کیسے ہو بیٹا!
میں کئی روز سے سوچ رہا تھا کہ تمہارے ساتھ بات کروں، تم جب چھوٹے تھے اور ابھی بمشکل چلنا شروع کیا تھا ایک دن سیڑھی چڑھنے کی کوشش میں گر گئے، اتفاق سے میں نے تمہیں گرتے دیکھا مگر فاصلہ زیادہ ہونے کے باعث چاہتے ہوئے بھی تمہیں تھام نہ سکا، ایک اور موقعہ پر جب تمہارا سکول میں پہلا دن تھا، میں اپنے آپریشن کی وجہ سے موٹرسائیکل چلانہیں سکتا تھا، میں تمہیں بڑے بھائی فائز کے ساتھ سکول جاتے دیکھا کس طرح تم اپنا دایاں پاﺅں رکشے کے ٹائر پر رکھ کر اندر داخل ہوئے، مجھے اس کارروائی کی انتہائی خوشی ہوئی مگر میں بہت زیادہ دُکھی اور رنجیدہ ہوا کہ بیٹے کو خود سکول چھوڑنے نہیں جاسکا۔
ان دو واقعات کا ذکر میں نے اس لیے کیا کیونکہ میری زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ بیٹا۔ میں نے باپ کی حیثیت سے تمہاری بہتر پرورش کی پوری کوشش کی اور یہ فطری عمل ہے ، جسے ہر والد اپنی اولاد کے لیے کرتا ہے، مگر جہاں غفلت یا کمی کا عنصر آجائے دکھ اور افسوس ہونا بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔
امن۔ زندگی میں اس بات کا احساس کرلینا کہ تمہیں کسی کی مدد کرنا چاہئے اور پھر اپنے قول اور فعل کے ذریعے ایسا کرنا، یہ انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بناتا ہے، بلکہ زندگی میں مل جل کر آگے بڑھنے کی خواہش کو بھی تقویت دیتا ہے۔
بیٹا۔ مدد کرنے کے بے شمار طریقے اور ذرائع ہیں، دیکھو تم اس وقت پانچویں جماعت کے طالب علم ہو، اگر کوئی تم سے محلے میں رہنے والے کا پتہ پوچھتا ہے تم اُسے نہ صرف راستہ بتاتے ہو بلکہ وہاں تک پہنچنے میں بھی معاونت کرتے ہو، یہ تمہاری مدد بظاہر جسے فی زمانہ کہہ لیں کوئی بڑی بات نہیں، لیکن میں تمہیں بتاتا چلوں کہ یہ مدد کوئی معمولی نہیں، اگر وہ شخص مزید بھٹکتا رہتا یا اُسے کوئی درست پتہ نہ بتاتا تو جس پریشانی اور خواری کا اُسے سامنا کرنا پڑتا، اپنی منزل پر جلد اور بروقت پہنچنے کی صورت میں اسے اس کا اندازہ نہیں ہونا تھا۔
بیٹا۔۔ اس مدد کے ذریعے تم نے اُس شخص کو منزل تک پہنچایا۔ اب ایک قدم آگے، استاد کا کام علم باٹنا ہے، وہ اپنے طالب علموں کو ایسا درس دیتا ہے، جو کتابوں میں موجود نہیں ہے، جب استاد کسی بنیادی مسئلہ پر اپنی عقل اور فہم کے ذریعے وہ بات سمجھاتا اور اس کے اصل معنی بتاتا ہے تو یہ بھی مدد ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ استاد کے فرائض میں شامل ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا تو کوئی پوچھنے والا نہیں، ہاں اسے استاد کی غفلت سے ضرور تعبیر کیا جاتا ہے۔
امن۔ تمہیں یاد ہوگا جب تمہارے چھوٹے تایا کی وفات ہوئی اس وقت تم دو برس کے تھے، میں بہت رنجیدہ اور دکھی تھا، میرے ایک دوست نے آکر افسوس کیا اورمیرے انکار کے باوجود زبردستی میری جیب میں کچھ رقم ڈال گیا۔
اب میں تمہیں اس کی توجیہ بیان کرتا ہوں، اگرچہ ہر کسی کے مالی حالات ایک جیسے نہیں ہوتے اُس وقت میرے بھی اتنے بُرے نہیں تھے، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ خوشی اور غم کے ایسے لمحات میں اخراجات کا تعین مشکل ہوجاتا ہے۔ اب اس بات کو سمجھتے اور احساس کرتے ہوئے میرے دوست نے رقم مجھے دی، جس کا مطلب اور مقصد مالی طور پر مدد کرکے دکھ میں گھرے دوست کو ذھنی پریشانی سے نکالنا تھا۔
یہ مدد پیسے سے زیادہ ذہنی تھی لیکن اس کے نتیجے میں کیا ہوا کہ میرے نزدیک ناصرف اپنے دوست کی قدر بڑھ گئی بلکہ اُس کی یہ سوچ کا مجھ تک تبادلہ بھی ہوگیا۔ جب میں نے رقم واپس کی تو شکریہ کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ تمہارا محسوس کرنا میرے لئے تقویت کا باعث بنا۔
امن۔ بیٹا جب گھر میں ہوتے ہو تو اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتے تمہیں دیکھتا ہوں مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے، میں سوچتا ہوں کہ تم میں یہ احساس جلد آگیا ہے۔ ہم بھی اپنی والدہ کی گھریلو کام کاج میں مدد کیا کرتے تھے۔ حتٰی کہ کھانے پکانے میں بھی،
تم میری اس بات کو بھی سمجھ رہے ہوگے کہ میں مدد کی ایک ایسی تعریف کررہا ہوں جس میں دوسرے کو ذہنی آسودگی پہنچانا درکار ہے،
دیکھو امن اگر اس کا مذہبی حوالہ دیا جائے تو کسی کی بھی مدد کرنا اچھی بات ہے، محض اسے ہی بنیاد بنالیا جائے تو کوئی برائی نہیں۔ لیکن کئی بار ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ ہم نے مدد کرنے کا تعین کرلیا ہوتا ہے کن حالات میں کس کی مدد کرنی چاہئے یا فلاں فلاں کام کرکے ثواب ہوگا اس لیے کچھ باتیں نظرانداز ہوجاتی ہیں۔
دیکھو جیسے معلومات کو درست انداز میں دوسروں تک پہچانا بھی مدد کرنا ہے، اسی طرح حقائق بیان کرکے یا سچ بول کر بھی مدد کی جاسکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کو ہی لے لو، اس کی ذمہ داری بہت اہم اور حساس نوعیت کی ہوتی ہے، معلومات کی مکمل تصدیق کرکے لوگوں تک ان کی فراہمی ، اگر اس کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں تو پھر وہ مدد نہیں ہوگا بلکہ کسی حد تک دوسروں کو گمراہ کرنے کا جرم جس میں غلط اطلاعات کے ذریعے نہ صرف لوگوں کو پریشان کرنا اور منفی سوچ پیدا کرنا ہے۔
امن۔ تم جانتے ہو سچ اتنا طاقت ور اور مضبوط ہوتا ہے اور اس کا اظہار کتنا تقویت بخش ہے کہ تمہیں شائد اس کا اندازہ نہیں۔ میں نے اور تمہاری والدہ نے بھی اکثر تم سے کہا بیٹا جھوٹ نہیں بولنا ، یہ والدین کا فرض ہوتا ہے جسے سماجی فریضہ بھی کہہ سکتے ہو، کیونکہ گھر میں بچے کو دی جانے والی تربیت کے نتیجے میں کوئی بھی انسان سماج میں اپنے مقام اور راہ کا تعین کرتا ہے۔
تمہیں یاد ہے، ایک بار ہم سب اکٹھے آرہے تھے پولیس نے ہمیں روک کر پوچھا آپ سڑک پر واپس مڑکر دوبارہ آئے اس کی کیا وجہ ہے۔ تم نے ہی راستے میں جب کہا کہ میری کھلونا گاڑی گھر میں رہ گئی ہے تو میں نے کار موڑلی۔ فوراً بعد تم نے انکشاف کیا وہ موجود ہے۔ جب ہم اپنے راستے پر چلے تو میں نے پیشگی کہہ دیا تھا اب پولیس والے روک کر پوچھیں گے۔ پھر اُن کے پوچھنے پر میں کہہ دیا کہ میرا بیگ رہ گیا تھا جسے لینے کے لیے مڑے تھے مگر وہ گاڑی میں موجود تھا۔
امن ہم واپس گھر آئے تو چھوٹی بہن روشنی جو صرف پانچ سال کی ہے اُس نے مجھے کہا کہ آپ نے گاڑی کے بجائے بیگ کیوں کہا۔
تمہیں پتہ ہے وہ سمجھ گئی کہ میں نے غلط بیانی کی ہے، لیکن اُس کے معصوم ذہن میں یہی سوال تھا کہ کھلونا گاڑی کا کیوں نہیں بتایا گیااور میں نے آخر ایسا کیوں کیا؟
یہی وہ عمل ہے جس سے بچے کے ذہن میں غلط بیانی یا جھوٹ بولنے کی توجیح یا دلیل کی بنیاد پڑ جاتی ہے، میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ مصلحتاً ایسا کیا تھا کیونکہ تم ہی نے کہا تھا کہ اگر آپ اصل بات بتا دیتے تو کوئی نقصان نہیں ہونا تھا۔
شاباش امن۔ یہ وہ سبق تھا جو تم نے مجھے بڑی سادگی میں پڑھا دیا۔ جیتے رہو۔
میں نے دیکھا ہے تم اور روشنی دونوں دادا کا بھی بڑا خیال رکھتے ہو، اُن کے چھوٹے چھوٹے کام کرکے جو مدد کرتے ہو، یہ وہ عمل ہے جسے کبھی انہوں نے میرے لیے انجام دیا۔ تم سمجھ رہے ہوگے جب میں چھوٹا تھا اور قدم قدم پر اپنے والد کا ہاتھ تھام کر چلتا، وہ میری ہر خواہش کا دھیان رکھتے تھے۔ جیسے اب میں اور تمہاری والدہ کرتے ہیں۔ انہیں ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔ تم لوگ اُن کی کمزوری ہو ۔ بیٹا میں اپنی مصروفیات کے باعث انہیں زیادہ وقت نہیں دے پاتا۔
تم ابھی پیدا ہوئے تھے جب تمہاری دادی اماں فوت ہوگئیں وہ فائز سے بہت پیار کرتی تھیں۔ تمہاری پیدائش پر بے حد خوش تھیں ہمارے والدین اور بزرگوں کی نگاہیں ہم پر لگی ہوتی ہیں۔
امن بیٹا تمہیں ایک قصہ سناتا ہوں،
پہلے بتاﺅ تم بور تو نہیں ہورہے، کیونکہ مجھے معلوم ہے اب بچوں اور بڑوں میں لمبی بات سننے کی عادت اور ہمت کم ہوتی جارہی ہے لیکن میں جانتا ہوں تم نے ہمیشہ میری بات توجہ سے سُنی۔
ایک بار کسی گاﺅں میں سیلاب آگیا، تمام گھر فصلیں تباہ ہوگئے، کئی افراد ہلاک اور سینکڑوں بے گھر ہوگئے۔ اُس آفت کے گزرنے کے بعد اُن گاﺅں والوں نے خدا سے امداد کی دعا کی، چند ایک حکومتی نمائندے آئے وعدے کرکے چلے گئے۔ گاﺅں کے بزرگوں نے کہا کہ انہیں گناہوں کی سزا ملی کوئی اسے خدا کا عذاب قراردیتا۔ لیکن ایک دانش مند شخص نے لوگوں کو اس بات پر قائل کر لیا کہ یہ سب کچھ اگرچہ قدرت کی جانب سے ہوا ہے۔ لیکن رونے دھونے اور ہاتھ پے ہاتھ دھرے رکھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اپنے حالات ٹھیک کرنے کےلیے انہیں خود ہمت کرنا ہوگی۔ یہ سب کچھ انہیں ملکر اور متحد ہوکر نئے گاﺅں کی تشکیل کا موقع ملا ہے اسے نعمت سمجھ کر مستقبل کا سوچنا ہوگا۔
امن ،پھر جانتے ہو کیا ہوا انہوں نے نہ صرف اپنے مکان دوبارہ بنائے بلکہ اپنی زمینوں پر نئی فصلیں بودیں اور پھر اگلے سال تک وہاں اتنی اچھی فصل ہوئی اور خوشحالی نے اس گاﺅں کا رُخ کرلیا۔
بیٹا۔ یہ محض قصے یا کہانیاں نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ انسان اگر عہد کرلے اور پُرعزم ہوکر محنت کرے تو کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔
اب تمہاری پڑھائی پر بات کرلیتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ کئی بار تم توجہ نہیں دیتے مگر جب بھی باقاعدہ وقت دے کر مطالعہ کیا تو نتیجہ اچھا آیا۔
امن زندگی میں کامیابی کے لیے سب سے پہلے اپنی مدد کرنا پڑتی ہے اگر تم صرف یہ تعین کرلو کہ تمہیں کیا کرنا ہے تو پھر کوئی منزل دور نہیں اور کوئی مقصد حاصل کرنا مشکل نہیں۔
تمہیں یاد ہوگا جب تمہارا اور فائز کا اپنی کلاسوں میں تقریری مقابلہ ہوا، میرے گمان میں نہیں تھا کہ تم اول آجاﺅ گے۔ میرے لیے یہ اطلاع اتنی خوشی کا باعث بنی کہ میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ اُس دن تم نے ثابت کردیا کہ ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت اور آگے بڑھنے کی لگن موجود ہوتی ہے۔
میرا خیال ہے میں نے کافی زیادہ باتیں کرلیں۔ تمہیں شائد بوریت نہ ہورہی ہو۔ کچھ اور باتیں آئندہ کے لیے چھوڑتے ہیں۔
اپنا خیال رکھنا
تمہارا والد