تخلیقیت…. Creativity
شعور، انسان کی وہ خوبی ہے جو اسے باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے. تقلید، شعور کے استعمال میں رکاوٹ ہے اور تیسری دنیا کے ممالک کے سماج کا بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں شعور سے اٹھنے والے سوالات کو عقیدت اور عقیدے کے زور سے دبا دیا جاتا ہے. اور فرد کو گھر، معاشرے اور یہاں تک کے تعلیمی اداروں میں بھی تقلید کرنا سکھایا جاتا ہے.
تقلید کرنے والا انسان، سماج اور اس کی روایات کا پیروکار تو ہوتا ہے، لیکن انسانی زندگی کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا. کیونکہ اس کا طرزِ عمل ہی پیروکاری پر مبنی ہوتا ہے. تقلید کرنے والا ذہن، بنیادی طور پر اپنے عقیدے کا ہی طواف کرتا رہتا ہے.
سوال اٹھانا، تجسس کرنا، جاننا، اور علم کے لیے تڑپ رکھنا، تقلید کرنے والے فرد کے لیے ممکن نہیں.
محدود پیمانے پر سماجی آزادی کے سبب، اگر شعور اپنی راہیں تراش کر، دو قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر کائنات کے رازوں کا پردا اٹھنے لگتا ہے، . تحقیق اور دلیل، شعوری طور پر مضبوط انسان کا زادِ سفر ہوتا ہے. تحقیق، شعور کی دنیا کو تحت الشعور ( subconscious) کا سفر کرواتی ہے. انسان کو وہ علم عطا کرتی ہے، جو ابھی کسی کو معلوم نہیں ہوتا.
نامعلوم اور لامعلوم سے معلوم کا سفر تحقیق اور دلیل سے ہی ممکن ہے.
نامعلوم اور لامعلوم کی دنیا کو معلومات میں لے کر آنے سے، انسان پر اس کی اپنی ذات کے دروازے بھی کھلتے ہیں. تحت الشعور sub councious سے unconscious کا سفر شروع ہو جاتا ہے.
تحقیق سے تخلیق کے دروازے کھلتے ہیں.
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ تحقیق ، تخلیق کی بنیاد ہے.
اور اس بنیاد کے دو اہم جزو ہیں.
تخیّل
پیداواری صلاحیت
تخیل، یعنی سوچنا، اور بلندو منفرد سوچنا….
اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس بارے کہا تھا.
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
ذوقِ پرواز یعنی بلند تخیل کو انسان کی تعلیم، تحقیق اور بصیرت کا حاصل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا.
تخیل، انسان کو ستاروں سے آگے جہاں کا پتا بھی دیتا ہے، اور یہی تخیل ہی وہاں کا رستہ بھی تلاش کر لیتا ہے.
کسی بھی تخلیق کے وجود میں، تخیل کی اہمیت روح کی مانند ہے. اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں….
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
افکارِ تازہ، یعنی نئے تخیل thoughts کے ساتھ ساتھ، production skill کا ہونا بھی تخلیقی عمل کے لیے انتہائی ضروری ہے.
ورنہ جو ذہن، بڑا تخیل اور سوچ رکھتا ہو، لیکن اس تخیل کو وجود میں ڈھالنے کی skill نہ رکھتا ہو تو ایسے ذہن والے فرد کو ایک imaginative person یا مفکر تو کہا جا سکتا ہے، لیکن تخلیق کار یا فنکار نہیں…
اور تخیل کے بغیر skill کو labour یا کرافٹنگ کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا؟
تخلیق، نئے اور بلند خیال کو منفرد وجود میں ڈھالنے کا نام ہے.
اور تخلیق کے اس عمل کے لیے تحقیق، کے دروازے سے گزرنا پڑتا ہے . تقلید کے رستے پر چلنے والا کوئی ذہن، تخلیق کی انفرادیت اور وحدانیت نہیں سمجھ سکتا.
تخلیق کا عمل سیکھا جا سکتا ہے یا نہیں، اس پر دانشوروں کی رائے منقسم ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ “فطری صلاحیت” ہے. جسے سیکھنا یا سکھانا ممکن نہیں، جب کہ دوسرے محنت سے سب کچھ ممکن ہونے پر یقین رکھتے ہیں.
اگر ہم تخلیقی عمل کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کریں تو ادراک ہوتا ہے کہ اس میں production skills تو یقیناً سیکھی اور سکھائی جا سکتی ہے،
جبکہ تخیل، فطری صلاحیت بھی ہے اور علمی ریاضیت بھی…..!
علم، تحقیق اور بصیرت “Vision” کے ساتھ ساتھ جذبہ اور skill بھی ہم آہنگ ہو تو تخلیق…… یقیناً ممکن ہے.
اور حصول علم ، تحقیق، اور بصیرت بھی تو انسان تجربے، مشاہدے، اور حادثے سے سیکھ سکتا ہے.
اس لیے کہا جا سکتا ہے، کہ تخلیق فطری صلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ، ایک سیکھا جانے والا عمل بھی ہے. لیکن اسے سیکھنے کے لیے ذہنی بیداری کے ساتھ ساتھ قلبی واردات کایونا بھی لازم ہے….
ہ
اس لیے ہر وہ انسان، جو دلیل کی بنیاد پر out of box سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ تخلیقی عمل سیکھ سکتا ہے. ایسے ہی جیسے ہر بولنے کی صلاحیت رکھنے والا گائیکی کا فن سیکھ سکتا ہے. جو کہ تخلیقی عمل کا ایک خوبصورت اور لطیف اظہار بھی ہے، اور ایک فن بھی….!