Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
گزشتہ تین دن میں بلوچ علحدگی پسند تنظیموں نے ایک بڑاقدم اٹھاتے ہوئے کیچ کے بعد نوشکی ، پنجگور اور تربت کے اس پاس بڑی گوریلا کارروائیاں کیں ۔ نوشکی میں ایف سی کیمپ پرچوبیس گھنٹہ لڑائی ہوئی۔ کئی فوجیوں کوشہید کرنے کادعوی بھی کیا۔ پنجگورمیں بھی فوج پرحملہ ہوا اوروہاں تین دن جم کرلڑائی ہوئی۔ بلوچ عیحدگی پسندوں نے ہلاکتوں کے ساتھ ڈرون طیارہ مارگرانے اوربکتربندگاڑی تباہ کرنے کا دعوا کیا۔ جبکہ نیول فورس کے فریگیٹ پر اٹیک کا بھی کہا جارہا ہے۔
یہ بلوچ گوریلا وارکی ایک بڑٰی جہت ہے کیونکہ کافی عرصے بلوچ قوم پرستوں میں یہ سوچ نظرارہی تھی کہ وہ فوج سے کسی میدان میں جم کرنہیں لڑسکے۔ جب تک وہ کسی میدان جنگ میں سامنے نہیں کرتے اس وقت تک اگلی جہت مشکل ہے۔ لگتا یہی ہے کہ بلوچ وارفئیر میں یہ بڑا قدم اٹھالیاگیا ہے۔ دراصل یہ ایک قسم کا فدائی حملہ تھا جوبی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے کیا تھا۔ اسان الفاظ میں خودکش اٹیک بھی کہہ سکتے ہیں۔
ان واقعات کی گونج دورتک سنائی دی حتی کہ لیٹ نائٹ امیرکن میڈیا نیوزمیں بھی یہ خبر نشر کی گئی۔ پھر بلوچ علیحدگی پسندوں کے سوشل میڈیا پر ٹویٹس اور سپیس میں ہزاروں افراد کا ان حملوں پر ڈسکشن جاری تھا جن میں بلوچ ایکٹوسٹ نے بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔
اتفاق سے ایک ٹویٹرسپیس میں بلوچ قوم پرستوں نے مجھے بھی اظہارخیال کی دعوت دی۔ وہاں طارق فتح بھی موجود تھے اور میرا ان سے بھی طویل ڈائیلا گ ہوا۔ جس کا زکر پھر کبھی سہی ۔ فی الحال بلوچوں سے ڈسکشن کا اظہارکرناچاہتا ہوں۔
میں نے عرض کیا کہ موجودہ اٹیک کو ڈسکس کرنے کی بجائے میں دوسوالات کرنا چاہتا ہوں۔ اپ لوگوں میں سے جو فرد بھی مناسب سمجھے اس کا جواب عنایت کردے ۔ سوال اول یہ تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ بلوچوں کو واپس پاکستان کے دھارے میں لایاجاسکے۔ علیحدگی کو ترک کردیں؟ا ن کا فوری جواب نفی میں تھا اور نواب نوروزخان کے قتل سے قلات کے پاکستان سے جبری الحاق کا پورا واقعہ دہرانے لگے تو میں نے کہا یہ واقعات میرے علم میں ہی۔ں لیکن اسکے باوجود سوال یہ ہے کہ جب بھٹو دور کے ملٹری ایکشن میں بلوچ نوجوان چار پانچ سال پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ گوریلا وار چھڑگئی اور اس وقت بھی ازاد بلوچستان کی جنگ ہورہی تھی لیکن جب جنرل ضیا پاورمیں ایا تواس نے بلوچوں کو رام کرلیا ، جنرل ضیا کے دورمیں پنجاب اورسندھ سیاسی طورپر ڈسٹرب ضرور رہے۔ لیکن بلوچستان حیرت انگیزطورپر پرسکون رہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لایا جاسکتا ہے۔ کیا اب بھی ایسا کوئی سیاسی حل ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب بلوچ قوم پرست رہنما نے یہ دیا کہ ایسا ممکن ہے اگر فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے اور ہمارے ساتھ مذکرات کئے جایئں ۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ آئی کہ بلوچوں کو اب بھی قومی دھارے میں رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔
اب میں نے دوسرا سوال داغا جودھماکا خیزتھا کہ فرض کیا جائے بلوچستان میں مکمل گوریلا وار چھڑجاتی ہے ۔ کوئی سیاسی حل نظرنہیں اتا تو مجھے یہ سمجھائیں کہ بلوچ فایٹر بلوچستان کیسے ازاد کرواسکتے ہیں؟
انھوں نے جواب دیا کہ ہمیں امارات ، ایران اور انڈیا سے مدد مل رہی ہے اور ہم جنگ جیت جائیں گے ۔
میں نے عرض کیا مشرقی پاکستان ایک ہزارکی جغرافیائی دوری پر واقع ، تین طرف سے انڈیا میں گھراہوا جبکہ خلیج بنگال میں انڈین کی ناکہ بندی اور ایک لاکھ پر مشتمل تربیت یافتہ مکتی باہنی چھ ماہ پاکستان ارمی سے جنگ لڑتی رہی لیکن بنگلہ دیش نہ بناسکی جبکہ وہاں ننانونے فیصد بنگالی ابادی بھی تھی تواس کے باوجود انڈین ارمی کو پاکستان ارمی سے جنگ لڑنا پڑی تب جاکربنگہ دیش بنا ،بلوچستان کی جغرافیائی اور فوجی پوزیشن مشرقی پاکستان سے قطعی مختلف ہے۔ یہاں بلوچ ابادی صوبے میں چالیس فیصد سے زیادہ نہیں، بارڈر بھی پنجاب سے ملتا ہے اور پھر کوئی ملک بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان سے جنگ لڑسکے ، مجھے یہ سمجھائیں کہ گوریلا وار سے ازاد بلوچستان کیسے بن سکتا ہے؟
اس بات پر وہاں ہنگامہ ہوگیا، سارے قوم پرست ایک ساتھ بولنے لگےکہ اپ کو حالات کاپتہ نہیں اوردنیا ہمارے ساتھ ہے، میں نے عرض کیاکہ مجھے حالات کا اچھی طرح پتہ ہے اور لمبی باتیں چھوڑ کر مجھے صرف اس سوال کا جواب دے دیں ۔ مجھے فوج کا ہمدرد نہ سمجھیں۔ میں صرف اپنی نالج کے لئے دریافت کررہا ہوں۔ میں نے ساتھ ہی کردستان کی مثال بھی دی کہ بلوچ ، کردوں جتنی مزاحمت نہیں کرسکتے یا فلسطینیوں جتنی گوریلا جنگ نہیں لڑسکتے حالانکہ انھیں اس وقت سوویت یونین کی امداد بھی حاصل تھی ۔ لیکن اس گروپ نے میرا مائیک بندکردیا اور سب مل کرمیرے خلاف باتیں کرنے لگے۔
مجھےان سے سنجیدہ روئے اور ڈائلاگ کی توقع تھی لیکن وہ جذباتی روئہ اختیار کرچکے تھے اور تصوراتی باتیں کررہے تھے، حیرت ہوتی ہے کہ بلوچ فائٹر ایک بڑی گوریلا جنگ لڑرہے ہیں اور انھیں بین الاقوامی حالات اورسٹریٹجک معاملات کا اندازہ بھی نہیں ۔
گزشتہ تین دن میں بلوچ علحدگی پسند تنظیموں نے ایک بڑاقدم اٹھاتے ہوئے کیچ کے بعد نوشکی ، پنجگور اور تربت کے اس پاس بڑی گوریلا کارروائیاں کیں ۔ نوشکی میں ایف سی کیمپ پرچوبیس گھنٹہ لڑائی ہوئی۔ کئی فوجیوں کوشہید کرنے کادعوی بھی کیا۔ پنجگورمیں بھی فوج پرحملہ ہوا اوروہاں تین دن جم کرلڑائی ہوئی۔ بلوچ عیحدگی پسندوں نے ہلاکتوں کے ساتھ ڈرون طیارہ مارگرانے اوربکتربندگاڑی تباہ کرنے کا دعوا کیا۔ جبکہ نیول فورس کے فریگیٹ پر اٹیک کا بھی کہا جارہا ہے۔
یہ بلوچ گوریلا وارکی ایک بڑٰی جہت ہے کیونکہ کافی عرصے بلوچ قوم پرستوں میں یہ سوچ نظرارہی تھی کہ وہ فوج سے کسی میدان میں جم کرنہیں لڑسکے۔ جب تک وہ کسی میدان جنگ میں سامنے نہیں کرتے اس وقت تک اگلی جہت مشکل ہے۔ لگتا یہی ہے کہ بلوچ وارفئیر میں یہ بڑا قدم اٹھالیاگیا ہے۔ دراصل یہ ایک قسم کا فدائی حملہ تھا جوبی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے کیا تھا۔ اسان الفاظ میں خودکش اٹیک بھی کہہ سکتے ہیں۔
ان واقعات کی گونج دورتک سنائی دی حتی کہ لیٹ نائٹ امیرکن میڈیا نیوزمیں بھی یہ خبر نشر کی گئی۔ پھر بلوچ علیحدگی پسندوں کے سوشل میڈیا پر ٹویٹس اور سپیس میں ہزاروں افراد کا ان حملوں پر ڈسکشن جاری تھا جن میں بلوچ ایکٹوسٹ نے بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔
اتفاق سے ایک ٹویٹرسپیس میں بلوچ قوم پرستوں نے مجھے بھی اظہارخیال کی دعوت دی۔ وہاں طارق فتح بھی موجود تھے اور میرا ان سے بھی طویل ڈائیلا گ ہوا۔ جس کا زکر پھر کبھی سہی ۔ فی الحال بلوچوں سے ڈسکشن کا اظہارکرناچاہتا ہوں۔
میں نے عرض کیا کہ موجودہ اٹیک کو ڈسکس کرنے کی بجائے میں دوسوالات کرنا چاہتا ہوں۔ اپ لوگوں میں سے جو فرد بھی مناسب سمجھے اس کا جواب عنایت کردے ۔ سوال اول یہ تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ بلوچوں کو واپس پاکستان کے دھارے میں لایاجاسکے۔ علیحدگی کو ترک کردیں؟ا ن کا فوری جواب نفی میں تھا اور نواب نوروزخان کے قتل سے قلات کے پاکستان سے جبری الحاق کا پورا واقعہ دہرانے لگے تو میں نے کہا یہ واقعات میرے علم میں ہی۔ں لیکن اسکے باوجود سوال یہ ہے کہ جب بھٹو دور کے ملٹری ایکشن میں بلوچ نوجوان چار پانچ سال پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ گوریلا وار چھڑگئی اور اس وقت بھی ازاد بلوچستان کی جنگ ہورہی تھی لیکن جب جنرل ضیا پاورمیں ایا تواس نے بلوچوں کو رام کرلیا ، جنرل ضیا کے دورمیں پنجاب اورسندھ سیاسی طورپر ڈسٹرب ضرور رہے۔ لیکن بلوچستان حیرت انگیزطورپر پرسکون رہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لایا جاسکتا ہے۔ کیا اب بھی ایسا کوئی سیاسی حل ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب بلوچ قوم پرست رہنما نے یہ دیا کہ ایسا ممکن ہے اگر فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے اور ہمارے ساتھ مذکرات کئے جایئں ۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ آئی کہ بلوچوں کو اب بھی قومی دھارے میں رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔
اب میں نے دوسرا سوال داغا جودھماکا خیزتھا کہ فرض کیا جائے بلوچستان میں مکمل گوریلا وار چھڑجاتی ہے ۔ کوئی سیاسی حل نظرنہیں اتا تو مجھے یہ سمجھائیں کہ بلوچ فایٹر بلوچستان کیسے ازاد کرواسکتے ہیں؟
انھوں نے جواب دیا کہ ہمیں امارات ، ایران اور انڈیا سے مدد مل رہی ہے اور ہم جنگ جیت جائیں گے ۔
میں نے عرض کیا مشرقی پاکستان ایک ہزارکی جغرافیائی دوری پر واقع ، تین طرف سے انڈیا میں گھراہوا جبکہ خلیج بنگال میں انڈین کی ناکہ بندی اور ایک لاکھ پر مشتمل تربیت یافتہ مکتی باہنی چھ ماہ پاکستان ارمی سے جنگ لڑتی رہی لیکن بنگلہ دیش نہ بناسکی جبکہ وہاں ننانونے فیصد بنگالی ابادی بھی تھی تواس کے باوجود انڈین ارمی کو پاکستان ارمی سے جنگ لڑنا پڑی تب جاکربنگہ دیش بنا ،بلوچستان کی جغرافیائی اور فوجی پوزیشن مشرقی پاکستان سے قطعی مختلف ہے۔ یہاں بلوچ ابادی صوبے میں چالیس فیصد سے زیادہ نہیں، بارڈر بھی پنجاب سے ملتا ہے اور پھر کوئی ملک بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان سے جنگ لڑسکے ، مجھے یہ سمجھائیں کہ گوریلا وار سے ازاد بلوچستان کیسے بن سکتا ہے؟
اس بات پر وہاں ہنگامہ ہوگیا، سارے قوم پرست ایک ساتھ بولنے لگےکہ اپ کو حالات کاپتہ نہیں اوردنیا ہمارے ساتھ ہے، میں نے عرض کیاکہ مجھے حالات کا اچھی طرح پتہ ہے اور لمبی باتیں چھوڑ کر مجھے صرف اس سوال کا جواب دے دیں ۔ مجھے فوج کا ہمدرد نہ سمجھیں۔ میں صرف اپنی نالج کے لئے دریافت کررہا ہوں۔ میں نے ساتھ ہی کردستان کی مثال بھی دی کہ بلوچ ، کردوں جتنی مزاحمت نہیں کرسکتے یا فلسطینیوں جتنی گوریلا جنگ نہیں لڑسکتے حالانکہ انھیں اس وقت سوویت یونین کی امداد بھی حاصل تھی ۔ لیکن اس گروپ نے میرا مائیک بندکردیا اور سب مل کرمیرے خلاف باتیں کرنے لگے۔
مجھےان سے سنجیدہ روئے اور ڈائلاگ کی توقع تھی لیکن وہ جذباتی روئہ اختیار کرچکے تھے اور تصوراتی باتیں کررہے تھے، حیرت ہوتی ہے کہ بلوچ فائٹر ایک بڑی گوریلا جنگ لڑرہے ہیں اور انھیں بین الاقوامی حالات اورسٹریٹجک معاملات کا اندازہ بھی نہیں ۔