ADVERTISEMENT
(جارج صلیبا کولمبیا یونیورسٹی امریکا میں عربی اور اسلامی سائنس کے پروفیسر ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے اسلامی سائنسز میں ڈاکٹریٹ ہیں۔ سن 1993 میں انھیں ہسٹری آف سائنس اور 1996میں تاریخ علم فلکیات کے اعزازات سے نوازا گیا۔ John W. Kluge Centerکی جانب سے انھیں 2005میں سینئیر ممتاز اسکالرقرار دیا گیا۔ازمنہ وسطٰی کی سائنسی تاریخ پراُن کا متبادل بیانیہ تاریخ ساز ہے۔ مترجم)
نتائج، جوسامنے آئے۔۔۔
یورپی کتب خانوں میں موجود عربی نسخوں کے علوم کی تلاش جو نتائج سامنے لائی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ علم فلکیات کس طرح اسلامی دنیا سے کوپرینکس کی دنیا تک منتقل ہوا۔ یورپ میں عربوں کی موجودگی، عربی پڑھنے، بولنے، اورپڑھانے والے اُن اطالویوں کی موجودگی،جوپندرہویں سولہویں صدی میں مشرق کا سفر کررہے تھے، انتہائی متاثر کُن ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب اٹلی اور اسلامی دنیا میں قریبی روابط واضح طورپر محسوس کیے جاتے ہیں۔
دوسری اہم بات، سولہویں صدی کے آغاز اور سترہویں صدی کے آخر تک، ریاضی اور فلکیات کے علوم ابتدائی مقالات کی صورتوں میں عربی ذرائع سے ہی حاصل کیے جارہے تھے، جیسا کہ لاؤرینتیانا کتب خانہ کے مجموعہ سے ظاہر ہے۔ کوئی بھی بڑی معقولیت سے یہ باور کرسکتا ہے، کہ جوسائنس دان ابتدائی علم فلکیات اور ریاضی متون کی ضرورت سولہویں صدی کے اواخر میں محسوس کررہے تھے، صدی کے اوائل میں وہ ان ہی متون کے کس قدرضرورت مند رہے ہوں گے! صاف ظاہر ہے کہ اسلامی دنیا سے درآمد شدہ ان متون کی بہت زیادہ مانگ تھی۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اُس وقت کی لاطینی دنیا اور اسلامی تہذیب میں روابط کی وسعت کیارہی ہوگی، برخلاف اُس کے جواب تک ]مغرب[ میں باور کی گئی ہے۔
جہاں تک کوپرینکس اور اُن عربی متون کے تعلق کا سوال ہے، کہ جن میں بطلیموسی فلکیات پرتنقید کی گئی ہے، خاص طورپر وہ دو ریاضیاتی قضیے Theoremsکہ جن پر یہ تنقید استوار ہوئی۔ جب میں نے سولہویں صدی کے اواخر کے عربی متون کا گہرائی سے جائزہ لیا، انکشاف ہوا کہ ان متون کے مالکان عربی زبان کے ماہر تھے، وہ متون کے بین السطور ترجمے کررہے تھے۔ یہ تراجم پریس کے لیے لکھے جارہے تھے، اور نت نئے معیاری لاطینی نسخوں کی اشاعت کا غالب حصہ تھے۔ ان علماء کو عربی کس نے سکھائی؟ پڑھائی؟ ریمنڈی اور ویچیتی کے پروفیسرزکون تھے؟ جب ہم واضح طورپر محسوس کرتے ہیں کہ یہ اساتذہ کوپرینکس کے ہم عصر رہے ہوں گے، توثبوت کا امکان قوی تر ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ، اب جب کہ ہم ان عربی نسخوں کی ملکیت کا تعین تیقن سے کرسکتے ہیں، یہ سوال معقولیت سے اٹھاسکتے ہیں کہ ان اطالوی علماء تک پہنچنے سے قبل یہ نسخے کن کی ملکیت میں تھے؟ کیا یہ حضرات پہلے سے ہی اٹلی میں موجود تھے، کہ جب کوپرینکس بھی وہاں موجود تھا؟ کیا ان کے مابین کیلنڈر کی تشکیل نو پر کوئی مشاورت ہوئی، ایک پراجیکٹ کہ جو پوپ جولئیس دوئم اور لیودہم کی ہدایت پرسولہویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا تھا؟ شاید اس طرح یہ مخطوطات حادثاتی طورپر کیلنڈر پرکام کرنے والوں کے ہاتھ لگے، اور بطلیموسی فلکیات کے کام پرعربی تنقید منکشف ہوئی، اور اسی طرح وہ دو ریاضیاتی قضیے (تھیوریم) بھی سامنے آئے ہوں۔ مذکورہ دونوں پوپ نہ صرف کیلنڈر کی تشکیل نو میں سنجیدگی سے دلچسپی لے رہے تھے بلکہ 1514میں بحر ایڈریاٹک کے مغربی کنارے کے قریب شہرفانو میں انھوں نے پہلا عربی پریس قائم بھی کردیا تھا۔ مزید برآں، کوپرینکس خود بھی کسی حد تک کیلنڈر کی تشکیل نو میں دلچسپی لے رہا تھا، اُس نے مڈل برگ کے پال سے اسی سال اس معاملہ پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ یہ وہی پال تھا، کہ جس نے پوپ جولیس اور پوپ لیو کی تحریک پر کیلنڈر کی تشکیل نو کا منصوبہ لیٹرن کاؤنسل میں پیش کیا، تاہم وہ کاؤنسل کوقائل کرنے میں ناکام رہا۔ سن 1582میں، گریگری XIIIکے دور میں یہ تشکیل نو ممکن ہوسکی۔
لہٰذا، یہاں سے، عربی زبان کے سرپرستوں نے اشاعت کے لیے صرف عربی دینی متون میں ہی دلچسپی نہیں لی، بلکہ دیکھا جائے تووہ پہلی چھ کتابیں جو Medici Oriental Pressسے شایع ہوئیں، اُن میں سے چار سائنسی موضوعات پر مبنی تھیں۔ مثال کے طورپر اس پریس نے اقلیدس کی مبادیات کی 1967نقلیں شایع کیں۔ جبکہ اسی پریس نے عربی زبان میں انجیل کی صرف 566نقلیں جاری کیں۔ جہاں تک مذکورہ سائنسی متون کی منڈی کا تعلق ہے، میڈیچی پریس ڈائیریکٹر ریمنڈی ابتدائی عملی جیومیٹری پرمقبول سائنس دان شمس الدین سمرقندی کے کام پر بین السطوراطالوی ترجمہ کی تیاری میں دلچسپی لے رہا تھا۔ وہ مخطوطہ کہ جس میں ریمنڈی کا یہ ترجمہ موجود ہے، اور دیگر مخطوطات آج بھی نیشنل لائبریری فلورینس میں محفوظ ہیں۔ یقینا یہ بین السطور تراجم اطالوی طلبہ کے فائدے کے لیے کیے گئے تھے۔
اگر ہم سولہویں صدی سے قبل کے دور کا قریب سے جائزہ لیں، خاص طورپر کوپرینکس کی آمد سے پہلے، پندرہویں صدی کے اٹلی پر نظر کریں، Giovanni Battista de Gubernatisکے کام میں ہمیں علوم کا ایک خزانہ ملتا ہے۔ اُس نے اُن اطالوی علماء کے گروہ کی پوری فہرست پیش کی ہے، جوعربی زبان سے واقف تھے، یہ فہرست بارہویں سے پندرہویں صدی تک کے نامور عربی دانوں پرمشتمل ہے۔ اس فہرست میں Riccoldo da Monte di Croceکا نام بھی شامل کیا جاسکتا ہے، کہ جس نے 1290 کے آس پاس بغداد کا سفر کیا، عربی زبان کی تعلیم حاصل کی، اور بطلیموسی کام کو لاطینی میں ڈھالا، اس کام نے بعد میں مارٹن لوتھر کی توجہ حاصل کی، اور اُس نے اس کا 1542میں جرمن زبان میں ترجمہ کیا۔ چودہویں صدی میں ہم دیکھتے ہیں کہ وینس کے ماہر طب Andrea Alpago جسے Bellunoبھی کہا جاتا ہے، وہ ابن سینا کے کام پر لاطینی تراجم سے بہت غیر مطمئن نظرآتا ہے۔ اُس نے شام کے سفر اور تیس سالہ قیام کے دوران، نہ صرف ابن سینا کی ”القانون طب“ کا نیا ترجمہ کیا بلکہ اُس میں موجود تبصروں کو بھی لاطینی میں ڈھالا۔ وہ وینس واپس گیا، توحکومت کی جانب سے یونیورسٹی اور پیڈوا میں پروفیسر آف میڈیسن مقرر کیا گیا۔ وہاں ہوسکتا ہے کہ اُس کی کوپرینکس سے ملاقات رہی ہو، جو قریب ہی یونیورسٹی آف فیرارا میں طالب علم تھا۔ Andrea Alpagoجیسا تعلیم یافتہ شخص جوتیس سال شام میں مقیم رہا ہو، یقینا ابن شاطر دمشقی کے علم فلکیات سے ضرور واقف ہوگا۔ یہ وہ وقت تھا کہ شام کے علمی حلقوں میں ابن شاطرکے نظریات اور تصورات عام تھے۔ وہ متون جوالپاگو نے لاطینی میں منتقل کیے، ابن نفیس کا نظریہ’دوران خون‘ بھی اُن میں شامل تھا، گو کہ آج اُن تراجم میں وہ حصہ موجود نہیں ہے۔ تاہم، ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ اس بارے میں جانتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کا اصل عربی متن اٹلی لایا گیا تھا، اور اب تک University of Bologna کے کتب خانہ میں Arabic 3541کے نام سے موجود ہے۔ کب یہ نسخہ اٹلی لایا گیا؟ اور کس نے اس کا مطالعہ کیا؟ اور کیا یہ متون سائنس دانوں، جیسے کہ Servetusاور Colomboکو، اور بعد میں Harveyکو مہیا کیے گئے تھے؟
وینس کے ایک اور فزیشن Hieronimo Ramusioنے بھی اسلامی دنیا کا سفر کیا، اور ابن سینا کا کام عربی سے لاطینی میں منتقل کیا، سن 1486 میں اُس کا بیروت میں انتقال ہواتھا۔ میری حالیہ تحقیق(1999) کہتی ہے، Guillaume Postel،جو کوپرینکس کا ہم عصر تھا، اور متواتر اٹلی آتا جاتا رہاتھا،وہ عربی مخطوطات جمع کررہا تھا۔ اُس نے ان مخطوطات کی شرحیں لکھیں، اور غالبا رائل انسٹیٹیوٹ میں دیے گئے اپنے لیکچرز میں انھیں استعما ل بھی کیا، جہاں وہ ریاضی اور مشرقی زبانوں کی تعلیم دے رہا تھا۔ ان مخطوطات میں سے ایک، Arabo 319آج ویٹیکن کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ یہ نصیر الدین طوسی کے نسخہ التذکرہ فی العلم الہیت(Memoire on Astronomy)کا ہے، جس میں ”طوسی کا جفت“یعنی وہ تھیوریم موجود ہے جوکوپرینکس نے استعمال کیاتھا۔ یہ نسخہ Guillaume Postel کی ملکیت میں بھی رہا، اور غالب امکان ہے کہ اُس نے اس کی شرح بھی لکھی۔ یہ بات واضح طورپر یقینی ہے، کہ اس میں موجود حاشیے اُس کے ہاتھ کے لکھے ہیں۔
ایک اور عربی نسخہ 2499، یہ سیاراتی نظریات اور کلیوں پر مبنی ہے۔ یہ آج کل The Bibliothèque nationale de Franceمیں موجود ہے۔ یہ بھی Guillaume Postelکی ملکیت میں رہا۔اس کے سرورق پر نمایاں طورپر ex libris Guilielmi Postelliلکھا ہے، ور اُس کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تاریخ ”قسطنطنیہ 1536“بھی درج ہے۔اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ مشرق کے کسی سفر کے دوران خود یہ نسخہ خرید کر اٹلی لایا ہوگا۔ کتاب کے سرورق پر بنے نقش و نگار اور تاریخ ”دمشق 1537“بھی یہی اشارے دیتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کم از کم مذکورہ تواریخ کے دو سال مشرق میں مقیم رہا تھا۔ Guillaume Postel اوراُن عربی نسخوں میں تعلق پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، جو آج بھی یورپ کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ یہی وہ نسخے ہیں کہ جن سے کوپرینکس عربی علم فلکیات کا اکتساب کررہا تھا۔
دیگر وہ کردار، جو یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران اسلامی سائنس یورپ منتقل کررہے تھے، اُن میں حسن الوزان المعروف Leo Africanusاہم ہے۔ وہ 1485میں غرناطہ میں پیدا ہوا۔ سن 1518میں اُسے قزاقوں نے اغوا کیا اور پوپ لیو کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ اُس نے عیسائیت قبول کرلی اور اپنے آقا کا لقب اختیار کرلیا۔ بعدازاں سن 1529کوجب وہ تیونس لوٹا، تواسلام سے رجوع کرلیا،اور 1554میں وہیں اُس کا انتقال ہوا۔ یہ شخص بہت تعلیم یافتہ تھا، اس نے عرب سائنسی جغرافیہ کا بہت سا کام اطالوی میں منتقل کیاتھا۔
پیش منظر
ہم لاؤرینتیانا کتب خانہ سے حاصل شدہ شواہد کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ سولہویں اور سترہویں صدی کے اٹلی میں عربی مخطوطات اوران میں دلچسپی لینے والے عربی دانوں میں کوئی کمی نہ تھی۔ جہاں تک اس سے پہلے کی صدیوں کا تعلق ہے،اورخاص طورپر سولہویں صدی کے آغاز میں، کہ جب کوپرینکس آسانی سے مذکورہ عربی علوم سے فیضیاب ہوسکا ہوگا، اس باب میں عربی نسخوں پر مزید تحقیق، جوآج بھی اٹلی اور یورپ کے دیگر کتب خانوں میں موجود ہیں، اصل کہانی کو مزید روشنی میں لاسکتی ہے۔
ان عربی نسخوں کا محتاط مطالعہ نہ صرف کوپرینکس اور اسلامی علوم کے تعلق کی مزید وضاحت کرسکتا ہے بلکہ نشاۃ ثانیہ کے یورپ اور اٹلی میں سائنسی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے۔ یہ مطالعہ عرب سائنس اور مغربی سائنس کے تعلق کی بھی بہتر تفہیم مہیا کرسکتا ہے۔ تب ہی ہم کوپرینکس کے ہم عصر ماہرین فلکیات کے کاموں کو بھی مزید بہترطورپر سمجھ سکتے ہیں۔
اگر یورپی نشاۃ ثانیہ کی سائنس اور اسلامی سائنس کا یہ بھرپور تعامل مزید ٹھوس انداز میں سامنے آجائے، توازمنہ وسطٰی کی بابت تاریخی ادوار کی تقسیم نو کی جاسکتی ہے، کہ جودرحقیقت عربی سائنسی علوم کی لاطینی میں منتقلی کا دور ہے۔ کیا یہ”تقسیم نو“ یورپی نشاۃ ثانیہ کی سائنس کی اصل فطرت اور سائنسی سرگرمیوں کے اصل ماخذ تک رسائی کا ذریعہ نہیں ہوگی؟