طالبان نے وننگ شاٹ کھیلتے ہوئے سب کو حیران کردیا، یہاں خانہ جنگی کا خدشہ تھا لیکن اب بے امنی کا امکان بہت کم ہے
آخرطالبان جیت گئے۔ سپرپاورنے گھٹنے ٹیکے، نیٹوفورسزنے سرجھکایا، افغان فورسز نے بندوقیں پھینکیں اوراب پوراافغانستان طالبان کی مٹھی میں ہے۔
جب اسّی کی دہائی میں افغان مجاہدین نے روس کو شکست دی تو ایک جوازتھا، کہا گیا کہ افغان مجاہدین کی امریکہ نے مدد کی، انہیں اسٹنگرمیزائل فراہم کئے اس لئے روس کو الٹے قدم لوٹنا پڑا، لیکن اس بار تو ایسا کچھ نہ تھا، نیٹوفورسز کے تیس ممالک افغانستان پرچڑھ دوڑے جن میں “ترکی” بھی شامل رہا، پاکستان ، سعودی عرب، یواے ای نے بھی طالبان سے راہیں جداکرلیں بلکہ براہ راست یا بالواسطہ امریکا اورنیٹوفورسز کاساتھ دیا۔ پھر آخر طالبان کیسے کامیاب ہوگئے؟
امریکہ نے نوے ارب ڈالر خرچ کئے لیکن پچاس ہزار طالبان نے دنیا کے خداوں کو دھول چٹادی، کیسے؟ دراصل زمینی حقائق سے کوئی نہیں جیت سکتا، شکست اورفتح کے محرکات مختلف ہوسکتے ہیں لیکن زمین پر موجود حقیقتیں نہیں جھٹلائی جاسکتیں،افغانستان کی سب سے بڑی زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکی تسلط کو افغانستان کے عوام نے قبول نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ جب طالبان مختلف علاقوں میں اپنا جھنڈا لہراتے تو عوام انہیں گلے لگاتے، آج سے پچیس سال قبل جب طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کی تو منشیات کا کاروبار سوفیصد ختم ہوگیا اورپھر نائن الیون کے بعد افغانستان منشیات کا گڑبنتا گیا یہ وہ زمینی حقائق ہیں جنہیں رد کرنا ممکن نہیں، پھر کرپشن کاایسا بازار گرم ہوا کہ خدا کی پناہ، یہ وہ چندعناصر ہیں جنہوں نے افغان فورسز، نیٹواورسپرپاورکو کمزوراورطالبان کو مضبوط کیا۔
طالبان کی کامیابی کی دوسری وجہ طریقہ کار کی زبردست اورحیران کن تبدیلی ہے، افغانستان پر حملے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ طالبان نے القائدہ کے رہبر اسامہ بن لادن کوامریکا کے حوالے کرنےسے انکار کردیا تھا، ملا عمر نے دنیا سے کہا کہ پختون مہمانوں کواپنے گھرسے بے دخل نہیں کرتے اورپھر طاقت کے بدمست ہاتھی پر سوار امریکا نے افغانستان پر ہلہ بول دیا، ایک طرف توطالبان نے آج سے بیس برس قبل القائدہ کوخاموش اندازسے سپورٹ کیا لیکن اب امریکا سے معاہدے میں اُنہوں نے یقین دلایا ہے کہ القائدہ سے ہم دستبردار ہوتے ہیں،ہم اپنی زمین کسی کیخلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ طالبان وقت کے تقاضے سمجھ گئے ہیں، وہ اس بار بدلے ہوئے نظر آتے ہیں، بیس سالہ جنگ میں انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے، وہ نئے دور کے تقاضوں کو پوراکرنے کیلئے تیارہیں، ٹیکنالوجی کی اہمیت اُنہیں معلوم ہوگئی ہے، سوشل میڈیا کا استعمال انہوں نے سیکھ لیا ہے، بیانیہ کی جنگ کیا ہوتی ہے؟ کیسے لڑی جاتی ہے؟ اس کی سائنس سے وہ باعلم ہوچکے ہیں، سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ افغان طالبان اردو، انگریزی اور پشتوکی ویب سائٹس پر ایک ایک لمحے کی اطلاعات دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اپناموقف پیش کرتے ہیں ، انہوں نے سمجھ لیا کہ میڈیا کو کیسے استعمال کرنا ہے، مانیٹرنگ کا بہترین نظام کتناموثرہوتا ہے،انہیں معلوم ہوچکا۔ بیس سالہ جنگ میں طالبان نے ایک اہم چیز اوربھی سیکھی ، وہ یہ کہ انہیں “اوپر” کا نہیں بلکہ اندر کا مسلمان تبدیل کرنا ہے، نوے کی دہائی میں جب افغان طالبان نے اقتدار حاصل کیا تو زبردستی داڑھیاں رکھوائیں، پردے پرسختی سے عمل کرایا،شریعت کو بزورطاقت نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن اس باروہ دھیمی آنچھ پرہنڈیاں پکارہے ہیں، جن صوبوں میں طالبان کی حکومت ہے وہاں خوف کی فضا قائم کرکے شریعت نافذ نہیں کی گئی، وہ سمجھ گئے کہ کنپٹی پر بندوق رکھ کرکسی کو دین کا پابند کرنا مناسب نہیں۔ البتہ ان کی حکومت اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوگی، طالبان تبلیغ کاراستہ اختیار کریں گے، ماحول فراہم کریں گے، شریعت پرعمل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں گےاوردین بےزارلوگوں کی مذمت اورحوصلہ شکنی کریں گے لیکن پچھلے دورحکومت کی طرح حجامت بنانے والوں کی حجامت نہیں ہوگی، نوے کی دہائی میں طالبان نے فتح حاصل کی تو مخالفین کو چن چن کر “دیوار میں چنوایاگیا” صرف مخالفین کو ماراہی نہیں بلکہ عبرت کا نشان بنانے کیلئے انہیں چوراہوں پر لٹکادیاگیا۔ لیکن اس بار طالبان نئے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
قندھارکے گورنر یوسف وفا نے طالبان کوبہت نقصان پہنچایا، جہاں موقع ملا طالبان کو سبق سکھایا لیکن آپ اس بار طالبان کا مختلف رویہ ملاحظہ کیجئے، چند روز قبل قندھارپرطالبان نےاپنا پرچم لہرایا تو ہرگز گورنرقندھار کو تربوزسمجھ کراُن پرچھری نہیں چلائی بلکہ طالبان نے انہیں باعزت جانے دیا، اسی طرح گورنر ہرات کوبھی جانےکیلئے راستہ دیا گیا، یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے پہلے دورحکومت میں اپنے مخالف ڈاکٹرنجیب کو بے دردی سے قتل کیاتھا لیکن اس بار بھرپورطاقت ملنے کے باوجود طالبان حکمت کادامن تھامے نظر آتے ہیں۔ اپنے بدترین مخالفین کو بھی وہ جانےکیلئے راستہ دے رہے ہیں۔
صدارتی محل میں تصویریں بنواتے طالبان ماضی میں کیمرے کے کیخلاف تھے لیکن دورکے ساتھ وہ بھی بدل گئے ہیں۔ پچھلی بار مزارشریف سمیت طالبان کئی علاقے فتح نہیں کرسکے تھے، لیکن اس بار وہاں وہ بدلی ہوئی حکمت عملی کے ساتھ چھا گئے ہیں،انہوں نے بہت سی جگہوں پر “بندوق” نہیں بلکہ “بات” کاراستہ اختیار کیا یہ حکمت کامیاب رہی ہے۔ کابل میں قدم رکھتے ہی عام معافی کااعلان کرنا بھی بڑی ذہانت ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان فورسز نے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کیا اگر طالبان آتے ہی چڑھائی کرتے تو افغان فورسزکاردعمل یقینی تھا اورپھرکابل کی گلیوں میں خون ہی خون ہوتا لیکن طالبان نے وننگ شاٹ کھیلتے ہوئے سب کو حیران کردیا، یہاں خانہ جنگی کا خدشہ تھا لیکن اب بے امنی کا امکان بہت کم ہے ۔ وہ تجزیہ کار جو کہتے تھے کہ امریکا کہ جاتے ہی افغانستان قبرستان بن جائے گا ، یہاں لاشوں کے ڈھیر ہوں گے اب وہ تجزیہ کاربھی کہہ رہے ہیں شاباش طالبان