اس کو عنوان کو دیکھ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ میں احمد حاطب صدیقی صاحب کی خاکوں پر مبنی کتاب “جو اکثر یاد آتے ہیں” پر کوئی تبصرہ کرنے لگا ہوں بلکہ میں کچھ ایسی بھولی بسری یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش کروں گا جو مختلف اوقات میں میرے سفر حجاز مقدس اور حرمین شریفین سے متعلق ہیں اس میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے کہ جن سے میرا واسطہ پڑا مگر اب ان سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ اکثر ریل کے سفر میں آپ کی نشست کے ساتھ بیٹھا ہوا مسافر زندگی میں دوبارہ آپ کو نہیں ملتا مگر اس کی کچھ اچھی باتیں اور اچھی یادیں دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ جاتی ہیں۔
سب سے پہلا واقعہ تو 1987 میں اس وقت پیش آیا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ پہلی مرتبہ حج پر گیا تھا ہوا یوں کہ میری والدہ مطاف کے ساتھ حرم شریف کے برآمدوں میں بیٹھی تھیں، میں ان کو برآمدے میں چھوڑ کر طواف کے لیے صحن کعبہ میں چلا گیا جب میں طواف وغیرہ مکمل کر کے واپس والدہ کے پاس آیا تو میں نے دیکھا کہ میری والدہ لیٹی ہوئی ہیں اور ان کا سر ایک ملائشین لڑکی کی گود میں ہے پتہ چلا کہ والدہ کے سر میں درد تھا تو اس لڑکی نے میری والدہ کے سر میں بام لگا کر مالش کی اور اپنی گود میں سر رکھ کے دبانے لگی میں کافی حیران ہوا کہ کہاں میری والدہ پاکستانی اور کہا یہ ملائشین لڑکی مگر ایک کلمے نے ہمیں ملا دیا تھا ہم نے اس لڑکی سے تعارف حاصل کیا تو پتہ چلا کے اس کا نام نور عائشہ ہے۔
اور وہ کبھی کسی سلسلے میں کراچی بھی آ چکی ہے مگر فی الحال وہ ملائیشیا میں زیر تعلیم ہے۔ میں نے اور میری والدہ نے اس کو بہت دعائیں دیں اور شکریہ ادا کیا کہ اس نے میری غیر موجودگی میں والدہ کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ ان کے سر میں بام کی مالش کی سر دبایا جس سے میری والدہ کو بہت آرام پہنچا۔ بہرحال، بالآخر ہم حاجیوں کے ہجوم میں بچھڑ کر گم ہوگئے دوبارہ ہماری پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔اور ہم حج کے بعد پاکستان واپس آ گئے آج اس واقعے کو 33 برس ہو چکے ہیں مگر وہ لڑکی اب بھی یاد آتی ہے۔ میری والدہ بھی اپنی زندگی میں اکثر اس کا ذکر خیر کرتی رہیں اور دعاؤں میں اسے یاد رکھتی ہیں۔
ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب 1995ء کو میں اپنی والدہ کے ساتھ عمرے کے لیے گیا ہم مدینہ شریف میں قیام پذیر تھے کے ایک دن مغرب کے بعد ریاض الجنہ میں ایک چینی شخص سے ملاقات ہوئی۔ ہمارا آپس میں تعارف ہوا ان کا نام عبدالمالک تھا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے میرا امتحان لیا اور پوچھا کے ان کی عمر کتنی ہوگی اکثر چینیوں کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے خیر ہم نے اندازے سے کہا کہ آپ 60 کے لگ بھگ لگتے ہیں انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ان کی عمر 75 سال سے زائد ہے ۔
وہ بدھ مت سے مسلمان ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے چینی خاتون کو مسلمان کر کے اس سے شادی کر لی بعد ازاں وہ آسٹریلیا منتقل ہوگئے اور ان دنوں ان کی رہائش سڈنی میں تھی جہاں وہ حکومت کی طرف سے ایک بڑی جامع مسجد کے امام کے فرائض انجام دے رہے تھے اور انہیں حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے لیے وزیر مذہبی امور مقرر کیا گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کی شادی بیاہ کے معاملات کو بھی دیکھتے تھے اور نکاح خواں بھی تھے ان سے ہم نے اپنا تعارف بھی کرایا ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا وقت گزارا اور ساتھ ہی ایک دوسرے کے پتے وغیرہ بھی حاصل کیے جب تک مدینے میں رہے ان سے ریاض الجنہ میں ملاقاتیں ہوتی رہیں بالآخر ہم اپنے وطن پاکستان واپس آ گئے۔
پاکستان واپسی کے بعد مصروفیات میں ہم ان کو بالکل بھول گئے مگر عید الفطر آئی تو ہمیں ایک بہت خوبصورت سا عید کارڈ محترم امام عبدالمالک صاحب کی طرف سے موصول ہوا جس میں انہوں نے ہمیں عید کی مبارکباد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا جواب میں ہم نے بھی انہیں خط لکھا اور شکریہ ادا کیا کچھ عرصے ہماری آپس میں خط و کتابت چلتی رہی لیکن کچھ عرصے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا ہم نے اپنے ذرائع سے سڈنی میں ان کے بارے میں کھوج لگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ہو سکتا ہے کہ ان کا انتقال ہوگیا ہو اب اس بات کو پچیس برس گزر چکے ہیں لیکن کبھی کبھی وہ بھی یاد آتے ہیں اور دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے انہوں نے آسٹریلیا میں اسلام کی تبلیغ اور ترویج اور مسلمانوں کے مسائل کے حل میں کافی خدمات انجام دیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔
تیسرا واقعہ سن 2005ء کا ہے جب ہم اپنی اہلیہ ہمشیرہ اور بھانجی کے ساتھ حج پر گئے یوم عرفہ پر ہم ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد وقوف عرفات کی دعائیں کرنے کے لیے اپنے خیمے سے باہر آئے، ہمارے خیمے کے ساتھ ہندوستان کے جنوبی علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کا خیمہ تھا ان لوگوں کا تعلق جنوبی ہند سے تھا اور یہ لوگ ملیالم زبان بولتے تھے جو ہمارے سر سے گزر جاتی تھی۔ ان کے خیموں سے جو حاجی حضرات باہر نکل کر اپنے امام کی قیادت میں وقوف عرفات کی دعائین کر رہے تھے۔
ان کی دعائیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آرہی تھیں لیکن وقفے وقفے سے وہ یا اللہ اور آمین کے الفاظ زور سے ادا کرتے تھے ہم بھی ان کے ساتھ یا اللہ اور آمین کے الفاظ دہرانے لگے مگر باقی دعائیں سمجھ میں نہیں آسکیں کیونکہ وہ ملیالم زبان میں تھیں۔ وہ لوگ اور ان کے امام صاحب اتنے خلوص اور محبت سے گڑگڑا کر بڑی رقت کے ساتھ اور روتے ہوئے دعائیں کر رہے تھے کہ ہماری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے ان کی دعائیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آرہی تھیں مگر آہ و زاری ایسی تھی اس نے ہمیں بھی رلا دیا اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
وہاں سے فارغ ہوکر ہم قریبی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر چڑھ گئے ہمارے ساتھ ہمارے خیمے کے لوگ تھے انہوں نے ہمیں باریش دیکھتے ہوئے دعاوں کے لئے آگے کردیا۔ ہم نے بھی آہ و زاری کے ساتھ رقت آمیز دعائیں کیں یہاں تک کہ ہمارے خیمے کے لوگوں کے علاوہ بھی مزید لوگ جمع ہو گئے جب دعائیں ختم ہوئیں تو ان میں سے کچھ لوگوں نے ہمیں بڑے بڑے کچھ شاپنگ بیگ پکڑا دیے جو کہ انہوں نے ہماری دعاؤں سے متاثر ہوکر عقیدت کے طور پر ہمیں دئیے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ان تھیلوں میں کھجور اور پھل اور مشروبات تھے۔ جو وہ اپنی خوشی اور محبت کے اظہار کے طور پر ہمیں ہدیہ کر گئے تھے۔
چوتھا واقعہ سن 2019 کا ہے جب ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ رمضان کے پہلے عشرے میں عمرہ کے لئے مکہ شریف گئے اور پورا رمضان اور عید کر کے مدینہ منورہ گئے شروع میں جب ہم جدہ سے مکہ پہنچے تو بس والے نے ہمیں سامان سمیت مکے میں اتار دیا جہاں سے ہمارا ہوٹل کافی دور تھا ہم حالت احرام میں تھے اور بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے اور ہوٹل پہنچنا بھی ہمارے لئے مشکل تھا کیوں کہ ہم پندرہ سال بعد مکہ آئے تھے اس دوران بہت زیادہ تبدیلی آ چکی تھی اور راستوں کا علم بھی نہ تھا۔
ہمارے بیٹے خالد نے ریاض سے فون پر کچھ دوستوں سے رابطہ کیا جس کے نتیجے میں ایک بزرگ یونس بھائی جو کہ حرم شریف میں ملازم تھے اور کافی لمبے عرصے سے مکہ میں رہائش پذیر تھے وہ فرشتہ بن کر ہماری مدد کو آ پہنچے اور ہمیں بڑے آرام کے ساتھ سامان سمیت ہمارے ہوٹل پہنچا دیا جہاں ہم نے سکون کا سانس لیا وہ بزرگ تو اپنا کام کر کے چلے گئے اور ان سے دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی وہ بھی ہمیں اکثر یاد آتے ہیں اور ہم ان کے لئے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں۔
اسی طرح ہوٹل کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس میں ہم مختلف اوقات میں نماز پڑھا کرتے تھے اس مسجد کی پہلی صف میں ایک بزرگ جن کا نام ابراہیم تھا اور تعلق الجزائر سے تھا بہت شفیق اور مہربان تھے اللہ نے ہم دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لئے محبت ڈال دی اور تقریبا روزانہ ہی ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ ہمارا بڑا بیٹا خالد ظفر بھی اپنی فیملی کے ساتھ آخری عشرے میں ہم سے آ کر مل گیا۔ ابراہیم صاحب نے خالد ظفر کو بھی بہت بہت محبت دی خیر عید کے بعد ہم بچھڑ گئے اور دوبارہ ابراہیم صاحب سے ملاقات کا کوئی امکان بھی نہیں کیوں کہ ہم پاکستان واپس آ گئے اور ابراہیم صاحب الجزائر چلے گئے مگر ان کی محبت شفقت اور دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ بھی ہمیں اکثر یاد آتے ہیں اللہ تعالٰی سے دعا ہےکہ ان کو بھی خیر و عافیت کے ساتھ رکھے، آمین۔