ADVERTISEMENT
فرانس جو کہ دنیا میں اپنے آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ ملک کہلواتا ہے اس کی جانب سے سرکاری سطح پر توہین آمیز کارٹونوں کی نمائش کرکے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنا کسی سوچے سمجھے منصوبے سے کم نظر نہیں آتا۔
اسلام کی سب سے معزز شحصیت کومغرب کے ممالک آخر کار کیوں نشانہ بناتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی طرف سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کے مذہبی جذبات کو اسطرح ٹھیس پہنچائی جائے۔مغرب کے کچھ ممالک یہ سلسلہ اب سے نہیں بلکہ کافی برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ توہین آمیز مواد شائع کرکے مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگادی جاتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ قرآن پاک تک کوایک امریکی شہری ٹیری جونز نے سرعام جلایا جبکہ اسی قسم کی مذموم کوشش ناروے میں گزشتہ سال نومبرمیں کی گئی جبکہ پولیس اور عوام وہاں یہ سب دیکھ رہے تھے۔
یہ سب کیوں کیا جارہا ہے اسکا جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہی مغربی ممالک یہودیوں کے ہولوکوسٹ کے متعلق کچھ بھی کہنے اور لکھنے سے گریزاں رہتے ہیں کہ اس سے یہودیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں مگراسلام کی سب سے مقدم ہستی کے متعلق اس گستاخانہ عمل پیرانہیں مسلمانوں کے جن بات کی ذرا برابربھی پروا نہیں ہوتی۔ اس پر مسلمان شدید غم وغصے کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر ان ممالک کی حکومتیں آزادی اظہار کے حق کی دلیل پیش کرتے ہوئے کسی بھی ذمہ دار فرد کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کرسکی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں کئی پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے جن میں چند ہفتے قبل چارلی ہیبڈو کے کچھ کارکنوں کو چاقو کے وار کرکے زخمی کردیا تھا جبکہ اسی سلسلے کا ایک اور اہم واقعہ ایک سکول میں پیش آیا تھا جس میں ایک چیچن لڑکے نے استاد کو اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے کلاس میں توہین آمیز خاکوں کو دکھایا تھا۔ جب مغرب کے ممالک میں ایسی حرکتیں ہوتی ہیں تو اسکا اثر دوسرے ممالک پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی انہی کی تقلید میں ایسے توہین آمیزمواد کو فلموں اور کتابوں کے ذریعے سے پیش کرتے ہیں۔
اس میں قصور کچھ ان نام نہاد مسلمانوں کا بھی ہے جنہوں نے مغرب میں اپنے ذاتی مفادات کیلئے ایسی گستاخانہ تہذیب کے زیراثر خالصتاً تحریریں بھی لکھیں جن سے نہ صرف ان لوگوں کو مغربی ممالک میں سستی شہرت اور پناہ ملی بلکہ وہاں انہیں بے شمار سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔ ان میں برطانوی شہری سلمان رشدی اور بنگلہ دیش کی مصنفہ تسلیمہ نسرین کے نام سرفہرست ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مغرب کو اتنی ترقی اور تہذیب یافتہ ہونے کے باوجود کیا خوف دل میں رہتا ہے جو ان کے خیال میں مسلمانوں کے مذہبی رہنماوں کو نعوذبااللہ نیچا کرنے سے ہی دور ہوسکتا ہے۔ ایک بہت عام اور بہت حد تک درست نظریہ تو یہ ہے کہ دین اسلام کے سب بڑے رہبراور ھادی برحق کے متعلق وہ اس قسم کے حرکات کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلاکر ان کو جنونی، انتہاپسند اور دہشت گرد ثابت کرنا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے ایسے عوامل مسلمانوں کے دلوں میں اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کی محبت میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ یہ جس کو مٹانا چاہتے ہیں وہ مٹ نہیں سکتی بلکہ ان کی اس ناپاک جسارت کی بدولت اس میں مزید حرارت پیدا ہوتی ہے۔ جہاں یہ امرقابل ذکر ہے وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومتوں کی سطح پر نہ سہی مگر اربوں مسلمانوں کے دلوں میں ان مذموم حرکتوں کے باعث مغرب کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذہنوں میں سے مغرب کی نام نہاد تہذیب اور دوغلے پن کی قلعی بھی کھل رہی ہے۔
اگر مغرب کے یہ ممالک اتنے ہی آزادی اظہار کے پرستار اور دیوانے ہیں تو پھر یہ یہودیوں کے ہولوکوسٹ پر تصویری نمائش اور کارٹون بنا کر دکھائیں۔ یہ بتائیں کہ کیوں انہوں کے اینٹی کرائسٹ پر بننے والی فلموں پر احتجاج کئے اور انکو رکوانے کی کوششیں کی۔ مغرب اگر اتنا ہی انسان دوست اور انسانی حقوق کا چمپین بنتا ہے تو اس سمت میں سب سے پہلے اسے انسانی جذبات کی قدر کرنا سیکھنا چاہیئے کیونکہ یہی ایک دوسرے کو قریب لانے، سمجھنے اور مددگار بننے کا بنیادی اصول ہے۔ اگر انسانیت کےاس بنیادی کلیہ پر عمل نہیں کیا جاتا تو پھر اسکے نتیجہ کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں صرف مغرب پر ہی ہو گی کیونکہ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ غور کیاجائے تو یہ سب کچھ ایک منصوبہ کا حصہ لگتا ہے جس میں کوئی کردار ساز ہے اور کوئی اداکار ہے۔
اگر ایک ملک کوئی توہین آمیز حرکت کرتا ہے تو دیگر خاموش تماشائی کا کردارادا کرتے ہیں جبکہ اصل میں فائدہ کسی تیسرے کا نظر آرہا ہے۔ اس کی واضح وجہ دکھا ئی دیتی ہے کہ یہ سب اگر اپنے آپ کو شریک جرم بنالیتے ہیں تو ان سب کے عرب ممالک بالخصوص اور مسلم ممالک بالعموم سے وابسطہ معاشی مفادات پرگزند پہنچتی ہے۔ اسی منصوبے کا پہلا پارٹ مسلمانوں پردہشت گردی کا لیبل لگانا تھا جس میں یہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے۔ جس کی وجہ اسلام کو دبانے کی کوشش میں مغرب کا اسلام کا اتنا ہی مطالعہ اور اسکی جانب رحجان ہے۔ پہلے دنیا بھر میں تحریب کاری اور دھماکوں کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی جاتی تھی مگر اب ہندووں نے کشمیر میں اور بھارت میں اقلیتوں پر اور اسرائیل کے فلسطینوں پر مظالم کی داستانوں نے اس تاثرکو بھی کسی حد تک کم کردیا ہے مگر اصل منصوبہ اب بھی میدان میں موجود اور زور و شور سے عمل پذیر معلوم ہورہا ہے۔ اب جب ان منصوبہ سازوں کے پاس کوئی چارہ باقی نہیں رہا تو انہوں نے مسلمانوں کےلیے سب سے محترم اور مقدم ہستی کوایک دفعہ پھر نشانہ بنایا ہے کیونکہ منصوبہ ساز اور مغرب کا انتہا پسند طبقہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ انہیں نعوذبااللہ خرف تنقید بنانے میں کامیاب ہوگے تو آپ صلى الله عليه وسلم کی سچائی اور دیانتداری پر کھڑی اسلام کی عظیم الشان عمارت خود بحود نیچے آجائے گی جس سے مسلمانوں میں بھی جذبہ ایمانی میں وہ شدت باقی نہ رہے گی۔ اس وقت جبکہ عرب دنیا میں اسرائیل کی بابت نظریات تبدیل ہو رہے ہیں تو قوی امکان ہے کہ یہ انتہائی قابل مذمت حرکت اسرائیل کے ایما پرکی گئی ہو جو بیت المقدس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کرنا چاہتا ہے اور اگلے مرحلہ میں داخل ہونے سے پہلےاس پر عام مسلمانوں کے ردعمل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرنا چاہتا ہو کہ اس گھناونے فعل کو کرتے ہوئے مسلمان کچھ نہ کرسکیں۔ مگر یہ اس کی بھول اور وہم ہے۔ ما ضی میں بھی بہت سے ایسے منصوبے بنائے گئے مگر کوئی کامیاب نہ ہو سکا۔ اس طرح یہ منصوبہ بھی کبھی کامیاب نہ ہوگا۔ مسلمان چاہے جیسا ہی کیوں نہ ہو آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات اور شخصیت پرکوئی حرف آئے یہ اس کی غیرت کو گوارا نہیں ہوسکتا۔ اپنے نبی کی حرمت اور اپنے مقدس مقام کی حفاظت کیلیے مسلمان جان تک دینےکو ہر وقت تیار ہیں اور جب تک یہ جذبہ زندہ ہے کوئی منصوبہ اور سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔