جمیل عباسی عرف جیم عباسی اردوکے نوجوان قلم کارہیں۔جن کی کہانیاںپہلے پہل اردوکے منفردادبی جریدے ”آج ”میں اشاعت پذیر ہوئیں،جس کے بعدان کی کہانیاں چند برسوں میں آج کے علاوہ کئی اورادبی جرائدمیں شائع ہوکرقارئین کی بھرپورتوجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔یقین سے کہاجاسکتاہے کہ سندھ کے دیہی پس منظر میں اتنی موثرکہانیاں اس سے پہلے منظرعام پرنہیں آئیں۔”زرد ہتھیلی اوردوسری کہانیاں” جیم عباسی کی کہانیوں کا پہلامجموعہ ہے جو”آج” ہی نے شائع کیاہے۔جبکہ ”آج” کاشمارہ 114جیم عباسی کے پہلے ناول ”رقص نامہ ” پرمشتمل ہے۔”رقص نامہ ”کوآج نے کتابی صورت میں بھی شائع کردیاہے۔جیم عباسی کااصل نام جمیل عباسی ہے ۔ وہ 1978ء میں سندھ کے چھوٹے شہرکنڈیارومیں پیداہوئے،جواس وقت ضلع نواب شاہ میں شامل تھااوراب نوشہروفیروزضلع کاحصہ ہے ۔انھوں نے کنڈیاروہی میں مذہبی نوعیت کی تعلیم حاصل کی اوروہیں پرورش پائی اوربعدمیں پہلے حیدرآباد اورپھرکراچی منتقل ہوگئے جواب ان کامستقل گھرہے۔
اجمل کمال اردوکے خاموش اورپسِ پردہ محسنین میں شامل ہیں۔وہ چاردہائیوں سے جریدہ ”آج” کے ذریعے اردوقارئین کودنیابھرکے ادب سے متعارف کرا رہے ہیں۔ آج نے اردوکوبرصغیرپاک وہندکے کئی ادیبوں سے متعارف کرایایاان کاایک نیاروپ قارئین کے سامنے پیش کیا،بعض گمشدہ ادیبوں کی بازیافت کی۔جن میں سید محمداشرف،نیرمسعود،ذکیہ مشہدی،فہمیدہ ریاض،خالدطور،حمیدشیخ،صدیق عالم،صائمہ ارم ،سیدکاشف رضا،رفاقت حیات،اورجیم عباسی شامل ہیں۔آج میں ہندی ہی نہیں بنگالی،ملیالم،کنٹر،مراٹھی،تلیگوہی نہیں بلکہ دنیابھرکے عربی،فارسی، جرمن، انگریزی،فرانسیسی،اسپینش ،پرتگالی اورلاطینی امریکی ادب کے تراجم شائع کیے گئے۔خصوصاً مختلف زبانوں کے ناولزپہلی مرتبہ اردوقارئین کو پڑھنے کاموقع ملااور پہلی بارگابریئل گارسیا ماکیز،ہیرٹامولر،میلان کنڈیرا،اوکتاویوپاز، اتالو کلوینو ، ہاروکی موراکامی،حوان رلفو،چنوااچیبے ،بریخت، آئزک باشیوس سنگر،خولیولیا مازاریس،سوزن سونٹاک،نجیب محفوظ، ویکیوم محمد بشیر،نرمل ورما ، ریشارد کاپوشنسکی،اورحان پامک،اوکتاویوپاز،جے ایم کوئنٹری، جیسے بے شمارناول نگاروں سے اردوقاری” آج” کے ذریعے ہی متعارف ہو سکا۔
جیم عباسی بھی ایسے ہی ادیب ہیں۔جن سے پہلی بار’آج’ نے قارئین کومتعارف کرایا۔”رقص نامہ” جیم عباسی کاپہلاناول ہے۔اس سے پہلے ان کی کہانیاں آج اوردوسرے رسالوں میں شائع ہوکرپڑھنے والوں کی دلچسپی اورتوصیف کاموضوع بن چکی ہیں۔ان کہانیوں کامجموعہ ”زردہتھیلی اوردوسری کہانیاں”گذشتہ سال شائع ہوااوراسے کہانیوں کی اہم کتاب کے طورپرسراہاگیا۔ناول پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ جیم عباسی کوفکشن کی دونوں اصناف کہانی اورناول کی تخلیقی اورتیکنیکی باریکیوں پرابتداہی سے ماہرانہ گرفت حاصل ہے،اوردوسری طرف اس خیا ل کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایک مخصوص انسانی معاشرے کے کسی مرکزی تھیم پرپہلوداراورتخلیقی غوروفکر کے لیے ناول ہی موزوںترین ہیئت ہے۔”رقص نامہ”میں ہمارے سماج میں تاریخی اورثقافتی طور پررچی بسی تھیم ۔مذہبیت۔کے کرداروں کے سماجی سیاق وسباق اوران کی انفرا دی تقدیرپراثراندازہونے کے عمل کواس کے تمام ترتنوع کے ساتھ پیش کیاگیاہے اوراس خوبی سے کہ قصہ گوئی کالطف کہیں ماندنہیں پڑتا۔ جیم عباسی کی کہانیاںپڑھنے والوںکومحسوس ہوا،اوریہ ناول پڑھتے ہوئے اس احساس کواورتقویت ملے گی ،کہ ان کواپنے اردگردکے مانوس ماحول کی گہری ہمدردانہ داخلی واقفیت حاصل ہے،اوروہ تفصیلات کے حساس انتخاب اورایکشن اورمکالموںکے ذریعے کرداروںکی تشکیل کے ذریعے اس واقفیت کوپڑھنے والوں تک پہنچانے کی غیرمعمولی قدرت رکھتے ہیں۔جیم عباسی کی کہانیوں اوراب اس ناول کے ذریعے سندھ کی دیہی معاشرت کی اردوفکشن میں کامیاب اورکشش انگیزپیشکش نے تیزرفتاری سے ایک مستحکم مقام حاصل کرلیاہے۔
”رقص نامہ” سے جیم عباسی کے وسیع مطالعے ،تاریخی شعور،سندھ کی ثقافت سے جڑے ہونے کابھی اندازہ ہوتاہے۔سندھی کلچرمیں تصوف سے گہری وابستگی،شاہ عبدالطیف بھٹائی اورسچل سرمست کے کلام کے اثرات کااس ثقافت کی تشکیل میں اہم کردارہے اورجیم عباسی نے ناول کے مباحث میں ان سب پہلوؤں کواس عمدگی سے بیان کیاہے کہ کہیں بھی تحریرکالطف ماندنہیں پڑتااورقاری کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ ان کی کردارنگاری اورجزئیات نگاری بھی حیران کن ہے۔ہرکردارپڑھنے والے کوجیتاجاگتانظرآنے لگتاہے۔صوفی کی محفل میں رام داس اور ملاجمن کی نوک جھونک دلچسپ بھی ہے اوراس نوک جھونک میں کئی چشم کشاحقائق انتہائی عام فہم انداز میں بیان کردیے گئے ہیں۔ناول پر تصوف کاگہرارنگ چھایاہواہے۔سندھی الفاظ کے برمحل استعمال اورحاشیے میں ان کے معنی دے کراردوکے دامن کوبھی مصنف نے وسیع کیاہے۔کسی اردوناول میں اس سے قبل سندھی تہذیب وثقافت کواس عمدگی سے شایدہی کبھی بیان کیاگیاہوگا۔ان سب کے لیے جیم عباسی قارئین کی بھرپورمبارک باد کے مستحق ہیں۔
ناول کااہم ترین کردارالحاج پیرسیدسائیں عبدالرحمن شاہ ہے۔جوایک پیراورایک گاؤں کاکرتادھرتاہے،جہاں اس کے نافذکیے ضابطے قانون کادرجہ رکھتے ہیں اورجن سے انحراف کی کسی میں جرأت نہیں ہے۔سائیں کے گھرکاپوراماحول ،پیرخانے کارہن سہن،گھرکی خواتین کی ذمہ داریاں ، قوانین اوراس پرعمل درآمداورسزاؤں کاطریقہ کارمصنف نے اس خوبصورتی سے پیش کیے ہیں کہ قاری کی نظرمیں ہر منظر مصور ہوکرسامنے آجاتاہے اورکئی جگہ وہ محسوس کرتاہے کہ وہ یہ سب پڑھ نہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے۔سائیں کے گھراورگاؤں میں سات سال سے بڑے ہر بچے پرپنج وقتہ نمازباجماعت اورگیارہ سال کے بچے پرتہجدکی نمازاداکرنالازمی ہے۔گھرکے ہرمرد کوپنج وقتہ نمازاورتہجدکے لیے مسجداورخواتین کوگھرمیں ادائیگی نمازلازمی ہے۔جس کاباقاعدہ حساب رکھاجاتاہے اورکسی نمازمیں غیرحاضر فردکو جوابدہی کرناپڑتی ہے۔ گاؤں کے افرادبلاضرورت واجازت نہ شہرجاسکتے ہیں اورنہ وہاں کی کوئی چیزلاسکتے ہیں ۔ گھروں میں اپنی اگائی پاک گندم ،اپنے جانوروں کادودھ ،دہی اوراس سے بناہواگھی اوردیگراجناس ہی استعمال کی جاتی ہیں۔حتیٰ کہ چولہے کی لکڑی بھی باقاعدہ پاک کی جاتی ہے اوراس پاک لکڑی پرپکاکھاناہی کھایاجاسکتاہے۔پیرسائیں کی کوئی مرید دعوت کرتاہے تواسے پیرخانے سے تمام اجناس اورلکڑی فراہم کی جاتی ہے جن کی قیمت مرید اداکرتاہے۔اپنے جس مرغ ،بکری کوذبح کرکے پیرسائیں کوپیش کیاجاتاہے۔اسے تین دن پہلے سے ایک جگہ بندکرکے پاک رکھاجاتاہے تاکہ وہ کوئی حرام شے نہ کھالیں،ان تمام امورپرسختی سے عمل کے لیے مخصوص افرادتعینات ہیں جوناصرف ان پابندیوں پرعمل کراتے ہیں بلکہ سائیں کی اجازت سے سزادینے کابھی اختیاررکھتے ہیں۔مجموعی طور پراردوکے معروف ناولوں کے برعکس ”رقص نامہ” میںپیرسائیں اوران کے علاقے میں مذہبی اقدارکے سختی سے نفاذکے علاوہ دیگرخرابیوںاورمذہب کی آڑ میں بے اعتدالیوں کاذکرنہیں ہے۔البتہ سائیں کے بڑے بیٹے ہاشم شاہ جوبعدمیں گدی نشین بھی بنا،کی کچھ بداعتدالیوں کاتفصیلی ذکرکیا گیاہے۔کیونکہ اسی پس منظرمیں ہاشم شاہ کاسوتیلے بھائی سلیمان شاہ سے سلوک پیش ہوناتھا۔
ناول کامرکزی کردارسلیمان شاہ ہے۔جس کی عمرگیارہ سال کے آس پاس تھی،اسی لیے اس سال اسے تہجدپرجگایاجانے لگاتھا ورنہ اس سے پہلے سات برس کی عمرسے اس پرپانچ وقت کی نمازباجماعت،باعمامہ،بامسواک پڑھنالازم تھی۔سائیں عبدالرحمان شاہ کی تین بیویاں تھیں۔سلیمان شاہ کی بڑی ماںسے ایک بیٹا،ایک بیٹی،دوسری ماں سے دوبیٹیاں،اورتیسری اورآخری اس کی ماں ،جس سے وہ اکیلا تھا ۔ باقی بہن بھائیوں میں صرف ایک بہن اس سے چھوٹی تھی جودوسری ماں سے سال بھرپہلے پیداہوئی تھی۔
”ایک مرتبہ جب خدیجاں چھوٹی تھی لیکن اسے گڈے گڑیاسے کھیلنے کی اجازت نہیں تھی،تب مائی شریفاں نے اس کے لیے مٹی کاگھربنا یاتھا ، جس میں لوگ،ان کے کمرے،اونٹ،کتابھی تھے۔وہ ان کے سوکھنے کاپورادن گھرکے پچھواڑے انتظارکرتی رہی،وہ ابھی پوراسوکھا نہ تھا تو ان کے باپ پیرسیدعبدالرحمٰن شاہ اس طرف آگئے۔اس کومورتیوں سے کھیلتے دیکھ کراتناغصہ ہوئے کہ اس کوچھڑی ماری۔اپنے عصا سے گھروندے اورمورتیوں کوتوڑدیا۔مائی شریفاںکوخدمتگاری سے توجواب ملالیکن اس ناقابل معافی جرم پراس کے پورے خاندان کوگاؤں نیکالی کاحکم دیاگیا۔وہ سائیں عبدالرحمٰن کے قوموں میں ڈوپٹہ ڈال کرزاروقطارروتی رہی۔باہراس کاشوہرمسجدکے پاس سائیں کی جوتی اتا رنے کی جگہ پراپنی پگڑی ہاتھ میں کیے بیٹھارہا۔”
ایک اوراقتباس کے مطابق ”چہرے پرکالک ملے اورگلے میں جوتیوں کاہارڈالے فردسائیں کے قدموں میں گرگیا۔سائیں بولے۔یہی ہے ناوہ جس نے نظام کی خلاف ورزی کی تھی؟سارے دیکھ لواس کاحال۔بے دین،بے ادب ،گستاخ! بے دینی والے کام کرتاہے۔شہرکاناپاک گھی لاکرکھا تاہے بے حیا۔اس طرح اندرپاک ہوگا؟ یہ جوسارانظام ہے یہ کس کے فائدے کے لیے ہے؟اس گاؤں میں وہ رہے گاجواپنے باطن کو پا ک رکھے۔اورباطن تب پاک ہوگاجب شہرکی بنی ناپاک چیزوں سے دوررہاجائے گا۔اسی لیے اپناگھی بناتے ہیں،اپنی چکی لگائی ہے کہ بے نمازی لوگوں کے آٹے والی چکی میں ہماراآٹانہ پسے۔یہاں وہ رہے گاجوان باتوں کی پابندی کرے ۔ورنہ یہ ہمارااعلان ہے ،منھ پھیر کر جوجائے،رستہ درازہے۔لے جاؤاس بدبخت کو۔
گاؤں کے سخت قوانین کااندازہ ان اقتباسات سے بخوبی کیاجاسکتاہے۔ناول کے مرکزی کردارسلیمان شاہ کی ماں برکت ماچھی کی بیٹی ہونے کے باوجودخالہ خالوکے گھررہتی اوراسکول میں پڑھتی تھی۔پڑھالکھاخالواسے ڈاکٹربناناچاہتاتھا۔خالہ زادملہارسے اس کی بے تکلفی تھی۔لیکن اس کاباپ محمدسومارسائیں کامریدہوگیااوربیٹی کوزبردستی اپنے گھرلے گیا۔ماں بیٹی کوپردہ کرادیا۔برکت کی واپسی کے دوسال بعدسومارنے سائیں کی اپنے گھردعوت کی۔دعوت کے لیے تین دن سے ٹوکرے میں قیدتھے۔سائیں کے بیٹھنے کاکمرہ دھویاگیا۔ہرچیز پاک کی گئی۔دعوت کے چندروزبعدسائیں نے سومارکوبلابھیجا۔ملاقات سے پہلے سائیں کے لانگری نے اس سے کہاکہ ہماراسارامقام سائیں کی وجہ سے ہے۔ورنہ ہماری نیکی تقویٰ بھلاکیاہوگا؟حاجی صاحب کودیکھ لو۔اپنے گاؤں کاوڈیرا۔کئی سو ایکٹرزمین ،کسی چیزکے کمی نہیں ۔پھربھی سائیں کادربان بنابیٹھاہے۔اپنی جان مال سب مرشدپرقربان کردی۔اس کاصلہ بھی ملا۔مرشدنے حاجی صاحب سے رشتہ بنالیا۔مرشدسے ناتاہونابڑے نصیب کی بات ہے۔کئی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ سائیں سے رشتہ ہوجائے۔سائیں کے پاس سورشتے چل کرآئے پرسائیں نے سب کوجواب دے دیا۔اداسومار،سائیں جوتمہارے گھرآئے،وہاں انھوں نے جونیکی پاکائی دیکھی اس نے انھیں بہت راضی کیا۔تمھاراگھرانہ اپنی مثل آپ ہے۔بات یہ ہے اداسومارکہ سائیں مرشدکوتمھارے ہاں رشتہ کرنے کااشارہ ملاہے اپنے لیے۔اب تم اگرخودآگے بڑھ کرعرض کروتواچھاہے۔ہم بھی سفارش کریں گے امیدہے سائیں تمھاری بیٹی کارشتہ قبول کریں گے۔
یوں برکت سائیں کی تیسری بیوی بن گئی۔شادی کے بعدگھریلوبیویوںمیں برکت ماچھن ہی کہلاتی رہی۔اس کے بیٹے سلیمان شاہ کوبھی وہ عزت نہ مل سکی۔ایک مرتبہ لانگری کی بیوی حضوراں مائی کوسائیں کے کمرے سے نکلتے دیکھ کربرکت نے اسے چورسمجھ کرڈانٹا۔توسائیں نے کہا،تجھے معلوم نہیں اس گوٹھ کی طرف کوئی چوری کرنے آئے تواندھاہوجائے گا،تواپناعقیدہ درست کر،ورنہ جہنم میں جاپہنچے گی۔حضورا ں مائی ہماری چوتھی بیوی ہے۔سمجھی۔ہم توعلی الاعلان نکاح کرناچاہتے تھے پرحاجی بے وقوف نے بولا،بظاہرلانگری کی بیوی ہومگرنکاح آپ کے میں ہو۔ہم اس بے وقوف کی بات پرعمل کربیٹھے ،ہم شرع کے مطابق چوتھی شادی کرناچاہتے تھے۔اس نے کہا،لوگ باتیں کریں گے۔ہم بھی بھول بیٹھے۔
ان چھوٹے چھوٹے واقعات سے دین کی من مانی تعبیر،پیرہاؤس کاماحول مصنف نے بہت عمدگی سے پیش کیاہے۔بیماری کے نتیجے میں سائیں کاانتقال ہوگیاتوہاشم شاہ گدی نشین بن گیا،جودین کااتناعلم بھی نہیں رکھتاتھاجوسائیں کوتھا۔اس کے کردار،قول وفعل میں بھی تضاد تھا ۔اس لیے حاجی صاحب کی مدد سے کم ازکم میٹرک پاس سلیمان شاہ کی گفتگواورخطاب لوگوں کوزیادہ بہترمحسوس ہوا،توہاشم شاہ اس کے درپے ہوگیا اوربرکت نے بیٹے کی جان خطرے میں دیکھ کراسے خالہ زادملہارکے پاس بھیج دیا۔جس نے اسے صوفی حیدربخش کے حوالے کردیا۔ناول”رقص نامہ” کادوسراحصہ زیادہ دلچسپ اورتصوف،مذہب وتاریخ،کلچرسے بھرپورہے۔صوفی حیدربخش کاکرداربہت جیم عباسی نے بہت عمدگی سے تشکیل دیاہے،یہ کرداراردوادب کے چندزندہ جاویدکرداروں میں شمارکیاجائے گا۔صوفی کی محفل میں شامل ملا جمن اوررام داس بھی دلچسپ کردارہیں۔ان کی باہمی بحث اورصوفی کی جانب سے ان کی وضاحت انتہائی معلومات افزاہے۔جس سے قاری کوسندھی کلچرکی خوبیاں،شاہ عبدالطیف بھٹائی اورسچل سرمست کے کلام میں موجودمذہبی رواداری،وحدت الشہوداوروحدت الوجود کے مباحث کوجیم عباسی نے اس خوبصورتی سے پیش کیاہے کہ قاری پرہربات واضح ہوجاتی ہے۔مولاناروم کی مثنوی اوراس کی شرح،منصورکے اناالحق کے نعرے کی حیقیت ،سندھ کے مختلف اداوارمیں ہوئے اقدامات،کلہوڑے کہاں سے آئے،سندھ میں کس کس نے کب کب حکمرانی کی۔کس کادورکیساتھا۔ان سب موضوعات پرمصنف نے اپنے وسیع مطالعے کاثبوت دیاہے۔سلیمان شاہ کاکردار سندھی لوک فنکارسیدسلیمان شاہ سے متاثرنظرآتاہے۔جس پرسیدہوتے ہوئے رقص کرنے پرشدیداعتراضات کیے گئے۔”رقص نامہ” مولاناروم کے رقص کی علامت بھی نظرآیا۔دیہی کلچرمیں مذہب سے وابستگی اوراس کے لیے انتہاپسندی کاعنصربھی عمدگی سے پیش کیاگیاہے ۔
مجموعی طورپر”رقص نامہ” اردوادب میں ایک اچھااضافہ ہے اورجیم عباسی نے اپنی کہانیوں کی مانندپہلے ہی ناول سے اپنی تحریرکی صلاحیت منوالی ہے۔جس میں کردارنگاری بھی بہت عمدہ ہے۔”رقص نامہ” کے ذریعے مصنف نے سندھ کی دیہی کلچر،مذہبی انتہاپسندی اورسماجی اونچ نیچ کی شاندارعکاسی کی ہے۔”رقص نامہ”کے بعدجیم عباسی کی مزیدتحریروں کاقارئین کوانتظاررہے گا۔