ہماری سنجیدگی کی علامت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ عوام و خواص کا اجتماعی رجحان جوڑ توڑ کی سیاست، کھیل تماشے، مذہب کے فروعی اختلافات، لسانی و علاقائی عصبیت کے پرچار، پھکڑپن وسطحیت،فقرے بازی اور ایک دوسرے پر پھبتی کسنا رہ جائیں ۔
انواع و اقسام کے چرند بھانت بھانت کی بولی بولنے والے پرند، پھاڑ کھانے والے درندوں ،چوپایوں، حشرات الارض اور بے ہنگم جھاڑ جھنکاڑ پر مشتمل ایسا جنگل جہاں کسی کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی وقوع پزیر ہوسکتا ہے۔ جہاں جینے کا اصول فقط ایک ہے یعنی طاقت۔
تم ادھر اور ہم ادھر بھی کب کا قصہ پارینہ ہوچلا۔ سو اذن عام یہ ہے کہ ہم ادھر اور ہم ہی ادھر۔اور ہم جدھر زمانہ ادھر ۔
آزما لیجئے ،
جہاں دنیا کے بہترین کردار و دماغ یعنی ہم اکٹھے ہوجائیں، حفظ مراتب کے حساب سے بلا تفریق اونگیاں و بونگیاں مارتے دیکھے جاسکتے ہیں ۔
قصیدہ خواں و عقیدت پرست و تلوے چاٹ قوم کے ماہر نباض حکیموں کے پاس تمام پوشیدہ و ظاہری امراض کے لئے نسخہ خاص موجود ہے ، مگر مرض موا بے شرم بھی ہے اور ہٹ دھرم بھی۔
صد غیر کہ سگمنڈ فرائیڈ ہمارے پاس نہیں،جو ہوتا تو ہمارے نفسیاتی تجزیوں سے علم نفسیات کی ایک نئی شاخ پھوٹتے ہی بنتی۔
اطلاقی تحقیق کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے سماج کو درپیش مسائل اہل علم کے سامنے رکھے توکئی دلچسپ پہلو سامنے آئے۔
ہمارے ایک مذہب برگشتہ دوست مسلمانوں کی موسمی ، رمضانی، محرمی، تہواری اور عاداتی اعتقادات و عبادات کو پرستش محض کا نام دیتے ہوئے شدید مذمت کرتے ہیں ۔
مکرمی مقدمے کی بنیاد اس نکتے پراٹھاتے ہیں کہ اگر یہ پوجا پاٹ کسی طور بھی منفعت بخش ہوتی تو اقوام عالم میں کروڑوں مسلمان یوں زلیل و خوار نہ ہورہےہوتے ۔
معروف کالم نگار و ادیب و ہمارے مربی ڈاکٹر طاہر مسعود ( سابق صدر نشیں، شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی)کے مطابق کائنات قوانین قدرت کے تابع ہے لہذا جو بھی ان کی روشنی میں خیر کا ڈول ڈالے گا اسے خیر ہی نصیب ہوگی۔ ببول بوکر گندم کی تمنا کار عبث کے سوا اور یے بھی کیا۔ تاہم محترم کے مطابق اقوام عالم کے مابین گردش لیل و نہار کا فطری اصول بھی ہمارے عروج و زوال کی ایک ممکنہ وجہ ٹھہرائی جاسکتی ہے۔
عالمی امور کے ماہر ڈاکٹر سید شجاعت حسین کی نظر میں مذہب غیرحقیقی تشریحات وغیر منطقی تاویلات نےہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔جب تک سوچ کادائرہ حقیقت پسندی کے ساتھ وسیع تر نہیں ہوگا حاصل ضرب صفر آئے گا۔
صاحبان فکر و دانش کی آراء بجا سو آئیے اس معاملے کے دیگر پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔
معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی فرد کی ذہنی،اخلاقی و علمی ترویج کس کی ذمے داری ہے؟
ریاست، حکومت، مذہبی علما، اساتذہ یا، والدین؟
چلیے اس فہرست میں میڈیا کا ٹنٹنا بھی شامل کیے لیتے ہیں ۔
یہاں کچھ سوالات سر اٹھاتے ہیں۔
درج بالا سماجی طبقات کا آپس میں کس قسم کا تعلق ہے؟
یہ اپنی اپنی ذمے داریوں سے کس حد تک آگاہ ہیں؟
ان کا دائرہ اختیار کہاں تک محیط ہے؟
انہوں نے معاشرے کے اجتماعی شعور کی افزائش کے لیے کس طرح کی حکمت عملی وضع کر رکھی ہے؟
یہاں ایک اور غور طلب امر کہ
آئین پاکستان کے تحت بننے والے تمام تر قوانین و ریاستی پالیسیاں کیا ہمیں درپیش معاشرتی مسائل کا قرار واقعی حل تفویض کرتے ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر بحیثیت قوم ایک طویل عرصے سے ہم تنزلی کے پاتال میں دھنستے ہی کیوں چلے جارہے؟ بصورت دیگر
خرابی کی اصل جڑ آخر ہے کہاں ؟۔۔
کیا کئی دہائیوں سے جاری صدارتی و پارلیمانی نظام کی رسہ کشی یا بالفاظ دیگر جمہوریت و آمریت کی چپقلش کو اس زبوں حالی کا ذمے دار ٹھہرایا جائے یا جدید نظریات و رجحانات کی اندھی تقلید کے نام پر کھلی آنکھوں قسم قسم کی مکھیاں نگل لینے کی عجلت و بوکھلاہٹ کو گراوٹ کی وجہ قرار دیا جائے؟
دین ،یعنی مکمل نظام حیات کو اپنانے سے اجتناب کرتے ہوئے محض عبادات و اعتقادات کی پیروی،ہماری اس ابتری کی بنیاد بنی یا پھر سچ, دیانت اور عدل سے گریز یعنی بدنیتی،ناانصافی و جھوٹ سے رغبت نے عالم اسلام کے ٹھیکیداروں کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے؟
اہل فکر کو یہ سراغ بھی لگانا ہوگا کہ تاریخ، اقوام کے زوال کے باب میں کن انفرادی و اجتماعی اعمال و محرکات کو ذمے دار قرار دیتی ہے۔
ذرا سوچئے کہ مفت دسترخوان بچھانے اور خیرات و زکواۃ کے ڈھیر لگا دینے والی، شعائر و کبائر اسلام کی علمبردار اس قوم کی پریشاں پگڈنڈیوں سے لیکر ہراساں موٹر ویز تک ، اٹے ہوئے قبرستانوں سے لیکر غاصب رہائشی کالونیوں تک، محفوظ اڈوں سے لیکر غیر محفوظ ٹھکانوں تک، روایتی مدارس سے لیکر جدید درسگاہوں تک، تجارتی مراکز سے لیکر اجتماعی عبادت گاہوں تک اور پنچایت و بیٹھک سے لیکر ایوان اقتدار و مسند عدل و انصاف کے نام لیواوں تک ظلم، نااہلی، بد نظمی اور بد انتظامی کا دور دورہ کیوں؟
اہل دانش یہ گتھی بھی سلجھائیں کہ بہترین امت کے اس عالم روسیاہی کو نصیب کے سر منڈھ دیں، خفیہ ہاتھ کی کارستانی قرار دیے کر مٹی پائیں، یا اس پاکھنڈ کے ڈانڈے یہود و ہنود سے جا ملائیں؟
جہاں اس انتہا پسند معاشرے میں فکری قحط نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور باعزت روزی روٹی کمانے کی جبری مشقت چکی کے پاٹوں کی طرح پیسے دے رہی ہے وہیں حرص و ہوس کا غیر مرئی عفریت افراد کی اخلاقی اقدار کو دھیرے دھیرے نگل رہا ہے۔ مزاحمت کاروں کی مدافعت دھیرے دھیرے دم توڑتی جارہی ہے۔
تاحد نگاہ تماش بینوں کا ایک ہجوم ہے۔
پورے اور مکمل سچ کی ایک قلعی کی مار،
دور تک سر ہی سر ہیں ۔
جھکے ہوئے ،مہر بہ لب ۔۔
کھوکھلے دعووں کے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے وجود۔
جون کا المیہ یہ تھا کہ جنہیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں،
میرا دکھ یہ ہے کہ کوا، کبوتر، الو اور عقاب ایک ہی صیاد کے اسیر ہوچلے۔