• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home فکر و خیال

قومی ترانے کی زبان، سیاست، سازش اور حقیقت

جنتا کو افضل بننے کے لیے پہلے پہل فارسی سیکھنا پڑتی تھی، پھر انگریزی کی محتاج ہوئی۔ اردو نہ اشرافیہ کہ زبان تھی نہ ہے۔ اردو کے خلاف بغض تھا تو سیاسی تھا، اردو کے خلاف بغض ہے تو سیاسی ہے

ظفر عمران by ظفر عمران
August 14, 2020
in فکر و خیال
0
قومی ترانے کی زبان، سیاست، سازش اور حقیقت
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

کیا پاکستان کا قومی ترانہ فارسی زبان میں ہے؟

”پاکستان کا قومی ترانہ فارسی زبان میں ہے، صرف ایک لفظ اردو کا ہے۔ “
”اچھا؟ وہ کون شودر لفظ ہے؟ “
‘کا‘۔ پاک سرزمین کا نظام؛ اس میں ”کا“ اردو زبان سے ہے۔

سوچے سمجھے بنا ایسی باتیں کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اردو زبان گویا یتیم ہے کہ جو جس کے جی میں آئے، وہ اس کے لیے کہ دے:
”اردو تو کوئی زبان ہی نہیں، یہ تو عربی، فارسی، سنسکرت اور کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے۔ اس کا تو نام بھی ترکی زبان مستعار ہے، اردو۔ اس کا مطلب ’لشکر‘ ہوتا ہے۔“
بس آپ یہ دعوے ہی نہ سنیں، بل کہ پر جوش عالم میں ایسے انکشافات کرتے کاشفین کا چہرہ تکا کیجیے کہ وہ عالمی سازش کا سراغ لائے ہیں۔ سنانے والوں کی معلومات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیے۔

جب کوئی یہ کہے کہ اردو زبان کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے تو میں اطمینان سے سوال کرتا ہوں، وہ کون سے زبان ہے، جو آسمان سے اتری ہے؟ سازش کا پتا دینے والا بھونچکا رہ کے تکے جاتا ہے۔
ہم نے پرائمری کلاس کی (”پرائمری کلاس“ انگریزی نہیں، اردو ہے) اسلامیات میں پڑھا تھا، عربی؛ عبرانی اور سریانی زبان کا مجموعہ ہے۔ لیکن کبھی کسی عربی کو افسوس کا اظہار کرتے نہیں پایا، ”عربی تو زبان ہی نہیں، یہ تو عبرانی اور سریانی کا ملغوبہ ہے۔ “

ہم یہ دعوا کیوں نہیں کرتے کہ قومی ترانہ عربی فارسی کا ملغوبہ ہے، اس میں ایک لفظ اردو ہے؟ میں ایسوں کی آسانی کے لیے یہ کیوں نہ کہ دوں کہ اس میں ایک بھی لفظ اردو کا نہیں؟! ”کا“ سنس کرت زبان کا لفظ ہے

دنیا کی تمام زبانیں ایک سے زائد زبانوں کے ملاپ سے بنتی آئیں ہیں اور امید ہے ایسے ہی بنتی چلی جائیں گی۔ برصغیر پاک و ہند میں کئی اقوام بستی ہیں۔ تجارت کے غرض سے آنے والے غیر ملکی اور بدیسی حملہ آور اپنی تہذیب ہی نہیں زبان بھی ہم راہ لائے۔ ان کے ہم راہیوں میں مترجم بھی ہوں گے، جو مقامیوں سے بات چیت کرتے وسیلہ بنتے تھے۔ تبلیغ کرنے والوں کو مقامیوں ہی کی زبان کو اپنانا پڑا۔ مرور ایام نے ایک نئی زبان کو جنم دے دیا، جس کے لہجے جدا جدا ہوں گے/ہیں۔ انگریز سرکار آئی تو انھیں اپنے افسروں کو ایک ایسی زبان سکھانا تھی، جو فصیح ہو نہ ہو، بلیغ ہو۔ ابلاغ بنیادی ضرورت تھا۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لایا گیا، انگریز کی نظر میں ”اردو“ وہ زبان ٹھیری، جو ہندستان کے کونے کونے میں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بولی پہلے سے موجود تھی، اسے بولنے والے کسی اصول یا گرائمر سیکھنے کے محتاج نہ تھے، جیسا کہ اہل زبان ان کا محتاج نہیں ہوتا۔ زبان سیکھنے کے لیے گرائمر سکیھنا پڑتی ہے۔ اس کے اصول اس کی گرائمر ترتیب دینے کے لیے اس زبان کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں، تا کہ انگریز افسروں کو اس زبان کی تربیت دی جا سکے۔ ہر قوم کا یہ احساس تھا اور ہے کہ وہی اعلا قوم ہے۔ اسی کی تہذیب سب تہذیبوں سے افضل ہے، اور اس کی زبان بلیغ و فصیح ہے۔ ایسے میں انگریز نے اردو کو کیوں اہمیت دی! اپنی قوم کو برتر سمجھنے والوں کا یہ دکھ گیا نہیں۔

مغل دربار کی زبان فارسی تھی، انگریز سرکار کی دفتری زبان انگریزی۔ ”اردو“ جنتا کی زبان تھی، ایسی جنتا جسے اپنے جیسے گوشت پوست کے انسان سے ابلاغ کے لیے اس کی ضرورت پڑتی تھی، جو دوسری قوم سے ہوتا۔ جنتا تو جنتا ہوتی ہے، وہ کب افضل ہوئی ہے۔ جنتا کو افضل بننے کے لیے پہلے پہل فارسی سیکھنا پڑتی تھی، پھر انگریزی کی محتاج ہوئی۔ اردو نہ اشرافیہ کہ زبان تھی نہ ہے۔ اردو کے خلاف بغض تھا تو سیاسی تھا، اردو کے خلاف بغض ہے تو سیاسی ہے۔

جناح نے اردو کی وکالت کی تو اسی لیے کی تھی کہ یہ واحد زبان ہے، جو پاکستانی اقوام کی نمایندگی کرتی ہے۔ ورنہ جناح کو اردو کی طرف داری کی کیا پڑی تھی! وہ تو اردو لکھنا بولنا جانتے ہی نہ تھے۔ انھیں انگریزی کی وکالت کرنا چاہیے تھی۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

طوالت کی گنجایش ہوتی تو ابھی اور کہتا۔ اس لیے نکتے پر آتا ہوں۔ پاکستان کے قومی ترانے میں ”کا“ نہ ہوتا، تو یہ مکمل فارسی زبان میں ہے۔ یہ دعوا اتنی بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ کیا کہیے۔ یہ مضمون اردو میں ہے، اس میں کوئی لفظ غیر اردو نہیں۔ ان الفاظ کو اردو میں برتا جاتا ہے، یہ اردو ہیں۔ یہ اردو ہی کے ساتھ نہیں سب زبانوں کے ساتھ ہے کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ لیتی رہتی ہیں۔ زبانیں ایسا نہ کریں تو متروک ہو جائیں۔ ”مچان، چیتا، کف، بازار، جنگل، پاجامہ، اور ڈھیروں الفاظ ہیں جو انگریزی نے اردو سے مستعار لیے۔ قومی ترانہ جسے فارسی زبان میں کہا جا رہا ہے، اس پر ایک نظر کرتے ہیں۔

پاک سر زمین شاد باد کشورِ حسین شاد باد
تو نشانِ عزمِ عالی شان ارضِ پاکستان!‏
مرکزِ یقین شاد باد
پاک سرزمین کا نظام قوّتِ اخوّتِ عوام
قوم، ملک، سلطنت پایندہ تابندہ باد!‏
شاد باد منزلِ مراد
پرچمِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقّی و کمال
ترجمانِ ماضی، شانِ حال
جانِ استقبال!‏
سایۂ خدائے ذو الجلال

مدعی کا دعوا مان کر چلتے ہیں کہ یہ فارسی زبان ہے، ما سوائے ”کا“ کے، تو ”یقین، قوت، اخوت، عوام، ملک، منزل، مراد، سلطنت، ہلال، ترقی، کمال، ترجمان، ماضی، شان، حال، استقبال، ذو الجلال‘ کا کیا کیجیے، کہ یہ تو عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ ہم یہ دعوا کیوں نہیں کرتے کہ قومی ترانہ عربی فارسی کا ملغوبہ ہے، اس میں ایک لفظ اردو ہے؟ میں ایسوں کی آسانی کے لیے یہ کیوں نہ کہ دوں کہ اس میں ایک بھی لفظ اردو کا نہیں؟! ”کا“ سنس کرت زبان کا لفظ ہے۔

قومی ترانے کی دھن میں مغربی ہے، اس میں استعمال ہوئے موسیقی کے آلات ”سیکسو فون، ٹرمپٹ، ہارن، سلائڈ، ٹرمبون، بیس ٹرمبون، یو فونیم، بے سون، پکولو اور دیگر آلات بھی مغربی ہیں ۔ احساس محرومی کے مارے ہووں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر تو نہیں

اوپر جن الفاظ کو میں نے عربی کہا، انھیں فارسی زبان اپنا چکی ہے۔ جیسا کہ ہر زبان پر کسی دوسری زبان کے اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن مذکورہ الفاظ اب فارسی زبان کے الفاظ ہیں۔ کوئی فارسی دان یہ نہیں کہتا کہ یہ الفاظ فارسی کے نہیں ہیں، یہ تو عربی ہیں۔ اسی لیے ان پر فارسی طرز پر اضافت لگا کے مرکب کرتے ہیں، نا کہ عربی انداز میں ”ال“ سے تراکیب بناتے ہوں۔ ہاں! جب لغت بنائی جائے، تو یہ واضح کیا جاتا ہے، کہ یہ لفظ اس زبان میں کس زبان سے در آیا۔ کیا قومی ترانے میں استعمال کیے گئے الفاظ ایسے ہی ہیں جو اردو زبان کی بول چال میں نہیں آتے؟ یہ اردو زبان کے الفاظ ہیں۔ ان پر فارسی طریق پر اضافت لگی ہے، جو اردو گرائمر کے حساب سے مباح ہے۔

لسان کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اردو زبان میں لگ بھگ تیس فی صد الفاظ، عربی فارسی یا غیر زبان سے ہیں۔ باقی اسی سر زمین کی زبانوں کے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی تمام نہیں تو بیش تر زبانوں میں عربی فارسی سنسکرت کے الفاظ شامل ہیں۔ مختصرا یہ کہ ”پنج آبی“ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ آپ اپنی اپنی مادری زبان پر غور کیجیے، آپ کو عربی فارسی کے الفاظ جا بجا دکھائی دیں گے۔ یہ ہے کہ اردو کے مقابلے میں عربی فارسی کے الفاظ قدرے کم ہوں گے۔ ایک دوسرے کی زبانوں میں جو مشترک الفاظ ہیں، وہ کیا ہیں؟ پرتگالی، انگریزی، ترکی، سنس کرت، عربی، فارسی! اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہند کی تمام زبانوں کی ماں سنس کرت ہے۔ یہ وہی سنس کرت ہے جس کے الفاظ فارسی زبان میں شامل ہیں۔

چلتے چلتے آپ کو بتاتا چلوں کہ قومی ترانے کی دھن میں مغربی ہے، اس میں استعمال ہوئے موسیقی کے آلات ”سیکسو فون، ٹرمپٹ، ہارن، سلائڈ، ٹرمبون، بیس ٹرمبون، یو فونیم، بے سون، پکولو اور دیگر آلات بھی مغربی ہیں۔ نہ اس میں ستار کا استعمال ہوا، نہ اک تارا، نہ اور کوئی مقامی ساز۔ احساس محرومی کے مارے ہووں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر تو نہیں۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: قومی ترانہقومی ترانے کی زبانقومی ترانے کی موسیقی
Previous Post

نامور شاعر صبا اکبر آبادی کا آج یوم ولادت ہے | عقیل عباس جعفری

Next Post

قومی ترانہ : اسلم ملک کی تحقیق

ظفر عمران

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

Next Post
قومی ترانہ : اسلم ملک کی تحقیق

قومی ترانہ : اسلم ملک کی تحقیق

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions