ایک خواب, ایک عزم, ایک مشن اور پھر اس کو حاصل کرنے کی جدوجہد مگر اس نے یہ سب کچھ ان لوگوں کے درمیان میں رہ کر سوچا جنہوں نے عبدالستار ایدھی صاحب کو بھی نہیں بخشا، اثابے بنانے، اپنے لوگوں کو نوازنے، ملکی سیاست کو اور اس کے وسائل کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کے درمیان اس نے فیصلہ کیا کہ میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا اور وہ اس پر کاربند ہے، ہمیشہ کسی نہ کسی طرح اقدار میں رہنے والوں نے سوچا کہ اس کو بھی سیٹ کر لیں گے مگر ان کی ایک نہ چلی، اس نے دس سال پرانے ساتھی کو چھوڑ دیا کیونکہ الزام اس پر کرپشن کا تھا.
اس وقت جب مختلف صوبوں میں رہنے والوں کو ہیلتھ کارڈ مل رہے ہیں تو میں خوش ہوں کہ کہیں سے تو ابتدا ہوئی، اگر سستے مکانوں کی تعمیر کے مراحل شروع ہوئے ہیں تو تکمیل تک بھی پہنچے گے، اندیشوں، وسوسوں اور شک کی دنیا میں رہنے والوں کو اس کے وعدے صرف اس لئیے وفا ہوتے نظر نہیں آتے کہ ان کی تکمیل میں ان کے لیے کچھ نہیں، اس کے وعدے پورے ہونے میں ان کو اپنے آئندہ اقتدار میں آنے کی امید پر ضرب لگتی محسوس ہوتی ہے، ایک بات جو تواتر سے کی جاتی ہے کہ عمران خان اپنی کہ ہوئی بات سے پھر جاتے ہیں تو پھر چلیں ذرا ایک فہرست بناتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے کس لیڈر نے ماضی میں ایسا نہیں کیا، تو پھر آپ فرمائیں گے کہ ان میں اور عمران خان میں فرق کیا ہے، تو جناب عمران نے اگر کسی بات کو بول کر کچھ اور کیا تو اس میں مفاد ملک کا تھا، مگر اوروں نے تو اپنے اپنے مفادات کے لیے سب کچھ کیا، عمران خان سیاست دان نہیں یہ اس کا سب سے بڑا قصور ہے، سفید کو سفید اور کالے کو کالا بول رہا ہے یہ قابل معافی نہیں اپنی بجائے ملک اور قوم کی فلاح کے لیے سوچ رہا ہے یہ ہی اسکی غلطی ہے، بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو مقبول تو ہوئی مگر قابل عمل نہیں تھیں. مثلاً گورنر ہاوس، وزیراعظم ہاوس اور پریزیڈنٹ ہاوس کو یونی ورسٹی بنانا، تو ایسا نہ کرنے سے کوئی بہت بڑا نقصان نہیں ہوا۔ اب صرف ایک کام کر لیں عمران خان صاحب اپنے چند مشیروں اور وزیروں کو گالی نما زبان استعمال کرنے سے روک دیں تو سارے لوگ ٹھنڈے ہو جائیں گے، مشیروں اور وزیروں کے دلوں کو چھلنی کرتے اور تیز وتند طنزیہ اور نفرت سے بھرے ہوئے بیان نہ کہ صرف اپوزیشن کے لیڈر بلکہ ان کے followers کو بھی بہت زیادہ بھڑکانے کا کام کرتے ہیں اور اس طرح نفرت کے جواب میں نفرت آتی ہے آپ جب اپوزیشن میں تھے تب بھی آپ کی جارحانہ گفتگو کے جواب میں نواز شریف صاحب آپ کو اپنے. جواب میں عمران خان صاحب کہتے تھے آپ کے چند مشیروں اور وزیروں کو فواد چوہدری صاحب سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ وہ اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت ہیں عمران خان صاحب پر خلوص ہیں عوام کا درد رکھتے ہیں بے شک وہ کسی کو معاف نہ کریں مگر مقدمات کی منصفانہ تکمیل کو ممکن بنائیں کیونکہ حاکم کا کام انصاف فراہم کرنا ہے، اور اپوزیشن سے درخواست ہے کہ وہ سارے کام جو ان کے لحاظ سے عمران خان صحیح کر رہے ہیں اس کو کرنے میں حکومت کو سپورٹ کریں اگر آپ ایسا کریں گے تو ممکن ہے آپ کی تنقید بھی قابل قبول ہو جائے اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر کرونا سے نمٹنے کے لئے موثر حکمت عملی اپنائیں یہ عوام کا اپنی قیادت پر حق ہے عمران خان صاحب اپنی ٹیم پر نظر ثانی کریں تاکہ آخر میں انہیں یہ نہ کہنا پڑے
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں