یہ انچاس سال پرانی بات ہے، یہی دسمبر کا مہینہ تھا، پاکستان اور بھارت کے درمیان قیامت خیز جنگ ہورہی تھی۔ اسی جنگ کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا اور اس کا مشرقی بازو بنگلہ دیش بن گیا۔ لیکن اب دونوں ملکوں کی نئی نسل کو شاید اس بات کا علم ہی نہ ہو، کیونکہ نصاب میں1971کی جنگ ہی کیا، تاریخ پاکستان ہی شامل نہیں۔
جنگ کے اسباب تو بہت سے تھے، 14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے بعد ہی سے بھارت نے پاکستان کے خاتمہ کے لئے اپنی سازشوں کا آغاز کردیا تھا۔ چونکہ پاکستان کے دو بازو تھے، ایک مغربی پاکستان جس میں ہم لوگ آباد ہیں یعنی پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اور دوسرا ایک ہزار میل دور مشرقی پاکستان۔ جس میں صرف ایک لسانی اکائی یعنی بنگالی آباد تھے اور ان کی صرف ایک زبان یعنی بنگالی تھی۔ جبکہ مغربی پاکستان میں کئی لسانی اورنسلی قومیتیں تھیں اور ان کی علاقائی زبانیں بھی کئی تھیں۔ اتحاد کی بنیاد اسلام اور اردو زبان تھی۔ بھارت نے اسلام کو نشانہ بنانے کے بجائے نسلی اور لسانی تعصب کو ہوا دی اور بنگالیوں نے ابتداء ہی میں بنگالی زبان کو سرکاری بنانے کا مطالبہ کردیا۔
دوسری جانب مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا رویہ بھی بھارت کے حق میں رہا۔ یعنی یہ کہ آبادی کے اعتبار سے مشرقی پاکستان کی شرح ساٹھ فیصد ہونے کے باوجود انہیں حقِ حکمرانی نہیں ملا۔ پھر 1957کے جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نے رہی سہی کسر پوری کردی اور بنگالیوں میں یہ احساس بڑھتا چلا گیا کہ ان پر پہلے انگریز حکومت کررہے تھے اور اب مغربی پاکستان۔
اسی دوران بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں مشرقی پاکستان کے عوام میں نفرت اور تعصب کا زہر بہت کمال کا ساتھ سرایت کرتی رہیں۔ کیونکہ مشرقی پاکستان تین طرف سے بھارت میں گھر ا ہوا تھا اور مغربی بنگال کے ہندو بہت آسانی سے سرحد پارکرکے مشرقی پاکستان آتے جاتے تھے جبکہ مشرقی پاکستان میں بھی ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں بنگالی نوجوانوں میں نفرت اور تعصب کو ہوا دیتے رہے۔
اسی دوران دسمبر 1970کے انتخابات ہوئے، وہ پاکستان کے پہلے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات تھے۔ جن میں عوامی لیگ نے، جس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن تھے، بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی تھی۔ اس وقت ملک میں مارشل لاء تھا اور جنرل یحییٰ خان حکمران تھے۔ انہوں نے اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہیں کیا، بلکہ ملک کی سلامتی کے نام پر عوامی لیگ کے خلاف کارروائی کردی۔ وہ بہت بڑی تاریخی غلطی تھی جس نے ملک کو دولخت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ملک کے مشرقی بازو کے علیحدگی پسندوں کو یہ بہت بڑا بہانہ مل گیا کہ عام انتخابات میں کامیابی کے باوجود انہیں حق حکمرانی نہیں ملا۔ چنانچہ انہوں نے بھارت کی شہ پر مکتی باہنی بنائی اور گوریلا جنگ شروع کردی۔ بھارت نے مظلوم بنگالیوں کی مدد کابہانہ بناکر 3 دسمبر 1971کو مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور چند دن بعد ہی مغربی پاکستان پر بھی حملہ کردیا۔
میں اس زمانے میں نویں جماعت میں تھا، میں نے بھی بوائے اسکاؤٹ کی حیثیت سے کام کیا اور اپنے فوجی بھائیوں کے لئے کراچی میں اپنے محلے میں گھر گھر جاکر امدادی سامان جمع کیا۔
دسمبر 1971 کی پاک بھارت جنگ بہت خوفناک تھی۔ جنگ تو ویسے ہی خوفناک ہوتی ہے۔ لیکن میرے ہوش میں وہ پہلی جنگ تھی اور میری دعا تھی کہ آئندہ اس قسم کی کوئی جنگ نہ ہو۔ بمباری سے دل لرز جاتے اور دل ہی کیا؟ ہمارا پورا گھر لرز جاتا۔ ہم لوگ اپنے گھر کے تہہ خانے میں چلے جاتے اور رات وہیں گزارتے تھے۔ کراچی میں بھارت نے بہت بمباری کی۔ خاص طور پر آگرہ تاج کالونی اور بہار کالونی نشانہ بنے۔ ایک رات بھارتی طیاروں نے کیماڑی پر پی ایس او کے تیل کے ذخیرے پر بمباری کردی۔ جس سے اٹھنے والے دھویں کو پورے شہرسے دیکھا جاسکتا تھا اور کراچی کے شہری اس سے بہت پریشان ہوئے۔
آخر کار جنگ کا خاتمہ 16 دسمبر کو اس افسوسناک خبر سے ہوا کہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا اور بھارت کی بھرپور مدد سے وہ بنگلہ دیش کے نام سے الگ ملک بن گیا۔ اس اطلاع سے ہم سب کو خاص طور پر ابو کو بہت صدمہ ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن سقوط مشرقی پاکستان ہوا، اس رات ابو نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ ہماری نوے ہزار فوج کو بھار ت نے جنگی قیدی بنالیاتھا۔
اب بھی اس تلخ جنگ کی یادیں دل کو بہت تڑپاتی ہیں۔ کاش اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں ابتداء ہی سے اسلام کی بالادستی ہوتی اور حکمران مخلص ہوتے تو پاکستان ایک رہتا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام مل کر حکومت کرتے تو اس وقت حالات بہت بہتر ہوتے۔ لیکن وہی بات کہ ہمیں دشمن نے نہیں بلکہ ہمیشہ غداروں نے نقصان پہنچایا ہے۔