاہیے لیکن میرا کورونا وائرس اور ویکسین کے بارے میں سازشی نظریات کے چورن بیچنے والوں سے سوال ہے کہ یہ کیسی سازش ہے جو ہے تو مسلمانوں کے خلاف لیکن سب سے زیادہ اموات کا شکار اور اب ویکسین بھی سب سے پہلے انہی یہودی و عیسائی ممالک کے لوگ ہی ہورہے ہیں۔
ابھی تک جو بات سامنے آئی ہے ایف ڈی اے نے اس ویکسین کو حاملہ خواتین اور 16 سے کم عمر کے بچّوں کے لئے منظور نہیں کیا کہ ان پر تجرباتی استعمال کے بارے میں ناکافی مواد ہے یہ صرف احتیاطی طور پر کیا جارہا ہے ورنہ ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی تحقیق سامنے نہیں آئی ہے۔
برطانیہ میں فائیز کی اس ویکسین کے استعمال کے بعد دو افراد میں شدید الرجک ری ایکشن کی بھی اطلاع ملی ہے اس لئے شدید الرجی کے مریضوں کواس ویکسین سے احتراز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
لیکن ابھی تک اس ویکسین کے اثرات میں خواتین کے بانجھ ہونے (جوکہ زید حامد نے دعوی کیا ہے) کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ ویسے بھی ابھی تک یہ ویکسین بڑے پیمانے پر استعمال ہی نہیں ہوئی تو پھر زید حامد کو اس قسم کی درفتنی اُڑانے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟
مجھے خدشہ ہے کہ اس قسم کے پروپیگنڈے کے ذریعے اگر ویکسین ہمارے ہاں پہنچ بھی گئی تب بھی ہماری سڑکوں پر ویکسین لگانے والے کارکنان کے ساتھ پولیو ورکروں والا سلوک کرانے کے لئے زمین تیار کی جارہی ہے جن کے مقاصد کم از کم میری عقل و فہم سے بالاتر ہیں کیا یہ واقعی سازش ہے یا خالص جہالت؟
حال ہی میں پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ جس میں طبقہ علماء و مدارس کے کچھ اصحاب متاثرہوئے ہیں اس کے نتیجے میں جامعہ الرشید کے مہتم مولانا عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی کے آڈیو میسجز گشت کر رہے ہیں جن میں اس وباء کے بارے میں احتیاط کی تلقین کی جارہی ہے۔ اس پر میں صرف یہی عرض کرسکتا ہوں کہ تری آواز مکے اور مدینے۔
اس کے ساتھ ہی بصد احترام یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وباء یا مرض دنیا میں تقریباً ایک سال سے اور ہمارے ملک میں تقریباً دس ماہ سے موجود ہے، لیکن ہمارا دینی طبقہ اس وقت تک بڑی حدتک اس کا ٹھٹھا اُڑا کر بڑی حدتک عوام میں تشکیک پھیلانے میں پیش پیش تھا۔ آج جب آگ قدموں تلے پہنچنے لگی ہے تب ۔۔۔ خیر دیر آید درست آید۔
اس کے باوجود دونوں قابل احترام علماء کے آڈیو پیغامات میں ماسک پہنے کی تلقین تو کی گئی ہے، لیکن اس مرض کو روکنے کے لئے صرف ماسک ہی نہیں بلکہ سماجی فاصلے رکھنے کا اہتمام بھی لازم ہے، میری علماء حضرات سے دست بستہ درخواست ہے، کہ جب اس مرض کی حقیقت تسلیم کرہی لی ہے تو بجائے نیم دلانا ماسک کے عوام کو مکمل احتیاط کی تلقین فرمائیں تاکہ جہاں تک ممکن ہو اس مرض سے بچاؤ کیا جاسکے۔
آخر میں یہ بات دھرانا ضروری ہے چونکہ یہ ویکسین طبی طریقہ کار کو انتہائی مختصر کر کے متعارف کرائی رہی ہے۔ اس کے طویل المدت فوائد اور نقصانات سوالیہ نشان ہیں اور رہیں گے۔ لیکن نتائج دیکھے بغیر دعوے کرنا شرارت اور چورن فروشی ہے۔مناسب یہ ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے، کورونا کے سارے ایس او پی پر عمل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ سوائے اشد ضرورت کے ویکسین لینے سے احتراز کیا جائے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فائیزر کی ویکسین کو عوام تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے یہ خبر آچکی ہے کہ انہیں انتہائی کم درجے ٹیمپریچر میں رکھنے کی وجہ سے ترسیل و نقل وحمل کے مسائل کا سامنا ہے اس لئے شاید توقع سے آدھی تعداد میں فراہم کی جاسکے ۔
ایک خوشخبری یہ ہے کہ ایک دوسری کمپنی Moderna نے بھی اپنی ویکسین کے کامیاب تجربے کا دعوی کیا ہے ان کے مطابق 95 فیصد افراد جنہیں تجرباتی طور لگائی گئی ہے کورونا سے محفوظ رہ پائے۔اس ویکسین کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لئے درجہ حرارت عام فریج کے لئے قابل استعمال ہے۔ Moderna نے بھی FDA سے منظوری کے لئے درخواست دی ہوئی ہے جس کا فیصلہ 17 دسمبر کو متوقع ہے۔ اگر اسے منظور کرلیا گیا تو واقعتاً فائیزر کی بہ نسبت Moderna کی عام قبولیت کے امکانات روشن ہیں۔ چند اور کمپنیاں بھی اس ویکسین کی تحقیقاتی دوڑ میں شامل ہیں، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ نے بھی اپنی ایک ویکسین کے تجرباتی استعمال میں 70 فیصد تاک کامیاب نتائج کا دعوی کیا ہے۔ لیکن اس پر مزید کام جاری ہے۔ کسی بھی کامیابی کی صورت میں توقع ہے کہ اگلے سال کے اواخر تک دنیا میں مختلف کمپنیوں کی ویکسینیں میدان میں موجود ہوں گی اور ان شاء اللہ دنیا اس وباء کے چنگل سے نکل آئے گی۔
ابھی ابھی سنگاپور کے وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ سنگاپور بھی فائیزر کی ویکسین اس ماہ کے آخر تک حاصل کرلے گا۔ ابتدائی طور پر یہ ویکسین طبی عملے، ضعیف العمر آبادی کا وہ حصہ جو اس وباء سے نسبتا زیادہ خطرے میں سمجھا جاتا ہے کو دی جائیں گی لیکن رفتہ رفتہ پوری آبادی کو ویکسین دی جاہے گی۔
لیکن سنگاپور نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صرف ایک کمپنی کی ویکسین کی بجائے مختلف کمپنیوں کی ویکسین حاصل کرکے استعمال کرے گا دلچسپ بات یہ ہے۔ چونکہ ویکسین کے محفوظ ہونے پر شبہات ظاہر کئے جاتے ہیں اس لئے سب سے پہلے سنگاپور کے وزیر اعظم و کابینہ اپنی ویکسینیشن کرائے گی۔ تاکہ عوام کے دلوں میں ہونے والے شبہات کو دور کرکے ویکسین کے محفوظ ہونے کی یقین دہانی کرائی جاسکے۔
ایک سے زائد پروڈکٹس مارکیٹ میں ہونے کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ سازشی چورن کے دوکاندار کسی ایک پروڈکٹ کے بارے میں شکوک پھیلانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تب بھی اس کے متبادل ویکسینیں دستیاب ہوں گی۔
اس وقت تک۔۔۔ احتیاط احتیاط اور صرف احتیاط