بنے بھائی کی عرفیت سے مشہورسید سجاد ظہیر 5 نومبر 1905 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئےتھے۔ وہ لکھنو یوپی کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آکسفرڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ 1932ء میں انھوں نے ’’انگارے‘‘ کے نام سے اپنے اور اپنے ہم ذوق دوستوں کا ایک افسانوی مجموعہ مرتب کیا جس نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچادی ۔ 1936 میں انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی جس نے جلد ہی ملک گیر مقبولیت اختیار کرلی۔قیام پاکستان کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کی روشنی میں سید سجاد ظہیر پاکستان تشریف لے آئے اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی قیادت کی ذمے داری سنبھال لی۔ ابھی یہ پارٹی اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں تھی کہ 1951ء میں راولپنڈی سازش کیس کے نام سے حکومت وقت کا تختہ الٹنے کا ایک مقدمہ قائم کیا گیا۔ اس بغاوت کے مقدمے میں سجاد ظہیر کے ساتھ جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ان میں جنرل اکبر خان، جنرل نذیر احمد، ایئرکموڈور جنجوعہ، بریگیڈیئر صدیق خان، بریگیڈیئر لطیف، لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب، لیفٹیننٹ کرنل ضیا الدین، میجر محمد اسحاق، میجر حسن خان، کیپٹن ظفر اللہ پوشنی، کیپٹن خضر حیات اور محمد حسین عطا کے علاوہ مشہور شاعر فیض احمد فیض شامل تھے۔نازونعم میں پلے بڑھے سید سجاد ظہیر نے اسیری کی تمام مشکلات کو پامردی سے جھیلا اور ثابت کردیا کہ اگر انسان اپنے نظریات میں صادق ہو تو یہ عارضی مشکلات اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔1955 ء میں سجاد ظہیر کو جیل سے رہائی مل گئی جس کے بعد سید سجاد ظہیر بھارت چلے گئے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں متحرک ہوگئے۔ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنی ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔سید سجاد ظہیر پانچ کتابوں کے مرتب اورمصنف بھی تھے جن میںانگارے، لندن کی ایک رات، پگھلا نیلم،روشنائی اور ذکر حافظ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بے شمار افسانے، مقالےاور دیگر مضامین بھی تحریرکیے۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک ادب سے وابستہ رہے اور بالآخر 13 ستمبر 1973 کو ال ماتے قازقستان میں ایک افرو ایشین ادبی کانفرنس کے دوران حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔